Tuesday, 14 January 2014

STYLE

AOA...................................................................................................................................................................

HAPPY ............................................................................................................................................TODAY ..










ASIF

Saturday, 11 January 2014



مارکسزم اور قوم پرستی کی سیاست )

مارکسزم اور قوم پرستی کی سیاست )

ibhinder@yahoo.co.uk
جب قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی یا خود مختاری کا سوال اٹھتا ہے تو یہ دیکھنا بھی لازمی ٹھہرتا ہے کہ دوسری طرف سے حقیقی مطالبہ کس کا ہے۔ اگر تو مطالبہ عوام کے جذبات کے استحصال پر قائم کیا گیا ہے، یا پھر دوسری طرف کسی ایسی ریاست کے مفادات ہیں کہ جو نئی آزاد ہونے والی ریاست کی بورژوازی کو باآسانی بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے زیر تسلط لاسکتی ہے تو ایسے مطالبے کے حق میں کھڑے ہونا بورژوازی اور سامراجی یلغار کی زد میں آنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں اس وقت ’’بلوچ قوم پرستی‘‘ کی ’تحریک‘ کو اس مظہر کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
مارکسزم کی سیاست میں فرقہ پرستی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، تاہم بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چند ایسے گروہ موجود ہیں جو طبقات کی بنیاد پر حقیقی جدوجہد کرنے کے بجائے رنگ، نسل، قوم پرستی اور مذہب کی سیاست کی جانب مڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ قوم پرستی کے سوال پر لینن واضح کردیتا ہے کہ ’’بورژوا قوم پرستی اور پرولتاریہ بین الاقوامیت دو مخالف نعرے ہیں جو سرمایہ دارانہ دنیا میں دو مختلف طبقات کی نمایندگی کرتے ہیں اور قومی سوال پر دو مختلف پالیسیاں رکھتے ہیں۔‘‘ مزید یہ کہ ’’ہر جدید قوم میں دو اقوام ہوتی ہیں۔‘‘ دو اقوام کی یہ بنیاد طبقاتی ہے: ایک وہ جو ذرایع پیداوار پر قابض ہے اور دوسرا وہ محکوم طبقہ جو اس کے لیے قدر زائد کو پیدا کرتا ہے۔ قوم پرستی کی ہر تحریک کی حمایت یا مخالفت اسی بنیاد کے پیش نظر کی جانی چاہیے۔ ہر قوم کے اندر دو اقوام کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی دو قسم کے مسلمان ہیں: ایک حاکم دوسرا محکوم۔ لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والے اس حقیقت کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی زبان بولنے والے بھی طبقاتی سطح پر منقسم ہیں۔ حقیقی اتحاد لسانی ، مذہبی، نسلی اور علاقائی امتیازات کے بجائے طبقاتی تفریق کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔
بورژوا فلسفے میں ’’قوم پرستی‘‘ حکمرانوں کی آئیڈیالوجی کے علاوہ کچھ نہیں، جسے بورژوا سیاست میں بہت اہمیت حاصل ہے اور جسے حکمرانوں کے مفادات کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بورژوا سیاست میں قوم پرستی کا مقصد خود میں مضمر حقیقی تضاد کو مخفی رکھنا اور اس کے برعکس فرضی تضادات کو تقویت دینا ہوتا ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سرمایہ داری نظام میں قوم پرستی ایک کلیت پسند اور مرکزیت پسند رجحان ہے جو ایک ہی ملک میں مختلف اقوام کی ثقافت، تہذہب، زبان، مذہب اور علاقائیت کے مابین امتیاز و تفریق کو فراموش کرکے انھیں ایک جبری ’’شناخت‘‘ عطا کرتی ہے۔ یہی وہ جبر ہے جو مظلوم اقوام پر روا رکھا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے قوم پرستی اپنی سرشت میں ردِ تکثیریت کی عکاسی کرتی ہے۔ نائن الیون کے بعد جب مغرب و امریکا میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مقصود تھا تو ذرایع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف مسیحی جذبات کو بھڑکایا گیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے جذبات کا انگیخت ہونا بھی لازمی امر تھا۔ برطانیہ میں مسیحی قوم پرستی اور فسطائی رجحانات کو تقویت ملی اور تکثیری معاشرے کی نفی ہوئی۔ تکثیری معاشرہ اقوام کی ’’بلند سطح پر وحدت‘‘ کو قائم کرتا ہے، مگر یہ وحدت سرمایہ داری نظام کے بحران کے ساتھ ہی منہدم ہونے لگتی ہے۔
دائیں بازو کے رجعتی رجحانات یعنی مذہبیت، علاقائیت، نسل پرستی وغیرہ جیسی شناختیں مستحکم ہونے لگتی ہیں۔ برطانیہ میں جنم لینے والے مسلمان جو خود کو برطانوی سمجھتے تھے ان کے مذہب کو دہشت گردی سے جوڑ کر انھیں یہ باور کرایا گیا کہ قومیت کے تصور میں مذہب کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، جب کہ دوسری طرف مذہبی جذبات کا استحصال کرکے مسیحیوں کو برطانویت کے قریب لایا جارہا تھا۔ امریکی صدر جارج بش نے ’’کروسیڈ‘‘ کا لفظ استعمال کرکے اقوام کا تعین مذہب کی بنیاد پر کیا۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ میں مقیم اقلیتوں کو باور کرایا کہ برطانیہ میں مقیم دیگر اقوام پر ’’برطانویت‘‘ کا خیال رکھنا لازم ہے۔ حکمران طبقات لسانی، علاقائی، مذہبی اور نسلی امتیازات کا فائدہ محض اپنے مفادات کے پیش نظر اٹھاتے رہتے ہیں۔ بنیادی مقصد ان کا صرف یہ ہوتا ہے کہ انھیں بھی حکمرانی میں شراکت دار بنایا جائے تاکہ وہ بھی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے رہیں۔
پاکستان میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ کبھی بلوچی قوم پرستی، پشتون قوم، سندھی قوم پرست اور کبھی لسانی بنیادوں پر اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے۔ آخری تجزیے میں لسانی، علاقائی، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عوام کے اذہان کو قومیتوں میں تقسیم کرنا فسطائیت سے ہم آہنگ ہونے کے مترادف ہے۔ قومیت ایک انتہائی پیچیدہ اور مبہم اصطلاح ہے، جس کی کوئی ایسی تعریف ممکن نہیں ہے کہ جس پر تمام سماجی سائنسدان متفق ہوسکیں، تاہم اس کے باوجود جوزف اسٹالن نے قوم پرستی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایک قوم تاریخی طور پر تشکیل پائے ہوئے ایسے طبقے (Community) پر مشتمل ہوتی ہے جو مشترک زبان، علاقہ، معاشی زندگی اور نفسیاتی عمل کا یکساں کلچر کے طور پر اظہار کرے۔‘‘ اگرچہ اسٹالن کی یہ تعریف جامع ہے، مگر اس کے باوجود مکمل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ ہر خطے اور علاقے کے لیے اس کا متعلقہ اور درست ہونا لازمی نہیں ہے۔ تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مذہب ایک اہم عامل کے طور پر ہمیشہ مختلف نسلوں، متنوع لسانی پس منظر اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے سیمنٹ کا کام دیتا رہا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اس کی سب سے جامع مثال ہے کہ جس میں محض مذہب کے نعرے کے تحت ایک الگ ملک کے قیام کو ممکن بنالیا گیا۔
ایک ہی ثقافتی اور سماجی پس منظر رکھنے والی قوم کی نفسیات دو حصوں میں منقسم ہوئی۔ عہد رفتہ میں اگر بلوچستان کی جانب دیکھنے سے عیاں ہوگا کہ جومذہبی آئیڈیالوجی پاکستان کی تخلیق کا باعث بنی، وہ پاکستانی ریاست کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے ناکافی معلوم ہورہی ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں علیحدگی کا مطالبہ جس ’’قوم پرستی‘‘ کی بنیاد پر کیا جارہا ہے اس کی آئیڈیولاجیکل حیثیت بھی اتنی ہی مشکوک ہے جتنی کہ لسانی یا مذہبی بنیادوں پر مشکوک ہوسکتی ہے۔ بورژوا عقلیت کا بنیادی نقص ہی یہ ہے کہ جب یہ خارجی سطح پر حقیقی تضادات کی عملی تحلیل میں ناکام رہتی ہے تو محض اپنی بقا کے لیے ان کے مقابل فرضی تضادات کی تشکیل کرتی ہے۔ عوام کے اذہان میں ان تضادات کو ٹھونسا جاتا ہے، انھیں یقین دلایا جاتا ہے کہ حقیقت یہی ہے جو ان کو بتائی جارہی ہے، بالآخر عوام اس فرضی حقیقت کوہی حقیقی گرداننے لگتے ہیں۔ ’’قوم پرستی‘‘ ایک ایسا ہی تضاد ہے، جو طبقات کے درمیان حقیقی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے، جسے وحشت و بربریت اور تشدد ودہشت کی عکاس سرمایہ دارانہ حکومت کے مفادات اور اقتدار کے دورانیے کی توسیع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک ایسے عہد میں جہاں پیداواری قوتوں کے ارتقا اور سرمائے کی عالمگیریت کے نتیجے میں پرانی تشکیلات کے انہدام کا عمل تیزی سے جاری ہو اور کسی ایسی ’’شناخت‘‘ کے وجود میں آنے کے امکانات مفقود ہوں جو نئی تشکیلات سے ہم آہنگ ہوسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانی، قومی، ثقافتی، نسلی اور مذہبی حوالوں سے قائم شدہ پرانے ’’تعینات‘‘ جن تصورات پر قائم تھے وہ غیر متعلقہ ہوچکے ہیں۔ اس لیے جب تک نئی صورتحال کا معروضی اور مقرونی (Concrete) تجزیہ نہ کرلیا جائے پرانے دعوؤں کی سچائی کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ عہد حاضر میں کمزور اقوام پر سامراجی قبضوں کی نوعیت اٹھارویں اور انیسویں صدی سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔

آئی ایم ایف اور قرض

آئی ایم ایف اور قرض

پاکستان نے آئی ایم ایف کو 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی 25 ویں قسط ادا کردی ہے۔ اس طرح پاکستان نے آئی ایم ایف کو 6 ارب 24 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کردی ہے۔ رواں مالی سال جس کا آغاز جولائی 2013 سے ہوا تھا آئی ایم ایف کو 1 ارب 91 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کر دیے گئے ہیں۔ حالیہ ادائیگی کے بعد پاکستان کے ذمے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت لیے گئے قرض میں سے ایک ارب 38 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی رقم بقایا رہ جائے گی جوکہ ستمبر 2015 تک ادا کرنا ہوں گے۔
پاکستان اور کئی ترقی پذیر ممالک ایسے ہیں جوکہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس ادارے نے ترقی پذیر معیشتوں کی امداد کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی اور بہت سے ترقی پذیر ممالک اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اگر ترقی پذیر ممالک کو اس ادارے کے پروگرام سے فوائد حاصل ہوتے تو بین الاقوامی تجارت میں ترقی پذیر ملکوں کا حصہ بڑھ چکا ہوتا۔ آئے روز جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے تو پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک لرزہ براندام ہوجاتے ہیں۔ ترقی پذیر معیشتوں کی برآمدات کا بڑا حصہ زرعی خام مال اور زراعت پر مبنی صنعتی پیداوار پر ہوتا ہے۔ جس سے انھیں کم زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک سے جو مصنوعات اور ترقی پذیر ممالک ملکی ترقی کی خاطر جتنی مشینریاں درآمد کرتے ہیں ان کی قیمتیں انتہائی بلند ہوتی ہیں اور بالآخر توازن تجارت اکثر و بیشتر ان ممالک کے حق میں نہیں ہوتا اور توازن ادائیگی مشکلات کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔
ایسی صورت میں آئی ایم ایف آگے بڑھتا ہے اور قرض کا ڈول ڈالتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی پسندیدہ اور ناپسندیدہ شرائط رکھ کر قرض کی فراہمی پر آمادہ ہوتا ہے۔ 1993 کے بعد جب تیل کی عالمی قیمتیں اچانک بلند ہوگئیں۔ جب سے ہی پٹرولیم قیمتوں میں آئے دن اضافے سے ترقی پذیر ممالک کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے 1974 میں ایک فنڈ قائم کیا گیا جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہونے والے ممالک کو ادائیگیوں کی سہولت بہم پہنچائی جاتی ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک اس ادارے کی پالیسیوں سے نالاں ہوتے چلے گئے اور کئی ممالک قرض لینے سے اجتناب برتنے لگے۔ 2006 میں جب ایک دفعہ تیل کی قیمتیں تیزی سے بلند ہوتے ہوئے ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر رہی تھی، فوری طور پر آئی ایم ایف نے ترقی پذیر ممالک خصوصاً افریقی ملکوں کے لیے تیل کی ادائیگی کے سلسلے میں پیش آنے والے سخت ترین مالی مشکلات کے حل کا ایک پیکیج متعارف کرایا۔ لیکن بیشتر افریقی اور کئی ترقی پذیر ملکوں نے آئی ایم ایف سے قرض لینے سے انکار کردیا۔
مارچ 2008 میں جب نئی حکومت قائم ہوئی تھی چند ہی ماہ کئی وزیر خزانہ اور مشیر خزانہ آتے رہے۔ جیسے تیسے بجٹ 2008-09 پیش کرنے کے بعد پاکستان کے مالیاتی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دی جانے لگی۔ اس لیے کہ بجٹ پیش کرتے وقت بہت سی توقعات باندھ لی گئی تھیں کہ فلاں دوست ملک سے اتنی امداد مل جائے گی۔ اس دوران مشیر خزانہ مسلسل یہ کہتے رہے کہ اب آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا ہے، پھر جلد ہی یہ کہتے سنے گئے کہ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول تھرڈ آپشن ہوگا۔ ہم دوست ملکوں سے امداد حاصل کرلیں گے، قرض حاصل کرلیں گے۔ ان ہی دنوں اگست 2008 مین فرینڈز آف پاکستان تشکیل پاچکا تھا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں کے باعث عالمی رہنماؤں کو اس طرف راغب کیا کہ ہم وسیع پیمانے پر نقصان اٹھا چکے ہیں لہٰذا پاکستان کو قرض فراہم کیا جائے۔
لیکن پاکستان اپنی معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کوئی امداد حاصل نہ کرسکا۔ بالآخر تھرڈ آپشن کا سہارا لیا گیا اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی طرف سے کڑی اور ناگوار شرائط پیش کرتے ہوئے یہ جتلایا گیا کہ ان پر عملدرآمد سے معیشت بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی۔ پاکستان نے قرض تو حاصل کرلیا لیکن اس کے نتیجے میں بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ افراط زر کی شرح بلند ہوئی روپے کی قدر بار بار کم کی گئی۔ نتیجے میں آج ایک ڈالر 106 روپے کا دستیاب ہے۔ روپے کی قدر دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی۔ واضح رہے کہ 2013 میں آئی ایم ایف سے اس کی شرائط کے مطابق پھر قرض حاصل کیا گیا ہے۔
قرض حاصل کرنے کے بعد جلد ہی اس کی ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے یہ دکھایا گیا ہے کہ جب بھی قسط ادا کرنا ہوتی ہے مارکیٹ میں افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں اور ڈالر کی قلت پیدا ہوجاتی ہے جس سے روپے کی قدر گھٹنے لگتی ہے۔ دوسری طرف مالیاتی ادارے کے مطالبات پر بجلی گیس کی قیمت میں اضافے اور سبسڈی کے خاتمے سے بھی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور بیرون ملک کی جانے والی برآمدی مصنوعات کے لیے بیرونی منڈی سے مقابلہ مزید سخت ہوجاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کو یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملا ہے جس سے برآمدات کا خطے کے دیگر ملکوں سے مقابلہ آسان ہوجائے گا اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں داخلے کی شرائط کے طور پر بجلی گیس کی قیمت میں اضافہ، مہنگائی میں تیزی، سبسڈی میں خاتمے کے باعث اور زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافے کے سبب اب برآمدات کی لاگت بھی بڑھے گی اور پھر خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ مسابقت کی فضا سخت ہوگی اور اتنا ہدف حاصل نہ ہو پائے گا جس کی توقع کی جا رہی ہے۔
لہٰذا ایسی منصوبہ بندی کی جائے اور اس طرح کے اقدامات اٹھائے جائیں کہ اب کشکول اٹھانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جس طرح بھارت نے آئی ایم ایف سے خلاصی حاصل کرلی ہے، پاکستان کے لیے بھی اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اسے بھی آئی ایم ایف کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اگرچہ حکومت نے اپنے اخراجات بہت حد تک کم کرنے کا کہا ہے یہاں تک کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے۔ اسی طرح وزرا کے صوابدیدی فنڈ بھی ختم کردیے گئے ہیں۔ اخراجات میں بھی تقریباً 40 فیصد کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت برآمدات کو بڑھائے اور درآمدات جوکہ غیر ضروری ہیں ان کو کنٹرول کرے۔ پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔ بہرحال ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ گزشتہ 50 برس سے جیسے قرض لے رہے ہیں اسی طرح لیتے رہیں گے یا قرض سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ جیساکہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا تاکہ پاکستان جلد از جلد قرض کے چنگل سے باہر نکل آئے۔

جیناہے تو ذلت سیکھ لو

جیناہے تو ذلت سیکھ لو

میرے ایک دوست کراچی میں رہتے ہیں‘ یہ انتہائی پڑھے لکھے‘ مہذب اور ایماندار انسان ہیں‘ یہ انجینئر تھے‘ سی ایس ایس کیا‘ پوزیشن لی اور سول سروس میں آ گئے‘ اچھے ذوق کے مالک ہیں اور مصوری‘ شاعری‘ ادب‘ موسیقی اور آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھتے ہیں‘ آپ دنیا کی کسی مشہور کتاب یا مصنف کا نام لیں‘ یہ اس سے نہ صرف واقف ہوں گے بلکہ انھوں نے اس کا مطالعہ بھی کر رکھا ہو گا‘ میرے اس دوست کے ساتھ چند دن قبل انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا‘ یہ دوائیں خریدنے کے لیے کراچی کی ایک مارکیٹ میں گئے‘ یہ گاڑی سے اتر رہے تھے کہ گلی سے اچانک دو نوجوان نکلے‘ ایک ان کی گاڑی کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور دوسرے نے ان کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا‘ میرے دوست کو جیبیں خالی کرنے کا حکم دیا گیا‘ انھوں نے پرس اور موبائل فون نوجوان کے ہاتھ میں دے دیا‘ پرس میں ستائیس ہزار روپے تھے‘ نوجوانوں نے رقم نکالی‘ موبائل سے سم نکال کر باہر پھینکی ‘ موبائل جیب میں ڈالا اور وہاں سے جانے لگے.
میرے دوست نے ہاتھ جوڑ کر نوجوان سے درخواست کی ’’بیٹا پرس میں میرے کارڈز ہیں‘ یہ آپ کے کسی کام نہیں آئیں گے‘ آپ اگر مہربانی کر کے یہ مجھے دے دیں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا‘‘ نوجوان نے قہقہہ لگایا‘ پرس زمین پر پھینکا اور میرے دوست کو گالی دے کر بولا ’’چل‘ جھک اور میرے پیروں سے یہ پرس اٹھا‘‘۔ نوجوان کے ہاتھ میں پستول تھا‘ میرے دوست کو محسوس ہوا ’’میں نے اگر اس کی بات نہ مانی تو یہ مجھے گولی مار دے گا‘‘ میرا دوست اس کے قدموں میں جھکا‘ اپنا پرس اٹھایا‘ زمین پر بیٹھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘ نوجوانوں نے قہقہے لگائے اور بھاگ کر گلی میں گم ہو گئے‘ میرا یہ دوست اس دن سے نفسیاتی مریض بن چکا ہے‘ یہ بس ایک ہی بات کرتا ہے ’’میں اس ملک کا باعزت شہری تھا لیکن جوں ہی میرے بیٹے کی عمر کے لڑکے نے میری کنپٹی پر پستول رکھا‘ مجھے ماں کی گالی دی اور مجھے اپنے پاؤں میں جھکنے کا حکم دیا‘ میں نے اسی وقت اپنی عزت‘ عزت نفس‘ انا اور ملک سے محبت کھو دی‘‘ وہ بار بار کہتا تھا ’’مجھے اس وقت اپنے ذلیل ہونے کا احساس ہوا اور میں شاید اب پوری زندگی ذلت کے اس احساس سے باہر نہ نکل سکوں ‘‘۔ مجھے اپنے دوست کے احساس سے اتفاق ہے‘ آپ خود سوچئے‘ آپ انتہائی پڑھے لکھے ہوں‘ آپ ایماندار‘ نفیس اور مہذب بھی ہوں اور آپ پاکستان کی بااختیار سروس کے ممبر بھی ہوں مگر ایک ان پڑھ‘ جاہل اور گنوار لڑکا چلتی سڑک پر آپ کی کنپٹی پر پستول رکھ دے‘ آپ کو گالی دے اور پھر آپ اس کے پاؤں میں جھکنے پر مجبور ہو جائیں تو آپ کی کیا حالت ہو گی؟ کیا آپ خود کو آئینے میں دیکھنے کے قابل رہیں گے اور کیا آپ اپنی نظروں کا سامنا کر سکیں گے؟۔
میں آپ کو ذاتی واقعہ بھی سناتا ہوں‘ میں رات سوا نو بجے اپنے پروگرام کا ابتدائی حصہ ریکارڈ کراتا ہوں‘ ساڑھے نو بجے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں‘ ہم گپ شپ کرتے ہیں‘ لطیفے سنتے اور سناتے ہیں اور میں دس بجے اسٹوڈیو چلا جاتا ہوں‘ میرے ساتھیوں میں ہارون احمد نام کا ایک نان لینئر ایڈیٹر (این ایل ای) بھی شامل تھا‘ جمعرات 9 جنوری کی رات ہم لوگوں نے گپ شپ کی‘ میں دس بجے اسٹوڈیو چلا گیا اور ہارون احمد گھر روانہ ہو گیا‘ یہ راولپنڈی شہر میں رہتا تھا‘ ساڑھے دس بجے اطلاع آئی ہارون احمد کو کمرشل مارکیٹ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا‘ میں نے پروگرام کے وقفے میں تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا‘ دو نوجوانوں نے کمرشل مارکیٹ میں اس سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی‘ ہارون نوجوان تھا‘ اس نے یہ ذلت گوارہ نہ کی‘ اس نے مزاحمت کی اور نوجوانوں نے اس کے سر میں گولی مار دی‘ ہارون احمد شہید ہو گیا‘ آپ تصور کیجیے‘ آپ ایک نوجوان سے روز ملتے ہوں‘ وہ آپ کے پاس سے اٹھ کر جائے اور آپ کو پھر اس کی موت کی خبر ملے تو آپ کی نفسیاتی حالت کیا ہو گی اور موت کا باعث بھی اڑھائی ہزار روپے کا موبائل فون ہو تو آپ کیا محسوس کریں گے؟
مجھے اور میری ٹیم کو اس وقت اپنی ذلت اور بے بسی کا جتنا احساس ہوا آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے‘ ہمیں محسوس ہوا‘ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں آپ کا پرس‘ آپ کا اڑھائی ہزار روپے کا موبائل آپ کی جان‘ آپ کی عزت نفس اور آپ کے وقار سے زیادہ قیمتی ہے‘ میرے ایک کالم نگار دوست ہیں‘ یہ لاہور میں رہتے ہیں‘ یہ بھی انتہائی پڑھے لکھے اور نفیس انسان ہیں‘ ان کا خاندان تین صدیوں سے معزز ہے‘ ان کے ساتھ لاہور میں واقعہ پیش آیا‘ یہ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے‘ گاڑی کھڑی کی‘ ان کی اہلیہ گاڑی میں بیٹھ گئی‘ یہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے‘ یہ واپس آئے‘ گاڑی کے نزدیک پہنچے تو ایک نوجوان نے پستول نکالا اور ان کی اہلیہ پر تان دیا‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ آپ کے ساتھ آپ کی بیٹی ہو اور اہلیہ پر پستول تانا جا چکا ہو تو آپ کیا کریں گے‘ انھوں نے بھی پرس نکالا اور نوجوان کے حوالے کر دیا‘ نوجوان نے ان کی اہلیہ کو سونے کی چوڑیاں اتارنے کا حکم دیا‘ بھابھی نے بھی اپنی چوڑیاں اتار کر اس کے حوالے کر دیں‘ اس نے گاڑی کی چابی نکالی‘ موٹر سائیکل پر بیٹھا اور یہ کہہ کر روانہ ہو گیا ’’آپ کو چابی تھوڑی دور سڑک پر مل جائے گی‘‘ وہ نوجوان ڈاکو چلا گیا اور میرے کالم نگار دوست سڑک پر جھک کر چابی تلاش کرنے لگے‘ چابی مل گئی‘ یہ سیدھے بھی ہو گئے لیکن ان کی عزت نفس‘ انا اور ملک اور معاشرے سے محبت اسی سڑک پر کہیں رہ گئی‘ وہ واپس نہ مل سکی۔
آپ گوجرانوالہ کے ایک بزنس مین کا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ یہ گھر میں سوئے ہوئے تھے‘ ڈاکو گھر میں داخل ہوئے‘ خاندان کو ڈرائنگ روم میں جمع کیا‘ بزنس مین کو فرش پر اکڑوں بیٹھنے کا حکم دے دیا گیا‘ یہ انتہائی معزز انسان تھے‘ پورے شہر میں ان کی عزت تھی لیکن یہ پستول کی نلی کی وجہ سے اپنی بیوی‘ بہوؤں‘ بیٹی اور بیٹوں کے سامنے فرش پر اکڑوں بیٹھ گئے‘ گھر کی تمام چابیاں ڈاکوؤں کے حوالے کر دی گئیں‘ ڈاکو چار گھنٹے ان کے گھر میں رہے‘ وہ چلے گئے لیکن یہ آج بھی اندر سے زخمی ہیں‘ یہ آج بھی اپنی بیوی‘ اپنی بہوؤں کا سامنا نہیں کر پاتے‘ میں نومبر میں تھائی لینڈ جا رہا تھا‘ میرے ساتھ کراچی کے ایک مشہور سرجن بیٹھے تھے‘ یہ مائیکرو سرجری کے ماہر ہیں‘ اس سرجری میں انسانی بدن پر چیرا نہیں لگایا جاتا‘ انسانی بدن کے قدرتی سوراخوں مثلاً ناف‘ ناک اور حلق میں نالی ڈال کر کیمرے کے ذریعے آپریشن کیا جاتا ہے‘ یہ ملک میں اس نوعیت کے واحد سرجن ہیں‘ یہ برطانیہ سے ملک کی محبت میں کراچی آئے‘ یہ نوجوان سرجنوں کو سرجری کی نئی تکینک بھی سکھا رہے ہیں‘ یہ مجھے بتانے لگے‘ میں رات کے وقت ایمرجنسی آپریشن کے لیے اسپتال جا رہا تھا‘ مجھے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے روکا‘ ایک گاڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا جب کہ دوسرے نے دروازہ کھلوایا‘ میرا پرس اور موبائل فون لیا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گلیوں میں غائب ہو گئے‘‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ’’وہ میری زندگی کا ذلت آمیز ترین لمحہ تھا‘ میں نے جتنی بے بسی اور لاچاری اس وقت محسوس کی‘ میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ نے مزاحمت کیوں نہیں کی‘‘ وہ بڑے دکھ سے بولے ’’میں روز ایسے تین چار زخمیوں کا آپریشن کرتا ہوں جنھوں نے ڈاکوؤں سے آرگومنٹ کی غلطی کی‘ گولی کھائی اور موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں پہنچ گئے‘ میں لوگوں کو روز مرتے دیکھتا ہوں چنانچہ میں نے جب نوجوانوں کو دیکھا تو میں نے منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر موبائل فون اور پرس انھیں پکڑا دیا‘‘۔
یہ چند واقعات ہیں‘ آپ کو کراچی سے لے کر پشاور اور گلگت سے لے کر تربت تک ایسی ہزاروں کہانیاں ملیں گی‘ یہ کہانیاں‘ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں‘ ملک میں لاء اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ آپ خواہ کوئی بھی ہیں‘ آپ خواہ کسی بھی طبقے‘ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں‘ آپ کو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ روک کر لوٹ لیا جائے گا اور آپ بے بسی سے لٹنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے‘ ڈاکے میں دو نقصان ہوتے ہیں‘ مال اور انا۔ مال کے نقصان کی ویلیو صرف دس فیصد ہوتی ہے‘ نوے فیصد نقصان آپ کی انا‘ آپ کی عزت نفس اور آپ کا احساس تفاخر اٹھاتا ہے‘ آپ نیا موبائل خرید لیتے ہیں‘ آپ دولت بھی دوبارہ کما لیتے ہیں لیکن آپ کی مجروح عزت نفس‘ آپ کی زخمی انا اور آپ کا کٹا پھٹا احساس دوبارہ بحال نہیں ہوتا‘ آپ زندگی بھر اس ٹرامے سے باہر نہیں آتے چنانچہ میرا آپ کو مشورہ ہے‘ آپ نے اگر اس ملک میں رہنا ہے‘ آپ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ ذلت سیکھ لیں‘ آپ اپنی عزت نفس اور انا کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ آپ کو اب زندگی اور عزت نفس میں سے کوئی ایک قربان کرنا پڑے گی‘ آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ڈاکوؤں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر زندہ رہیں اور آپ کو اگر یہ قبول نہیں تو پھر کسی ڈاکو کی گولی کا انتظار کریں‘ یہ انتظار آپ کی شہریت‘ آپ کا شناختی کارڈ ہے۔

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *