Friday, 24 January 2014

بلیک ہیٹ،



بلیک ہیٹ، وائٹ ہیٹ اور گرے ہیٹ ہیکرز
ہیکر کا لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک بہت ہی زیادہ قابل کمپیوٹر پروگرامر کی شخصیت نمودار ہوتی ہے جو کسی کی اجازت کے بغیر ہر پابندی کو توڑتے ہوئے اس کے کمپیوٹر میں داخل ہوجاتا ہے اور نہ صرف اس کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا بلکہ اس سے منسلک دیگر کمپیوٹرز کا ڈیٹا بھی چوری کرسکتا ہے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جس طرح لوگ اچھے یا برے ہوتے ہیں اسی طرح ہیکربھی اچھے یا بُرے ہوتے ہیں ۔ ہیکرز کو ان کی خصوصیات یا مقاصدکی بنا پر مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
بلیک ہیٹ
وائٹ ہیٹ
گرے ہیٹ
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ہیکرز اتنے رنگدار کیوں ہوتے ہیں؟ دراصل ہیکنگ میں رنگ دار ہیٹ کا ذکر ہالی وڈ کی پُرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے آیا جن میں ہیرو کو عام طور پر سفید رنگ کی ٹوپی پہنے ہوئے دکھایا جاتا تھا جبکہ ولن نے سیاہ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی ہوتی تھی۔ تاکہ دیکھنے والے دیکھتے ہی سمجھ جائیں کہ ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ یہ منظر اب ہالی وڈ کے بجائے لالی وڈ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ہیکرز کو بھی ان کے عزائم کی بنا پر سیاہ یا سفید کہا جاتا ہے۔

بلیک ہیٹ (Black Hat)

بلیک ہیٹ ہیکر، کمپیوٹنگ کی زبان میں اُسے کہا جاتا ہے جو نیٹ ورک سے جڑے کسی کمپیوٹر پر بغیر اجازت اور بُری نیت سے رسائی حاصل کرتا ہے۔ بلیک ہیٹ ہیکرز کی کارروائیوں کا مقصداکثر کسی کے سسٹم کو نقصان پہنچانا، ان کے کمپیوٹر سے ڈیٹا چرانا، کریڈٹ کارڈ نمبر یا پاس ورڈ اُڑانا، ذاتی نفع یا صرف دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے۔ رچرڈ اسٹالمین نے ہیکنگ کے موضوع میں کریکر (Cracker) کی ایک نئی اصطلاح وضع کی۔ لفظ کریکر بنیادی طور پر بلیک ہیٹ ہیکر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بیشتر لوگ ہیکر اور کریکر کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ہیکر ز میں بلیک ہیٹ یا وائٹ ہیٹ (جن کا ذکر آگے آئے گا) ہوتے ہیں جبکہ کریکر کی اصطلاح صرف بلیک ہیٹ کے لیے ہی استعمال ہوتی ہے۔
بلیک ہیٹ، ہیکنگ میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ایڈوانس پروگرامنگ اور سوشل انجینئرنگ کے استعمال سے واقف ہوتے ہیں۔ بلیک ہیٹ ہیکرز کی یہ قسم کسی سسٹم میں داخل ہونے کے لئے اپنے سافٹ ویئر یا ہارڈویئر ٹولز خود تیار کرتے ہیں۔ یوں کہنا چاہئے کہ یہ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک کمپیوٹر پروگرامر ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرے وہ بلیک ہیٹ ہیکرز ہوتے ہیں جو پروگرامنگ وغیرہ سے نا واقف ہوتے ہیںاور یہ دوسروں کے بنائے ہوئے خودکار ٹولز استعمال کرتے ہوئے کریکنگ کرتے ہیں۔ اِن میں سے بیشتر اس بات سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ یہ پروگرام کیسے کام کرتے ہیں۔ بس ٹول کو رَن کیا اس کے بعد چائے کی ایک پیالی لی اور کسی کے سسٹم کا بیڑا غرق۔ ان کے لئے لفظ ہیکر کا استعمال برا سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ اسکرپٹ کڈیز کہلاتے ہیں۔

چند مشہور بلیک ہیٹ ہیکرز

دئیے گئے بلیک ہیٹ ہیکرزمیں سے بہت سے بعد میں سدھر کر وائٹ ہیٹ ہیکرز بن گئے لیکن ابتدائی زمانے میں انہوں نے کمپیوٹر سیکیورٹی سسٹم پر اپنی دہشت پھیلائے رکھی۔

Mark Zbikowski

Mark Zbikowskiاسے اولین کمپیوٹر کریکرز میں سے ایک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ Zbikowski نے صرف اپنی تفریح طبع کے لیے ویانا اسٹیٹ یونی ورسٹی کے مشی گن ٹرمینل سروس جسے یونیورسٹی آف مشی گن کے مین فریم کمپیوٹر پر بنایا گیا کو کریک کیا۔ اس کے بعد بقول Zbikowski کہ جب اُس نے یونیورسٹی والوں کو یہ سمجھانا چاہا کہ کیسے وہ اپنے سیکیورٹی ہولز ختم کر سکتے ہیں تو یونیورسٹی نے اُسے دھمکی دی کہ اگر اس نے یونیورسٹی کی ملازمت قبول نہ کی تو وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ اس پر Zbikowski نے قانونی شکنجے سے بچنے کے لئے یونیورسٹی کی ملازمت قبول کر لی۔بعد میں Zbikowski نے مائیکروسافٹ میں بطور آرکیٹک بھی نوکری کی۔ اس کا شمار مائیکروسافٹ کے اوّلین ملازمین میں ہوتا ہے۔


Jonathan JamesJonathan James

اسے کامریڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس نے امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے کئے گئے ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق ہزاروں پیغامات کو غیر قانونی طور پر Intercept کیا۔ جس وقت اِسے سزا سُنا کر جیل بھجوایا گیا تو اس کی عمر صرف سولہ سال تھی۔ یہ اب تک کا سب سے کم عمر سائبر کرمنل ہے جسے سزا سُنائی گئی۔

Mark Abene

Mark Abeneیہ Phiber Optik بھی کہلاتا تھا۔ نیویارک سے تعلق رکھنے والے اس بلیک ہیٹ ہیکر کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ہزاروں امریکی نوجوانوں کو ٹیلی کمیو نی کیشن سسٹمز کو کریک کرنے کی طرف راغب کیا۔  یہ Master of Deceptionنامی گروپ کے بانیوں میں سے ایک ہے۔یہ گروپ ٹیلی فون نظام کو کریک کرنے کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ اس کے ممبران DEC سرورز کو کریک کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔

Markus Hess

اسکا تعلق مغربی جرمنی سے ہے۔ اس نے امریکہ کی ملٹری ویب سائٹس سے بہت سی معلومات چرا کر سابقہ سویت یونین کی کمیٹی فار اسٹیٹ سیکیورٹی کو فراہم کیں۔اسے عالمی جاسوس کا درجہ بھی حاصل رہا ہے۔

 Adrian Lamo

Adrian LamoLamoکو2003ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے حیرت انگیز طور پر مائیکروسافٹ، نیویارک ٹائمز، ایم ایس آئی ورلڈکوم، ایس بی سی اور یاہو! کے سسٹمز تک رسائی حاصل کی۔ اس کے ہیکنگ کرنے کے طریقے کافی متنازعہ تھے۔ اصل میں Lamoکو شہرت حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور یہی شوق اس کی گرفتاری کا باعث بن گیا۔

 Vladimir Levin

اس ماہر روسی ریاضی دان نے ایک گینگ کی سربراہی کرتے ہوئے سٹی بینک کے کمپیوٹر سسٹم میں مداخلت کرتے ہوئے تقریباً دس ملین ڈالرز چوری کرلئے۔ لیون کا استعمال کیا ہوا طریقہ کار آج تک نا معلوم ہے۔ سیکیورٹی ایجنسی نے لیون سے جو پوچھ گچھ کی تھی وہ بھی پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ہیکرز کے ایک مشہور گروپ کے مطابق لیون تکنیکی طور پر اس قابل نہیں تھا کہ سٹی بینک کے نیٹ ورک میں بغیر لاگ اِن ہوئے داخل ہوسکتا۔ اس نے سٹی بینک کے کسی اہلکار سے یہ معلومات صرف سو ڈالر دے کر حاصل کی تھیں۔

Kevin Mitnick

Kevin Mitnick کریکنگ کی مختلف سرگرمیوں کی وجہ سے ایک عرصے تک جیل میں رہا۔ اس کی ضمانت تک منظور نہیں کی گئی۔ اس پر امریکی حساس کمپیوٹر سسٹم کو ہیک کرنے کا الزام تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد کیون نے اپنی چند ویب سائٹس بھی تیار کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی ویب سائٹس کو 20 اگست 2006 ء کو پاکستانی ہیکرز کے ایک گروپ نے ڈی فیس کردیا۔ کئی گھنٹوں تک کیون کی ویب سائٹس پر اس کے خلاف گالیوں بھرے پیغام نظر آتے رہے۔

Robert Tappan Morris

1988ء میں کیمل یونیورسٹی میں گریجویشن کرتے ہوئے اس نے پہلا کمپیوٹر ورم بنایا جو مورس کہلایا۔اس ورم نے بڑی تعداد میں کمپیوٹرز کو متاثر اور لاکھوں ڈالرز کا نقصان کیا۔اس نے بعد میں ایک کمپنی Viaweb بھی کھولی جسے بعد میں یاہو! نے خرید لیا۔

Nahshon Even-Chaim

یہ Phoenixکے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آسٹریلوی ہیکنگ گروپThe Realmکا مرکزی رکن تھا۔ 1980ء کی دہائی میں انہوں نے امریکہ کے دفاعی اور ایٹمی تحقیقاتی کمپیوٹر سسٹم پر حملہ کیا۔ اس گروپ کو 1990ء میںآسٹریلین فیڈرل پولیس نے گرفتار کیا۔ اس کی ایک وجۂ شہرت ناسا کے کمپیوٹرز تک رسائی بھی ہے۔

David L Smith

1999ء میں اسمتھ نے Melissa Worm بنایا جس کی وجہ سے مجموعی طور پر تقریباً اسی ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسمتھ کو چالیس سال کی سزا ہوئی جو کہ بعد میں کم ہوتے ہوتے بیس ماہ ہو گئی۔ اب وہ FBI کے لیے کام کر رہا ہے۔اس کی گرفتاری میں ایک اور ہیکر جوناتھن جیمز جس کا ذکر ہم نے پہلے کیا تھا، نے ایف بی آئی کی مدد کی۔ ILOVEU وائرس کے خالق کی گرفتاری بھی جوناتھن جیمز کی مدد سے کی گئی۔

وائیٹ ہیٹ (White Hat)

وائٹ ہیٹ ہیکرز کو بااخلاق ہیکرز بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی سرور یا نیٹ ورک میں داخل ہو کر اس کے مالکان کو اس سرور یا نیٹ ورک کے سیکیورٹی ہولز کے بارے میں بتاتے ہیں یا ان سیکیورٹی ہولز کو دور کرتے ہیں۔ ان کی یہ تمام کوششیں سیکیورٹی کو محفوظ بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کمپیوٹر سیکیورٹی کمپنیوں کے ملازمین ہوتے ہیں۔ انہیں اسنیکرز (sneakers) بھی کہتے ہیں اور ان کے گروپ کو اکثر ٹائیگر ٹیم کہا جاتا ہے۔
وائٹ ہیٹ ہیکرز اور بلیک ہیٹ ہیکرز میں بنیادی طور پر یہ فرق ہوتا ہے کہ وائٹ ہیکرز کے مطابق وہ ہیکر کی اخلاقیات پر نظر رکھتے ہیں۔بلیک ہیٹ ہیکرز کی طرح وہ سیکیورٹی سسٹم کی تمام تفصیلات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اورضرورت پڑنے پر کسی بھی مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔بنیادی طور پر وائٹ ہیٹ ہیکرز کا مقصد سسٹم کو محفوظ بنانا ہوتا ہے جبکہ اس کے بر عکس بلیک ہیٹ ہیکر کا مقصد سسٹم کی سیکیورٹی کو ختم کرنا۔لیکن بات جب اپنے سسٹم کی ہو تو بلیک ہیٹ ہیکرز بھی اسے محفوظ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
مائیکروسافٹ ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کرپٹوگرافی سے متعلق لائبریریز کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ آپریٹنگ سسٹم امریکہ سے باہر فروخت کیا جاتا ہے یہ لائبریریز کسی کام کی نہیں رہتیں کیونکہ آپریٹنگ سسٹم ان کو لوڈ کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ امریکہ سے باہر یہ آپریٹنگ سسٹم صرف ایسی لائبریریز کو لوڈ کرتاہے جو مائیکروسافٹ نے signed کی ہوں اور مائیکروسافٹ اس بات کی پابند ہے کہ بیرون ملک کسی بھی لائبریری کو signed کرنے سے پہلے وہ امریکی حکومت سے اس بات کی اجازت لے۔ اس پابندی کی وجہ سے امریکی حکومت نے کرپٹوگرافی کے اعلیٰ معیارات کو خود تک محدود کررکھا ہے۔ لیکن امریکہ سے باہر موجود ہیکرز نے مائیکروسافٹ ونڈوز کے بی ٹا ورژنز کے باریک بینی سے معائنے کے بعد ایک ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جو ونڈوز کو ایسی تمام لائبریریز کو لوڈ کرنے پر مجبور کردیتا ہے جو مائیکروسافٹ نے signed نہیں کی ہیں۔
بظاہر یہ ایک بری حرکت محسوس ہوتی ہے مگر اکثر ہیکر کمیونٹیز اسے وائٹ ہیکنگ کہتی ہیں کیونکہ اس طرح کرپٹو گرافی امریکہ اور اس کی عوام تک محدود رہنے کے بجائے دنیابھر میں پھیل سکے گی۔
موجودہ دور میں سرچ انجن بھی بلیک ہیٹ اور وائٹ ہیٹ کاکردار ادا کررہے ہیں۔ سرچ انجن میں بلیک ہیٹ طریقۂ واردات کو spamdexing کہا جاتا ہے۔ اس میں سرچ کیے گئے نتائج کو مخصوص ویب سائٹس پر ری ڈائریکٹ کر دیا جاتاہے۔

چند نامور وائٹ ہیٹ ہیکرز


Gordon “Fyodor” Lyon

Fyodorفیوڈور ایک مشہور و معروف سیکیورٹی ٹول Nmap کا خالق ہیں۔ یہ سافٹ ویئر نیٹ ورک اسکیننگ کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اور ہیکرز کا اہم ترین ٹول مانا جاتا ہے۔ فیوڈور نے این میپ سیکیورٹی اسکینر کو مفاد عامہ کی خاطر اوپن سورس کررکھا ہے۔
ساتھ ہی فیوڈورایک ہیکنگ ناول How to Own a Continentکے شریک مصنف اور مشہور زمانہ ’’ہنی پاٹ پروجیکٹ‘‘ کے بانی رکن ہیں۔

Mark Russinovich

یہ ونڈواین ٹی سرور، ورک اسٹیشن اور پروگرامنگ ، کے ماہر ہیں۔ اس کے علاوہ 2005 Sony Rootkit سافٹ ویئر کی دریافت کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے ایک اچھے مصنف مانے جاتے ہیں۔ مائیکروسافٹ ٹیک نیٹ کے لئے باقاعدگی سے مضامین لکھتے رہتے ہیں۔

Tsutomu ShimomuraShimomuraنے Kevin Mitnickکو جو1994 میں امریکہ کا بدنام کمپیوٹر جرائم میں ملوث شخص تھاپکڑنے میں مدد دی۔ وہ Mitnickکیس پر لکھی گئی کتابوںکا شریک مصنف بھی ہے۔

وائٹ ہیٹ اور بلیک ہیٹ کے بارے میں آپ نے پہلے بھی سن رکھا ہوگا مگر گرے ہیٹ ہیکرز کے بارے میں شاید آپ کی معلومات ناکافی ہوں۔
گرے ہیٹ کمپیوٹر کمیونٹی میں ماہر ہیکرز کے طور پر جانے جاتے ہیںجو کبھی قانونی طور پر کام کرتے ہیں اور کبھی غیر قانونی طور پر، کبھی اچھی نیت سے اور کبھی بُری نیت سے۔ زیادہ تر گرے ہیٹ ہیکر اپنے ذاتی مفاد یا برے عزائم سے کام نہیں کرتے۔ لیکن کبھی کبھار وہ اپنے کام کے دوران جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔گرے ہیٹ ہیکرز، بلیک ہیٹ ہیکرز اوروائٹ ہیٹ ہیکرز کی درمیانی قسم ہوتے ہیں۔ اکثر گرے ہیٹ ہیکر کسی سسٹم میں داخل ہو کربغیر کوئی نقصان پہنچائے صرف اپنا نام وہاں چھوڑ آتے ہیں۔
امجد نے پرویز کے لیے ویب سائٹ بنائی جسے علی کے سرور پر چلایا جا رہا ہے۔علی کا سرورامانت کے نیٹ ورک پر چلایا جا رہا ہے۔اب علی صاحب کو معلوم نہیں کہ اس کے سرور پر ایک سیکیورٹی ہول ہے۔امانت کو اس سیکیورٹی ہول کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے اور وہ اس کی مدد سے سرور کو مانیٹر کرنا شروع کرتا ہے۔ کیونکہ پرویز کے سرور پر مختلف آپریٹنگ سسٹم انسٹال ہے۔ اور امانت جاننا چاہتا ہے کہ علی کے سرور پر مزید کیا کنفیگر کیا جا رہا ہے۔ادھر علی صاحب کو فاروق سے بھی مسئلہ ہے جس کو اس کے سرور پر ایک سیکیورٹی ہول مل گیا ہے اور وہ اسے استعمال کرتے ہوئے علی کے سرور پر پیچیدہ وائرس انسٹال کر دیتا ہے جس کی وجہ سے علی کا سرور تین دن میں خراب ہو جائے گا۔
اب کیونکہ امانت سرور کو مانیٹر کر رہا ہوتا ہے اس لیے اسے فاروق کے وائرس کا پتہ چل جاتا ہے اور وہ فاروق کے سرور چھوڑنے کا انتظار کرتا ہے اور جیسے ہی وہ سرور چھوڑتا ہے امانت صاحب اس وائرس کو ختم کر دیتے ہیں۔اس سے امانت صاحب کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے سروریا نیٹ ورک میں کیا کیا سیکیورٹی ہول ہے اور انہیں اپنے سرور کو محفوظ بنانے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔
اپریل 2004ء میں کچھ گرے ہیٹ ہیکرز نے apache.org کے سرور پر قبضہ کر لیا۔ ان گرے ہیٹ ہیکرز نے apache کے سرور کو نقصان پہنچانے یا apache کے عملے کو دھمکی آمیز پیغامات دینے یا وائرس پھیلانے کے بجائے، صرف آپاچی کے عملے کو سیکیورٹی ہول کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں۔

اوپن سورس سافٹ ویئر


اوپن سورس سافٹ ویئر کی اہمی

جو حضرات آزاد سافٹ ویئر (Open source) کے بارے میں جانتے ہیں وہ عموماً ایسے سوالات کرتے ہیں کہ میرے پاس پہلے ہی میرے پسندیدہ سافٹ ویئر موجود ہیں جن کے استعمال کا میں عادی ہوں اور پھر میں انہیں مفت استعمال کر رہا ہوں (کریک کے ذریعے) اگرچہ وہ مفت نہیں، اور میں انہیں دوستوں کے ساتھ شیئر بھی کرتا ہوں، ایسے میں مجھے کیا پڑی ہے کہ میں ایسے نئے سافٹ ویئر استعمال کروں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مجھے ’’آزادی‘‘ دیں گے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ آپ ہمیشہ کے لیے ملکیتی سافٹ ویئر مفت میں حاصل کر پائیں گے (جیسے مائیکروسافٹ آفس)۔ پوری دنیا میں مختلف ممالک بڑی شدت کے ساتھ فکری ملکیت ( Intellectual Property)  کے قوانین لاگو کرتے جا رہے ہیں، وہ دن بھی دُور نہیں جب ان قوانین کا اطلاق پاکستان میں بھی ہوگا، دراصل ممالک چاہیں یا نہ چاہیں، انہیں ان قوانین کا اطلاق بہرحال کرنا ہی ہوگا کیونکہ ان قوانین کو لاگو نہ کرنے کی صورت میں ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، مثال کے طور پر ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے وقت اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ جہاں ممالک سے دیگر شرائط قبول کروائی جاتی ہیں ان میں یہ شرائط بھی شامل ہوں۔
جب فکری ملکیت کے ان قوانین کا اطلاق ہوگا تو ہمارا نہیں خیال کہ آپ ایک ہی رات میں آزاد سافٹ ویئر پر منتقل ہوپائیں گے اور آزاد سافٹ ویئر کے صارف بن جائیں گے، آپ کو قطعی مختلف ان نئے سافٹ ویئر کو سیکھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا، مزید برآں آپ کو ان کا عادی ہونے کے لیے بھی کچھ وقت لگے گا اور ظاہر ہے ان میں وہ وقت شامل نہیں جو تکنیکی مسائل کے حل تلاش کرنے میں صرف ہوگا… آہستہ شروعات کے لیے یہی وقت مناسب ہے۔
اجارہ دار کمپنیاں اپنے سافٹ ویئر کی کریکنگ کو خود ہی آسان رکھتی ہیں جو دراصل ایک طویل المدتی پالیسی کا حصہ ہے، مقصد ترقی پذیر ممالک۔ جہاں فکری ملکیت کے قوانین ابھی لاگو نہیں، میں نہ صرف اپنے سافٹ ویئر مقبول بنانے بلکہ لوگوں کو ان کا عادی بھی کرنا ہے۔ دہائیوں بعد جب لوگ ایسی کمپنیوں کے سافٹ ویئر کے عادی ہوجائیں گے تو یہ کمپنیاں ایسے ممالک پر فکری ملکیت کے قوانین کے اطلاق کے لیے دباؤ ڈالیں گی، تب لوگوں کو اپنے وہ سافٹ ویئر جن کے وہ عادی ہوچکے ہیں بدلنے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا خاص کر ادارے جن کا آج بھی انحصار ایسے ہی (چوری شدہ) سافٹ ویئر پر ہے (اور چونکہ بیشتر کو آزاد سافٹ ویئر کا پتہ ہی نہیں جو کہ زیادہ تر مفت ہی ہوتے ہیں) لہٰذا وہ نہ صرف شرمندہ بھی ہوں گے بلکہ ان سافٹ ویئر کو خریدنے کے لیے رقوم بھی ادا کریں گے۔ یوں یہ اجارہ دار کمپنیاں ترقی پذیر ممالک کی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے مفت منافع کمائیں گی… جس قدر جلد ہم آزاد سافٹ ویئر کے استعمال کے تصور کو عام کریں گے اتنا ہی ہم ایسی کمپنیوں کی اجارہ داری کے دام سے بچے رہیں گے جن کا اولین مقصد اپنی جیبیں بھرنا اور ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات کو ہلکان کرنا ہے اور انہیں سیاسی وتجارتی طور پر اپنے ملکوں کے تابع کرنا ہے۔
ملکیتی سافٹ ویئر ترقی پذیر ممالک کے لیے قطعی موزوں نہیں۔ ترقی پذیر ممالک احیائے نو (Renaissance) کے دور سے گزر رہے ہیں۔اس صدی میں ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی احیائے نو کا جزو لا ینفک ہے جس کے بغیر کوئی بھی حقیقی ترقی یا احیائے نو ممکن نہیں…مگر اس کا اس سے کیا تعلق ہے؟
ایسے ترقی پذیر ممالک کے لیے آزاد سافٹ ویئر ہی حقیقی احیائے نو کا ذریعہ ہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے بغیر ترقی پذیر ممالک حقیقی احیائے نو سے کوسوں دور رہیں گے چاہے وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں… کمپیوٹنگ اب لوگوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ معلومات کا بیش قیمت بہاؤ جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے، کے بغیر آج کے دور میں کسی حقیقی ترقی کا تصور محال ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقی احیائے نو میں آزاد سافٹ ویئر کیوں ضروری ہیں؟ اس کی وجہ از بس سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آزاد سافٹ ویئر کا مصدر (سورس کوڈ) تحقیقی وتدریسی مقاصد کے لیے دستیاب ہوتا ہے، یوں ترقی پذیر ممالک ان سافٹ ویئر میں اپنی ضرورت کا رد وبدل کر کے انہیں تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال میں لاسکتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ انہیں معقول قیمت پر اپنے شہریوں کی آمدنی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فروخت بھی کر سکتے ہیں بجائے کمپنیوں کا انتظار کرنے کے کہ وہ مہنگے داموں مطلوبہ تبدیلی/تبدیلیاں کر کے دیں اور رقم کی ادائیگی کے باوجود کوڈ اپنے پاس ہی رکھیں جس کی وجہ سے صارفین ان کی اپڈیٹس کے ہمیشہ تابع ہوجاتے ہیں، یہ سب ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات پر بے جا بوجھ بنتا ہے اور ان کی حقیقی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی۔
ہر دفعہ گاڑی بنانے پر ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد نہیں کرنا ہوگا۔ کوڈ کی دستیابی نئے نئے آئیڈیاز کو جنم دے گی جبکہ اجارہ دار پروڈکٹ میں ہمارے پاس کوئی خام مال نہیں ہوتا، نتیجتاً کسی نئے آئیڈیے کے ظہور کا امکان صفر ہے۔ ہمیں ہر چیز صفر سے شروع کرنی ہوگی۔ اگر آپ کو کوئی مخصوص ٹیکسٹ ایڈیٹر ہی بنانا ہے تو بھی آپ کو صفر سے شروع کرنا ہوگا۔ جبکہ آزاد سافٹ ویئر کی صورت میں آپ کو کئی ٹیکسٹ ایڈیٹرز کے کوڈ مفت میں مل جائیں گے، چنانچہ صفر سے شروع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آپ کو بس پہلے سے موجود کوڈ میں اپنے آئیڈیاز شامل کرنے ہیں، اس طرح سبھی کوڈ کو بہتر سے بہتر کرنے میں مدد کرتے ہیں اور آئیڈیاز کا ایک انبار جمع ہوجاتا ہے۔ یہ امر ملکیتی سافٹ ویئر کے مقابلے میں آزاد سافٹ ویئر کی تیز تر ترقی کی ضمانت ہے۔ اگر ملکیتی سافٹ ویئر میں آپ صفر سے شروع کرتے ہیں تو آزاد سافٹ ویئر میں آپ وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں دوسروں نے کام ختم کیا ہوتا ہے۔
آزاد سافٹ ویئر میں اردو کی سپورٹ کے لیے وسیع امکانات موجود ہیں۔ کوڈ کی دستیابی کی وجہ سے ہم آسانی سے کسی بھی سافٹ ویئر میں اردو کی سپورٹ شامل کر سکتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ان کا اردو ترجمہ بھی کر سکتے ہیں اور اردو بولنے والوں کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان میں مطلوبہ تبدیلیاں بھی کر سکتے ہیں۔ ہم ممکنات یا مفروضوں کی بات نہیں کر رہے، ایسے گروہ موجود ہیں جو واقعتا آزاد سافٹ ویئر کو اردوانے کا کام کر رہے ہیں۔
آپ کو ایک بار پھر یاد دلا دیں کہ آزادی کوڈ کو عام کرنے میں ہے، ملکیتی سافٹ ویئر ایک سیاہ ڈبے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، کوئی بھی آپ کو ضمانت نہیں دے سکتا کہ جو سافٹ ویئر آپ اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون میں استعمال کر رہے ہیں ان میں آپ کی جاسوسی کے لیے کوئی اجزاء موجود نہیں۔ ایسے سافٹ ویئر بڑے آرام سے آپ کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مائیکروسافٹ ونڈوز اپنے صارفین کی جاسوسی کرتی ہے اور کمپیوٹر میں داخل کیے گئے تلاش کے الفاظ پوشیدہ طور پر ارسال کرتی ہے۔ اسی طرح ونڈوز پر نصب دیگر سافٹ ویئر بھی آپ کی جاسوسی کرتے ہیں جیسے ریئل پلیئر (RealPlayer) جو آپ کی چلائی گئی تمام فائلوں کی تفصیلات کمپنی کو ارسال کرتا ہے۔ موبائل فونز بھی غیر آزاد سافٹ ویئر سے بھرے ہوتے ہیں جو آپ کی جاسوسی کرتے ہیں اور ان میں خود موبائل فونز کا غیر آزاد ہارڈویئر بھی شامل ہے۔ بعض موبائل فونز بند حالت میں بھی آپ کے مقام کے تعین کے لیے سگنل ارسال کرتے ہیں جس سے کوئی بھی مخصوص آلات کے ذریعے آپ کی لوکیشن کے بارے میں جان سکتا ہے چاہے آپ چاہیں یا نہیں۔ بعض فونز کو دور سے آواز ٹیپ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، صارفین اور ترقی پذیر حکومتیں یہ ’’خرابیاں‘‘ دور نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کا ایسے آلات پر کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی وہ جانتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں۔ واحد طریقہ جس سے آپ پْر یقین ہوسکتے ہیں کہ آپ کا سافٹ ویئر صرف آپ ہی کے لیے کام کر رہا ہے آزاد سافٹ ویئر کا استعمال ہے۔ آزاد سافٹ ویئر کی دنیا میں آپ کی اور آپ کے ڈیٹا کی سیکیوریٹی خود آپ کے ہاتھ میں ہے اور مکمل طور پر محفوظ ہے۔
پروگرامر ہونے کی صورت میں آزاد سافٹ ویئر آپ کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا بہترین ذریعہ ہیں، آپ لاکھوں سافٹ ویئر کے کوڈ کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور پھر آزاد سافٹ ویئر کے بڑے بڑے منصوبوں میں حصہ لے کر اپنی صلاحیتوں کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف آپ کے تجربے بلکہ آپ کی مارکیٹ ویلیو میں بھی اضافہ ہوگا جس کا براہ راست اثر آپ کی آمدنی پر پڑے گا۔ مختصراً آزاد سافٹ ویئر پروگرامرز اور ڈیویلپرز کے لیے ایک بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔
opensource-free-sfotware
اوپن سورس مفت سافٹ ویئر
آزاد سافٹ ویئر کا استعمال مجموعی طور پر آپ میں دوسروں کو نفع پہنچانے والی طرزِ زندگی کو قوت بخشتا ہے، کیونکہ ہر کوئی پروگرام حاصل کر سکتا ہے۔ ہر کوئی اس کے کوڈ کا مشاہدہ کر سکتا ہے اور ہر کوئی اس کی ترقی میں حصہ لے سکتا ہے۔ یہ خوبیاں معاشرے کے کسی مخصوص گروہ کے لیے مخصوص نہیں۔ آزاد سافٹ ویئر کی دنیا میں ’’ٹیکنالوجی کے پیشواؤں‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں … سیکھنا سب کے لیے دستیاب ہے اور کوئی اس پر اجارہ داری قائم نہیں کر سکتا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ آزاد سافٹ ویئر عموماً مفت ہوتے ہیں۔ پھر بھی اگر آپ قیمتاً دستیاب کوئی آزاد سافٹ ویئر استعمال کرنا چاہیں تب بھی اس کی قیمت انتہائی معقول ہو گی یا پھر آپ اسے کسی ایسے دوست سے بھی حاصل کر سکتے ہیں جس نے اسے خریدا ہوا ہو۔ اقتصادی طور پر آزاد سافٹ ویئر افراد، ادارے، اسکول، خیراتی ادارے اور حکومتوں کے لیے ایک کارآمد حل ہیں۔
تجربہ اس بات کا گواہ ہے کہ آزاد سافٹ ویئر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ گنو  (GNU) لینکس آپریٹنگ سسٹم (جوکہ بہت ہی زیادہ عام آزاد آپریٹنگ سسٹم ہے) ونڈوز سے زیاد مستحکم ہے، گنو لینکس آزاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے ہزاروں پروگرامرز کرنل (Kernel) کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مسلسل کام کرتے ہیں۔ آزاد سافٹ ویئر میں ترقی کا عمل غیر آزاد سافٹ ویئر سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ زیادہ تر آزاد سافٹ ویئر جن میں لینکس کا کرنل بھی شامل ہے ہر چھ ماہ بعد نیا ورژن جاری کرتے ہیں جس سے سافٹ ویئر یا نظام میں غلطیوں کی شرح کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ زیادہ مستحکم ہوتے چلے جاتے ہیں، لینکس استعمال کرنے پر آپ وائرس وغیرہ کو تو بھول ہی جائیں گے۔ لینکس اب تک کا سب سے محفوظ آپریٹنگ سسٹم تصور کیا جاتا ہے۔
استعمال کی آسانی نہ صرف عام بلکہ مبتدی حضرات کے لیے بھی۔ آزاد سافٹ ویئر (جیسے گنو لینکس آپریٹنگ سسٹم) استعمال میں آسان ہوتے ہیں (یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ لوگوں میں یہ شوشہ بہت عام ہے کہ لینکس استعمال میں مشکل ہے)۔ کیونکہ آپ ایک آزاد دنیا میں ہیں ’’ونڈوز ایکس پی کے راز‘‘ جیسی اصطلاحات آپ کو سننے کو نہیں ملیں گی کیونکہ آزاد سافٹ ویئر میں کوئی راز نہیں ہوتے اور نا ہی آپ کو یہ ’’راز‘‘ سیکھنے کے لیے سالوں لگیں گے۔
سپورٹ کی دستیابی، ایک عام صارف کے طور پر جب آپ آزاد سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں تو ایک ایسی عالمی برادری آپ کے انتظار میں ہوتی ہے جو علم کو راز رکھنے پر یقین نہیں رکھتی، جن کا ایمان ہے کہ معرفت سب کا حق ہے اور وہ بھی بالکل مفت اور بغیر کسی ادنیٰ تر شرط کے جس میں مذہبی، نسلی یا نظریاتی اختلافات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ انٹرنیٹ ایسے فورمز، بلاگز، ویکیز اور ویڈیو ٹیوٹوریلز سے بھرا پڑا ہے جو آپ کی سپورٹ کی ضروریات کو بھرپور انداز میں پورا کریں گے۔ پھر بھی اگر آپ کو کوئی خصوصی مسئلہ درپیش ہے تو بھی گرو حضرات مختلف آئی آر سی چینلز پر آپ کی مدد کے لیے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اگر آپ کوئی کمپنی چلاتے ہیں تو آپ قیمتاً فوری اور معیاری سپورٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
آزاد سافٹ ویئر کم تر وسائل کے حامل آلات کے لیے انتہائی موزوں ہوتے ہیں۔ غیر آزاد سافٹ ویئر کی طرح ان کے لیے کسی ہائی سپیسی فیکیشن ہارڈ ویئر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں غیر آزاد سافٹ ویئر کے ساتھ چلنے کے لیے آپ کو بار بار اپنا ہارڈ ویئر بدلنے کی زحمت اٹھانی پڑے گی جو آپ کی جیب پر یقینا ایک فالتو بوجھ ہے۔ قدیم ترین آلات کو چلانے کے لیے بھی آپ کو آزاد سافٹ ویئر کی دنیا میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یوں آزاد سافٹ ویئر کے ذریعے آپ پھینکنے کی بجائے پرانے ہارڈ ویئر کو کار آمد بنا سکتے ہیں۔ آپ کو یہ بات شاید دلچسپ لگے کہ لینکس نے حال ہی میں پرانے انٹل 386پروسیسرز کی سپورٹ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے!!
بیشتر آزاد سافٹ ویئر ایک سے زائد پلیٹ فارمز پر کام کرنے کی خوبی سے مزین ہیں۔ آپ کو کوئی آزاد سافٹ ویئر لینکس سمیت ونڈوز اور میک کے لیے بھی مل جائے گا۔ اگر آپ ایک سے زائد پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں تو ہر پلیٹ فارم کے لیے آپ کو الگ سافٹ ویئر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ وہی سافٹ ویئر دونوں آپریٹنگ سسٹمز پر چلا سکتے ہیں۔
ان نقاط کی روشنی میں قارئین با آسانی اس بات کا انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ آزاد مصدر سافٹ ویئر چاہے آپ استعمال کریں یا نہ کریں، انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جس طرح اے ایم ڈی کے بارے میں کہا جاتاہے کہ بھلے ہی اس نے مائیکرو پروسیسرز کی دنیا میں انٹل جتنی ترقی اور جدت حاصل نہ کی ہو، لیکن یہ اے ایم ڈی ہی ہے جس کی وجہ سے انٹل اپنے پروسیسرز کو بہتر سے بہترین، تیز سے تیز تر اور کم سے کم قیمت میں پیش کرتا رہا۔ بالکل اسی طرح آزاد مصدر سافٹ ویئر نے بھی کلوزڈ سورس سافٹ ویئر کو سخت مقابلے کی ٹکر دے رکھی ہے اور ان کی اجارہ داری کسی حد تک کم کررکھی ہے۔
لیکن یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ کلوزڈ سورس سافٹ ویئر کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ آزاد مصدر سافٹ ویئر کا مقصد انہیں ختم کرنا ہے، غلط ہے۔ ایسا ہونا تقریباً نا ممکن ہے۔ جب تک کمپیوٹر استعمال ہوتے رہیں گے، کلوزڈ سورس سافٹ ویئر بنتے رہیں گے اور انہی جیسی سہولیات رکھنے والے اوپن سورس سافٹ ویئر بھی سامنے آتے رہیں گے۔

Monday, 20 January 2014

Global ranking: Pakistan billed to become 18th largest economy by 2050

enlarge41547 (1)Pakistan would become the 18th largest economy in the world by 2050 with a GDP of US$ 3.33 trillion, predicted economist Jim O’Neill. Currently, Pakistan is the 44th largest economy in the world with a GDP of US$ 225.14 billion. This means that, if O’Neill’s projections are correct, Pakistan’s economy would grow 15 times in the next 35 years or so.
Economist Jim O’Neill, who coined the term BRICS (Brazil, Russia, India and China – as potential powerhouses of the world economy, has now identified the ‘Mint’ countries – Mexico, Indonesia, Nigeria and Turkey – as emerging economic giants, according to BBC.
In terms of wealth, Mexico and Turkey are at about the same level, earning annually about $10,000 per head. This compares with $3,500 per head in Indonesia and $1,500 per head in Nigeria, which is on a par with India. They are a bit behind Russia – $14,000 per head – and Brazil on $11,300, but still a bit ahead of China – $6,000 (£3,600).
Published in The Express Tribune, January 20th, 2014.1102074357-1

35
 
0
 
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/01/20/global-ranking-pakistan-billed-to-become-18th-largest-economy-by-2050/#sthash.JxMBBVmx.dpuf

Global ranking: Pakistan billed to become 18th largest economy by 2050

enlarge41547 (1)Pakistan would become the 18th largest economy in the world by 2050 with a GDP of US$ 3.33 trillion, predicted economist Jim O’Neill. Currently, Pakistan is the 44th largest economy in the world with a GDP of US$ 225.14 billion. This means that, if O’Neill’s projections are correct, Pakistan’s economy would grow 15 times in the next 35 years or so.
Economist Jim O’Neill, who coined the term BRICS (Brazil, Russia, India and China – as potential powerhouses of the world economy, has now identified the ‘Mint’ countries – Mexico, Indonesia, Nigeria and Turkey – as emerging economic giants, according to BBC.
In terms of wealth, Mexico and Turkey are at about the same level, earning annually about $10,000 per head. This compares with $3,500 per head in Indonesia and $1,500 per head in Nigeria, which is on a par with India. They are a bit behind Russia – $14,000 per head – and Brazil on $11,300, but still a bit ahead of China – $6,000 (£3,600).
Published in The Express Tribune, January 20th, 2014.1102074357-1

35
 
0
 
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/01/20/global-ranking-pakistan-billed-to-become-18th-largest-economy-by-2050/#sthash.JxMBBVmx.dpuf

Global ranking: Pakistan billed to become 18th largest economy by 2050

enlarge41547 (1)Pakistan would become the 18th largest economy in the world by 2050 with a GDP of US$ 3.33 trillion, predicted economist Jim O’Neill. Currently, Pakistan is the 44th largest economy in the world with a GDP of US$ 225.14 billion. This means that, if O’Neill’s projections are correct, Pakistan’s economy would grow 15 times in the next 35 years or so.
Economist Jim O’Neill, who coined the term BRICS (Brazil, Russia, India and China – as potential powerhouses of the world economy, has now identified the ‘Mint’ countries – Mexico, Indonesia, Nigeria and Turkey – as emerging economic giants, according to BBC.
In terms of wealth, Mexico and Turkey are at about the same level, earning annually about $10,000 per head. This compares with $3,500 per head in Indonesia and $1,500 per head in Nigeria, which is on a par with India. They are a bit behind Russia – $14,000 per head – and Brazil on $11,300, but still a bit ahead of China – $6,000 (£3,600).
Published in The Express Tribune, January 20th, 2014.1102074357-1

35
 
0
 
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/01/20/global-ranking-pakistan-billed-to-become-18th-largest-economy-by-2050/#sthash.JxMBBVmx.dpuf

Jang Ka Meerut (War Time)



Jang Ka Meerut (War Time) by Orya Maqbool Jan (12th August 2013)

Jang Ka Meerut (War Time) by Orya Maqbool Jan (12th August 2013)
x3912_44944497.jpg.pagespeed.ic.g45BdRIPj-

Saturday, 18 January 2014

کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر فائرنگ، فرائض کی انجام دہی دینے والے 3 ارکان شہید

کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر فائرنگ، فرائض کی انجام دہی دینے والے 3 ارکان شہید

  جمعـء 17 جنوری 2014
فائرنگ کا نشانہ بننے والی ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی جائے وقوعہ پر کھڑی ہے۔فوٹو:محمد نعمان/ایکسپریس
کراچی: میٹرک بورڈ آفس کے قریب ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر فائرنگ سے ٹیکنیشن، ڈرائیور اور گارڈ شہید ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی میٹرک بورڈ آفس کے قریب موجود تھی کہ موٹرسائیکل سوار ملزمان آئے اور اندھا دھند فائرنگ کردی، فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی کے ٹیکنیشن وقاص، ڈرائیور خالد اور گارڈ اشرف شدید زخمی ہو گئے۔ ایکسپریس نیوز کے تینوں کارکنوں کو فوری طور پر عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لا کر اسپتال میں دم توڑ گئے۔ جائے وقوعہ کے قریب پولیس اور رینجرز کی نفری بھی موجود تھی تاہم وہاں موجود اہلکاروں کی جانب سے ملزمان کو پکڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
ڈاکٹرز کے مطابق ملزمان نے وقاص کو 2 گولیاں بیٹ اور ایک سینے میں ماری جب کہ ڈرائیورخالد کو ایک گولی سینے میں ماری گئی اور شہید ہونے والے گارڈ اشرف کو 3 گولیاں کندھے اورایک سینے پرماری گئی۔
ایس ایس پی سینٹرل عامرفاروقی کا کہنا ہے کہ ملزمان شلوار قمیض میں ملبوث تھے اور انہوں نے اسلحہ پر سائلنسر نصب کر رکھے تھے جب کہ وہ حملے کے بعد اورنگی ٹاؤن کی جانب فرار ہوئے۔ دوسری جانب حکومت سندھ نے حملہ آووروں کی اطلاع دینے پر 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف، متحد قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین، سابق صدر آصف علی زرداری، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شيخ رشید نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور ذمہ داری لیتے ہیں تو ہم بھی اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، شہریوں اور صحافیوں کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری ہے اور ہم دہشت گردوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر کوشش کر رہی ہے کہ شہر میں امن قائم ہو جس میں ہم 40 فیصد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں تاہم دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنے کے لئے جدید اسلحہ اور ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی ایف آئی آر فوری درج کی جائے گی اور جائے وقوعہ پر غفلت برتنے والے پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
پی ایف یوجے سمیت دیگر صحافی تنظیموں اور مختلف پریس کلب نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کل ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ایکسپریس گروپ کے کراچی آفس پر 2 بارحملہ کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ سال 2 دسمبر کو بھی موٹرسائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے کراچی میں ایکسپریس گروپ کے دفتر پر کریکر بم پھینکے اور فائرنگ کی تھی جس سے ایک گارڈ زخمی ہوگیا تھا جب کہ اگست میں ہونے والے حملے میں ایک خاتون کارکن اور گارڈ زخمی ہوئے تھے۔

Door To Hell in Turkmenistan Flaming for 40 years January 16, 2014 Category: Current Affairs, Education News, Pakistan News - 4 comments Advertisement Door To Hell in Turkmenistan Flaming away for more than 40 years. Read this Interesting story in Urdu:

Door To Hell in Turkmenistan Flaming for 40 years

Wednesday, 15 January 2014

پاکستان بھارت تجارتی مذاکرات آج شروع ہوں گے

پاکستان بھارت تجارتی مذاکرات آج شروع ہوں گے

)
پاکستان بھارت تجارتی مذاکرات آج شروع ہوں گے
نئی دہلی(مانیٹر نگ ڈیسک)پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے سلسلے میں سیکریٹری کی سطح کے مذاکرات آج سے نئی دہلی میں شروع ہو رہے ہیں۔مطابق امکان ہے کہ دونوں ممالک دو طرفہ تجارت کو مزید آزادانہ بنانے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے پروگرام پر عملدرآمد کی نئی ٹائم لائن طے کریں گے۔پاکستان اور بھارت نے باہمی تجارت کو بڑھانے کے سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے تین معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں مگر ان پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے جبکہ گذشتہ سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے انتہا پسندوں کا دباو¿ بڑھا اور اسی دباو¿ کے تناظر میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے فی الحال بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر مملکت برائے تجارت خرم دستگیر خان بھی سارک ممالک کے اقتصادی گروپ کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے جمعرات کو نئی دہلی جا رہے ہیں جہاں ان کی اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات متوقع ہے۔سیکریٹری سطح کے مذاکرات کے بعد امکان ہے کہ دونوں وزراءباہمی تجارت بڑھانے کے سلسلے میں مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *