Tuesday, 4 February 2014

تاریخ کے عظیم ترین غیر نیوکلیائی دھماکے



سافٹ ویئر کی عظیم غلطیاں


ایک وقت تھا جب سافٹ ویئر پروگرامنگ دنیا کے مشکل ترین کاموںمیں سے ایک شمار کی جاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پروگرامنگ لینگویجز اپنے ابتدائی دور سے گزر ررہی تھیں۔ اس دور میں اسمبلی جیسی لولیول پروگرامنگ لینگویجز استعمال ہورہی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہائی لیول لینگویجز کا ظہور ہوا اور پروگرامنگ کی دنیا ہی بدلتی چلی گئی۔ درجنوں نئی پروگرامنگ لینگویجز سامنے آئیں اور ہر لینگویج کے آتے ہی پروگرامنگ آسان سے آسان تر ہوتی گئی۔ آج سی شارپ، وی بی ڈاٹ نیٹ، جاوا اور پائتھون جیسی طاقتور لینگویجز کثرت سے زیر استعمال ہیں۔ صرف یہی نہیں، اب اپنی پروگرامنگ لینگویج بنانا بھی کچھ مشکل نہیں رہا۔ قصہ مختصر کہ پروگرامنگ کی دنیا اب بالکل بدل چکی ہے اور یہ کام اب اتنا آسان ہوچکا ہے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ پروگرام لکھنے کے لئے بھی چند دن درکار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں لیولیول لینگویجز میں ایک چھوٹا سا پروگرام لکھنے کے لئے بھی کبھی کبھی کئی ماہ درکار ہوتے تھے۔
پروگرامنگ تو آسان ہو ہی گئی مگر ایک چیز اب بھی ایسی ہے جو کسی بھی وقت کسی سافٹ ویئر انجینئر کے گلے کا پھندہ بن سکتی ہے۔ اور وہ چیز ’’سافٹ ویئر بگز‘‘۔
سافٹ ویئر بگز کسی کمپیوٹر پروگرام میں ایسی غلطیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے پروگرام مخصوص حالات میں کریش ہوجاتا ہے، چلنے سے انکار کردیتا ہے ، غلط نتائج پیدا کرتا ہے یا کوئی الٹا سیدھا کام کرنے لگتا ہے۔ بیشتر مواقع پر یہ بگز پروگرام بنانے والے پروگرامر کی غلطی کی وجہ سے رہ جاتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ پروگرامنگ لینگویج کے کمپائلر کا بھی قصور ہوسکتا ہے۔ سافٹ ویئر بگز اتنے عام ہیں کہ کسی سافٹ ویئر پروگرام کے بارے میں حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سو فیصد بگز سے پاک ہے۔ آپریٹنگ سسٹم چاہے کمپیوٹر کا ہو یا کسی موبائل فون کا، مائیکروسافٹ آفس ہو یا اوپن آفس، لینکس ہو یا ونڈوز، سافٹ ویئر کمرشل ہو یا اوپن سورس، بگز سب میں پائے جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ سامنے بھی آتے رہتے ہیں۔
ایسا سافٹ ویئر جس میں بگز کی بڑی تعداد موجود ہو ’’Buggy‘‘ کہلاتا ہے اور بگز کے بارے میں پروگرامر کو مطلع کرنے کے عمل کو ’’bug report‘‘ کہا جاتا ہے۔ بگز کو دور کرنے کو Debugging کہا جاتا ہے۔
ڈی بگنگ شاید سافٹ ویئر پروگرامنگ سے بہت مشکل کام ہے۔ اگرچہ تمام جدید پروگرامنگ لینگویجز کے ساتھ ڈی بگنگ ٹولز بھی فراہم کئے جاتے ہیں ۔ لیکن آج بھی ڈی بگنگ سافٹ ویئر انجینئرنگ کے مشکل ترین امور میں سے ایک ہے۔ ایسے مواقع پر تو خاص طور پر ڈی بگنگ مشکل ہوجاتی ہے جب آپ کسی دوسرے پروگرامر کے لکھے ہوئے کوڈ کو ڈی بگ کررہے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بگز صرف سافٹ ویئر میں نہیں بلکہ ہارڈ ویئر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ڈی بگنگ صبر آزما اور تکلیف دہ حد تک خشک کام ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ کسی سافٹ ویئر پروگرام کو بگ فری نہیں جاسکتا۔ اس لئے یہ بگز بعض اوقات عظیم نقصانات کا باعث بھی بنتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہی جب سافٹ ویئر یا ہارڈ ویئر میں موجود بگز کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔
سنہ 2005 کی آخری سہ ماہی کی بات ہے جب آٹو موبائل کے حوالے سے شہرت یافتہ ’’ٹویوٹا‘‘ نے اپنی Priusہائبرڈ گاڑی کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار یونٹس کی واپسی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کی وجہ وہ رپورٹس ہیں جن میں صارفین کی جانب سے شکایات کی گئی تھیں کہ گاڑی کی وارننگ لائٹس خود بخود روشن ہوجاتی ہیں اور گاڑی کا گیسولین انجن بھی غیر متوقع برتاؤ پیش کرنے لگتا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار آٹو موبائلز بنانے والے لاکھوں کی تعداد میں خراب گاڑیاں بدل چکے ہیں مگر ان سب میں ہارڈ ویئر کے حوالے ہی سے کوئی خرابی موجود ہوتی تھی۔ لیکن ٹویوٹا کی Priusگاڑی میں خرابی ہارڈ ویئر کی نہیں بلکہ ایک سافٹ ویئر کی تھی۔ اس اسمارٹ کار کے ایمبیڈڈ سافٹ ویئر میں ایک بگ تھا جس کی وجہ سے وارننگ لائٹس خود بخود روشن ہوجاتی تھیں۔ اس طرحPrius بھی بگی سافٹ ویئر کی فہرست میں شامل ہوگئی۔
تاریخ کا پہلا اور مشہور ترین بگ ’’مارک ٹو‘‘ میں پایا گیا۔ 1945 ء کی بات ہے جب مارک ٹو پر ضرب اور جمع کے کچھ ٹیسٹ کئے جارہے تھے۔ اس دوران انجینئرز نے مشاہدہ کیا کہ مارٹ ٹو کے حساب کتاب میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ خرابی پینل ایف کے سترویں ریلے (Relay) میں تھی ۔ خرابی فوراً دور کرلی گئی اور ساتھ ہی لاگ بک میں خرابی کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا گیا کہ ’’پہلا اصل کیس جب بگ تلا ش کرلیا گیا‘‘۔
اس واقعے کو گزرنے کے ساٹھ سال بعد بھی یہ بگز ہمارے ساتھ ہیں۔ آج جہاں ہم جدید سافٹ ویئر دیکھ رہے ہیں، وہیں جدید اور انوکھے بگز بھی تفریح طبع کے لئے موجود ہیں۔
یہاں ہم چند مشہور سافٹ ویئر بگز کا ذکر کررہے ہیں جن کی وجہ سے بڑے نقصانات ہوئے۔

لاکھوں ڈالر مالیت کی مرنیر 1 اسپیس پروب مکمل تباہ !

28 جولائی 1962 ء کو مرینر اسپیس پروب جو کہ مرینر پروگرام کا پہلا راکٹ تھا، کو سیارہ زہرہ کی تحقیق کے لئے روانہ کیا گیا۔ مگر فلائٹ سافٹ ویئر میں موجود ایک بگ کی وجہ سے یہ راکٹ اپنے محور سے منحرف ہوگیا۔ بعد میں مشن کنٹرول کے رینج سیفٹی آفیسرز نے کئی ملین ڈالرز کی لاگت سے تیار ہونے والے اس راکٹ کو سمندر کے اوپر تباہ کردیا تاکہ راستے بھٹکنے کی وجہ سے یہ کسی شہری آبادی پر نہ گر کر جانی نقصان کا باعث نے بنے۔
تحقیقات کرنے پر انکشاف ہوا کہ فلائٹ سافٹ وئیر پروگرام جو کہ فورٹران میں لکھا گیا تھا، کے پروگرامز نے پنسل سے پیپر پر لکھے ہوئے ایک فارمولے کو غلط انداز میں کمپیوٹر کوڈ کی شکل دی۔ فارمولے میں صرف ایک ہائفن (-) موجود نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے راکٹ اپنے راستے سے بھٹک گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلائٹ پروگرام میں ایک جگہ کوما کی جگہ غلطی سے نقطہ (.) لگا دیا گیا اور اسی اسٹیمنٹ میں ایک اسپیس ڈیلیٹ کردیا گیا۔ اسٹیٹمنٹ کو کچھ یوں ہونا چاہئے تھا:
DO 17 I = 1, 10
مگر کومے کی جگہ نقطہ لگانے اور اسپیس ڈیلیٹ کرنے کی وجہ سے یہ اسٹیٹمنٹ کچھ یوں ہوگئی۔
DO17I = 1.10
اس سے ملتا جلتا ایک بگ ناسا کے اوربٹ کمپیوٹیشن سسٹم میں بھی پایا گیا تھا جو کہ پروجیکٹ مرکری کے لئے تیار کیا گیا تھا۔

اے ٹی اینڈ ٹی نیٹ ورک کے سوئچز کریش ہوگئے

15 جنوری 1990 کی بات ہے کہ اے ٹی اینڈ ٹی کے لمبے فاصلے کی فون کالز کنڑول کرنے والے سوئچز میں سے ایک سوئچ اچانک کریش کرگیا جو بظاہر ایک نارمل صورت حال ہے۔ لیکن کچھ ہی سیکنڈز میں جب یہ سوئچ ری کور ہوا تو اس نے اپنے قریب موجود دوسرے سوئچ کو بھی کریش ہونے پر مجبور کردیا۔ کچھ ہی دیر میں اے ٹی اینڈ ٹی نیٹ ورک کے 114 سوئچز کریش ہوگئے۔ ہر سوئچ ٹھیک 6 سیکنڈ کے بعد ری اسٹارٹ ہونے لگا۔  60 ہزار سے زائد لوگ لانگ ڈسٹنٹ کالز کرنے سے محروم ہوگئے۔
مسئلے کی جانچ پڑتال کرنے والے انجینئرز نے کھوج لگایا کہ وہ سافٹ ویئر جو کہ لمبے فاصلے کی کالز انجام دینے والے سوئچز کو کنٹرول کرتا ہے، کے نئے انسٹال کئے گئے ورژن میں ایک سافٹ ویئر بگ موجود ہے۔ جس کی وجہ سے سوئچ اس وقت فی الفور ری اسٹارٹ ہوجاتا جب وہ ایک مخصوص پیغام موصول کرتا تھا۔ یہ پیغام بھی وہ ہے جو کہ دوسرے سوئچ کریش سے ری کور ہونے کے بعد اپنے ہمسائے سوئچز کو اپنے زندہ ہونے کی اطلاع فراہم کرنے کے لئے بھیجتے تھے۔ ری پیئرنگ کرنے والے انجینئرز نے اس سافٹ ویئر کا پرانا ورژن انسٹال کرکے اس مسئلے پر قابو پا لیا۔ لیکن اس سافٹ ویئر بگ کی وجہ سے اے ٹی اینڈ ٹی کی لانگ ڈسٹنٹ کال سروس 9 گھنٹے کے لئے غیر فعال رہی اور لاکھوں ڈالر کے نقصان کا باعث بنی۔

برکلے یونکس فنگر ڈائمن میں بفر اوور فلو

1988 ء میں دنیا کے پہلے انٹرنیٹ وورم جو مورس وورم کہلاتا ہے، نے دنیا بھر میں 2000 سے 6000 ہزار کمپیوٹرز کو متاثر کیا۔ یہ وورم بفر اوورفلو (Buffer Overflow) کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متاثرہ کمپیوٹر پر قابو پالیتا تھا۔ بفر اوورفلو اس وقت واقع ہوتا ہے جب آپ کسی ویری ایبل یا ڈیٹا ٹائپ کو اس کی گنجائش سے زیادہ ڈیٹا فراہم کریں۔
مورس وورم سے متاثر ہونے کے بعد تحقیق پر اسٹینڈرڈ ان پٹ آؤٹ پٹ لائبریری میں موجود ایک فنکشن gets() میں ایک خامی پائی گئی۔ یہ فنکشن ایک ایسی لائبریری میں استعمال کیا گیا جو کہ نیٹ ورک پر ٹیکسٹ موصول کرتا تھا۔ اس فنکشن میں ان پٹ ٹیکسٹ پر کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اس لئے جب اسے بڑی مقدار میں ٹیکسٹ ان پٹ کے لئے فراہم کیا جاتا تو کریشن ہوجاتا۔ مورس وورم اسی خامی کا فائدہ اٹھا کر پھیلتا تھا۔
برکلے کے پروگرامرز نے فوراً ہی کوڈ میں تبدیلی کرکے اس خامی پر قابو پا لیا مگر سی لینگویج کی اسٹینڈر ان پٹ آؤٹ پٹ لائبریری میں سے اسے ختم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اس طرح gets() آج بھی سی لینگویج کی IOلائبریری میں اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ موجود ہے۔

تاریخ کے عظیم ترین غیر نیوکلیائی دھماکے

جنوری 1982میں امریکی صدر رونلڈ ریگن نے سی آئی اے کے ایک ایسے منصوبے کی منظوری دی جس کا مقصد سویت یونین کو غلط اور بگز پر مبنی ٹیکنالوجی کی منتقلی تھی جو کہ بعد میں تباہ کن ثابت ہوسکے اور ان کی معیشت برباد ہوجائے۔ اس منظوری کے بعد سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کینیڈا کی ایک کمپنی کے تیار کردہ کمپیوٹر سسٹم میں خرابی پیدا کردی۔ یہ کمپیوٹر سسٹم سویت یونین کو فروخت کیا گیا جس نے اسے ٹرانس سیبرین گیس پائپ لائنز کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیا۔ سویت یونین نے بھی یہ کمپیوٹر سسٹم اس منصوبے کے تحت خریدا جس کا مقصد حساس امریکہ ٹیکنالوجی چرانا یا خریدنا تھا۔ امریکی سی آئی اے کو اپنے خفیہ ذرائع سے سویت یونین کے اس کمپیوٹر سسٹم کی خریداری کے بارے میں علم ہوگیا۔ لہٰذا انہوں نے اس کمپیوٹر سسٹم کو اس طرح خراب کرنے کا فیصلہ کیا کہ خریداری کے بعد بھی یہ سویت یونین کے کوالٹی معیارات پر پورا اترے اور پھر اس وقت فیل ہوجائے جب اسے عملی طور پر استعمال کیا جارہا ہو۔
امریکی سی آئی اے کی اس حرکت کے نتیجے میں 1982ء میں ٹرانس سیبرین گیس پائپ لائنز مکمل طور پر تباہ ہوگئیں اور کہا جاتا ہے کہ زمین کی پوری تاریخ میں ایٹمی دھماکوں کے بعد یہ دھماکے عظیم ترین تھے اور اس سے اتنی آگ پیدا ہوئی جو اس سے پہلے زمین کے تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی ۔

تھیراک -25 ، پانچ انسانوں کی قاتل مشین

تھیراک 25 ایک ریڈی ایشن تھراپی مشین تھی جسے ایٹامک انرجی آف کینیڈا نامی کمپنی تیار کرتی تھی۔ یہ مشین 1985 اور 1987 کے عرصے میں کم از کم پانچ انسانوں کو مہلک حد تک زیادہ تابکاری کا نشانہ بناکر موت کی گھاٹ اتار چکی تھی جبکہ زخمیوں کی کوئی گنتی ہی نہیں۔
تھیراک سیریز کی پرانی مشینوں کامیابی سے استعمال کی جارہی تھیں۔ تھیراک 25بھی پرانی مشینوں کو بنیاد بنا کر بنائی گئی اور اس میں کئی تبدیلیاں کی گئی۔ سب سے اہم تبدیلی جو اس میں کئی گئی وہ اس کا تھراپی سسٹم تھا جو کہ دو طرح کی تابکاری مریض کو منتقل کرسکتا تھا۔ اول لو پاور الیکڑان بیم (بی ٹا پارٹیکلز) اور دوم ایکس رے۔ تھیراک 25 میں ایکس رے پیدا کرنے کے لئے ہائی پاور الیکڑانز کو دھات سے ٹکرایا جاتا۔ دوسری اہم تبدیلی جو تھیراک 25 میں کئی گئی وہ پرانی مشین کے الیکٹرو میکینکل سیفٹی انڑ لاک کو سافٹ ویئر کنٹرول سے تبدیل کرنا تھا۔
جب تھیراک 25 کو لو پاور الیکٹران بیم کے لئے کنفیگر کیا جاتا تو الیکٹران گن سے الیکٹران بیم براہ راست مریض تو پہنچتی لیکن اس دوران ’’سیف میگنیٹس‘‘ کے ذریعے اس کو اس طرح پھیلا دیا جاتا ہے کہ یہ نقصان کا باعث نہ بنے۔
لیکن جب مشین کو ایکس رے بیم کے لئے کنفیگر کیا جاتا تو الیکٹران گن سے ہائی پاور الیکڑان بیم خارج ہوتی جو کہ مریض اور الیکٹران گن کے درمیان موجود دھات سے ٹکرا کر ایکس رے پیدا کرتی تھی۔
تھیراک 25 کو اگر غلطی سے اس طرح سیٹ کردیا جائے کہ وہ الیکٹران گن سے ہائی پاور الیکٹران بیم خارج کرے اور دھاتی کمپونینٹ جسے مریض اور بیم کے درمیان ہونا چاہئے، بھی درمیان میں حائل نہ ہوتو مشین کا سافٹ ویئر جو کہ اسمبلی لینگویج میں لکھا گیا تھا، بغیر کوئی ایرر دیئے اس پر عمل درآمد کردیتا تھا۔ اس طرح ہائی پاور الیکٹران بیم براہ راست مریض کو جا ٹکراتی اور مریض کو بجلی کے شدید جھٹکے محسوس ہوتے۔ ساتھ ہی مریض کو جسم بھی جھلس جاتا۔ کم از کم 5 مریض اس طرح زخمی ہونے کے بعد ریڈی ایشن پوائزنگ کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن گئے۔

کربروس رینڈم نمبر جنریٹر

کربروس ایک مشہور نیٹ ورک ایتھٹی کیشن سسٹم ہے جو 1988ء میں متعارف کیا گیا۔ یہ نیٹ ورک پر ڈیٹا اور اس کی ترسیل کو محفوظ بنانے کے لئے مستعمل ہے۔ اس کے تبدیل شدہ ورژن اس وقت بھی ونڈوز 2000، XP اور 2003 سرور میں استعمال کئے جارہے ہیں۔ لیکن اس سسٹم کا ایک حصہ جو کہ رینڈم (Random) نمبر فراہم کرتا ہے، 100 فی صد رینڈم نمبر فراہم نہیں کرسکتا۔ اپنے متعارف ہونے کے 8 سال بعد تک یہ مسئلہ جوں یا توں رہا اور اس خرابی سے فائدہ اٹھا کر ایسے کمپیوٹرز کی سکیوریٹی کو توڑا جاسکتا تھا جو کہ کربروس پر بھروسہ کرتے تھے۔ لیکن ایسی کوئی بھی رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی کہ آیا اس خامی کو استعمال کرتے ہوئے کسی نے آج تک نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ نہیں۔

ایرین  5 فلائٹ 501

ایرین 5 یورپی اسپیس ایجنسی کا ایک کامیاب ترین لانچ سسٹم ہے جو کہ جیو اسٹیشنری مدار یا لو زمین کے نچلے مدار میں پے لوڈ (payload) پہنچانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایرین 4 کی خوبی اور خامیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے لیکن اسے ایرین 4 کی تبدیل شدہ شکل نہیں کہا جاسکتا۔ اس لانچ سسٹم کو تیار ہونے میں 10 سال سے زائد کا عرصہ لگا اور اس پروجیکٹ پر 7 ارب یورو خرچ ہوئے۔
پہلے ای ایس اے نے ایرین 5 کو انسان بردار شٹل ’’ہرمس‘‘ جو خلاء میں پہنچانے کے لئے تیار کرنے کا منصوبہ بنا تھا۔ مگر بعد میں ہرمس شٹل منسوخ ہوگیا اور اس کے بعد ایرین 5 کو مکمل طور پر روبوٹک لانچر کی شکل دے دی گئی۔
ایرین 5 کی پہلی ٹیسٹ پرواز 4 جون 1996 کو کی گئی۔ یہ پرواز Ariane 5 Flight 501کہلاتی ہے۔ اپنی فلائٹ کے صرف 37 سکینڈ کے بعد کنٹرول سافٹ ویئر میں ایک خرابی کی وجہ سے اس نے خود کو تباہ کرلیا۔ سافٹ ویئر کی اس غلطی کو سافٹ ویئر کی تاریخ کی مہنگی ترین غلطیوں میں شمار کیا جاتا ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایرین 5 پر موجود پے لوڈ جو کہ چار کلسٹر مشن اسپیس کرافٹ تھے، بھی ضائع ہوگئے۔ صرف ان کی مالیت 370 ملین ڈالر تھی۔
ایرین 5 کا کنٹرول سافٹ ویئر بھی وہی تھا جو کہ ایرین 4 میں استعمال کیا گیا تھا۔ مگر ایرین 5 کے فلائٹ پاتھ ایرین 4سے بالکل مختلف تھا اور سافٹ ویئر کے کوڈ میں اس کے لحاظ سے ضروری تبدیلیاں نہیں کی گئیں تھیں۔
ایرین 5کے کنٹرول سافٹ ویئر نے پرواز کے دوران 64بٹ فلوٹنگ پوائنٹ کو 16 بٹ سائنڈ انٹیجر ویلیو میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بفر اوو فلو واقع ہوا اور ہارڈ ویئر مکمل طور پر کریش ہوگیا۔ یاد رہے کہ 64بٹ فلوٹنگ پوائنٹ ، 16 بٹ انٹیجر سے بڑا ہوتا ہے اسی لئے بفر اوور فلو واقع ہوا۔

شمال مشرقی امریکہ میں بلیک آؤٹ

14 اگست 2003ء کو شمال مشرقی اور وسط مشرقی امریکہ سمیت اونٹاریو ، کینیڈا میں بجلی کا زبردست بلیک آؤٹ واقع ہوا۔ اس بلیک آؤٹ کے دوران اونٹاریو، کینیڈا میں 10 ملین اور امریکہ میں مجموعی طور پر 40ملین لوگ جو کہ امریکہ کی کل آبادی کا ساتواں حصہ بنتا ہے، متاثر ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس بلیک آؤٹ کی وجہ سے مجموعی طور پر 6 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
سسٹم لاگز کے مطابق پاور میں کمی کی ایک زبردست لہر نے ٹرانسمیشن گرڈ کو رات 10:48پر بری طرح سے متاثر کیا۔ صرف دو منٹ بعد بہت سے شہروں میں بجلی غائب ہونے کی رپورٹس موصول ہونا شروع ہوگئی ۔ متاثر ہونے والے شہروں میں نیو یارک سٹی اور نیو جرسی بھی شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس بلیک آؤٹ نے چوبیس ہزار مربع کلو میٹرز کے علاقے کو متاثر کیا اور 508پاور جنریٹنگ یونٹس سمیت 265 پاور پلانٹس بند ہوگئے۔ ان میں سے 22 ایٹمی بجلی گھر تھے۔
 یہ بلیک آؤٹ اتنا وسیع تھا کہ بلیک آؤٹ سے متاثرہ اکثر علاقوں میں ملکی وے (Milky Way) کہکشاں اور مصنوعی سیارے نظر آنے لگے۔ عام حالات میں لائٹ پلوشن (Light Pollution) کی وجہ سے یہ نظر نہیں آتے تھے۔
ابتدائی طور پر خیال کیا گیا یہ دہشت گردوں کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ لیکن چند ہی گھنٹوں میں یہ ثابت ہوگیا کہ اس میں دہشت گردی کا کوئی عنصر شامل نہیں۔
بجلی کو لمبے عرصے کے لئے محفوظ کرنا آسان امر نہیں۔ عام طور پر بجلی پیداہونے کے ایک سکینڈ سے بھی کم عرصے میں خرچ ہوجاتی ہے۔ اس لئے کسی پاور گرڈ کو فراہم کی جانے والی بجلی اور پاور گرڈ سے صارفین کو سپلائی ہونے والی بجلی میں تناسب ہونا ضروری ہے۔ بصورت دیگر مشکل سے درست ہونے والے مسائل سمیت تباہ کن صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ ایسی کسی بھی صورت حال سے بچنے کے لئے پاور گرڈ کو بند کردیا جاتا ہے۔
ہائی ٹینشن لائنز جو کہ اونچے ٹاورز کے درمیان لٹک رہی ہوتی ہیں، بہت تیزی سے اپنی لمبائی میں کمی بیشی کرتی ہیں۔ جیسے جیسے ان پر لوڈ بڑھتا جاتا ہے، یہ گرم ہو کر پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں اور زمین کی طرف جھکنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کسی بھی پاور لائن پر زیادہ سے زیادہ لوڈ کے حساب سے اس کی کم سے کم اونچائی ناپی جاتی ہے۔ پاور لائن کو کسی چیز سے ٹکرا کر شارٹ سرکٹ سے بچانے کے لئے اس کے راستے میں کوئی بھی اونچی چیز بنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر ان کے راستے میں درخت موجود ہو تو انہیں وقت فوقتاً کاٹا جاتا ہے تاکہ وہ اتنے اونچے نہ ہوسکیں کہ شارٹ سرکٹ کا باعث بنیں۔
مذکورہ بالا بلیک آؤٹ میں بھی پہلی345 کلو واٹ کی پاور لائن ایک درخت سے ٹکرا کر بند ہوگئی۔ اس کے بعد یک بعد دیگرے کئی دوسری ہائی ٹینشن پاور لائنز درختوں سے ٹکرا کر تباہ ہوگئیں۔
فرسٹ انرجی نامی کمپنی جسے اس حادثے کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے، کیوں کہ اوہائیو میں اس کا پاور جنریٹنگ پلانٹ سب سے پہلے شٹ ڈائون ہوا تھا اور اس نے نہ تو فوری ایکشن لیا اور نہ ہی دوسرے کنٹرول سینٹرز کو اس بات کی اطلاع دی۔
جنرل الیکٹرک انرجی کے یونکس بیسڈ XA/21 سرورز جو کہ کنٹرول سینٹرز کا کام کرتے ہیں، میں موجود ایک بگ کی وجہ سے الارم سسٹم پلانٹ آپریٹرز کو خبردار نہ کرسکا اور مکمل طور پر فیل ہوگیا۔ یکے بعد دیگرے بہت سے دیگر ایسے واقع پیش آئے جنھیں الارم سسٹم کو نوٹس کرتے ہوئے آپریٹرز کو بتانا چاہئے تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ 30 منٹ پرائمری سرور بند ہوگیا اور ساری ایپلی کیشنز بیک سرور پر منتقل ہوگئیں جو کہ بالکل اسی صورت حال کے تحت کچھ دیر چلتا رہا ہے پھر وہ بھی بند ہوگیا۔ اس طرح تمام انرجی منیجمنٹ سافٹ ویئر مکمل طور پر بند ہوگئے۔

ہیلی کاپٹر کریش

2جون 1996، شام کے چھ بجے، روئل ایئر فورس کا چینوک ہیلی کاپٹر ZD576 جس میں برطانوی انٹیلی جینس کے اعلیٰ ترین آفیسرز سوار تھے، اسکاٹ لینڈ میں کریش کرگیا۔ تمام سوار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔
آفیشل رپورٹس کے مطابق یہ حادثہ پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے ہوا۔ لیکن ان رپورٹس کی تصدیق کسی بھی ذرائع سے نہیں ہوتی ۔ کچھ رپورٹس کے مطابق روئل ایئر فورس نے چینوک ہیلی کاپٹر کو اپ گریڈ کیا تھا اور کنٹرول سافٹ ویئر اس اپ گریڈیڈ ہیلی کاپٹر کے ساتھ مطابقت کا مظاہرہ نہیں کررہا تھا۔ اس لئے ہیلی کاپٹر کے کریش ہونے کی وجوہ کچھ بھی ہوں، مگر اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ اس کریش میں کنٹرول سافٹ ویئر نے بھی اہم کرداد ادا کیا تھا ۔

Saturday, 1 February 2014

دوست


  • یہ میرے بچپن کی بات ہے‘ ہم لوگ دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ہزاروں سال سے کھیتی باڑی‘ دوستیاں‘ دشمنیاں اور لڑائی جھگڑے ہمارا کام تھا‘ میرے والد اس خاندان کے پہلے فرد تھے جس نے کاروبار شروع کیا‘ یہ مختلف کاروبار کرتے ہوئے آخر میں ’’بیو پار‘‘ میں ٹھہر گئے‘ پنجاب اور سندھ کے دیہاتی علاقوں میں اجناس کی منڈیاں ہیں‘ ان منڈیوں کو بیوپاری کنٹرول کرتے ہیں‘ یہ اجناس کے ریٹس بھی طے کرتے ہیں‘ اجناس کو روک یا کھول کر ان کی قلت اور فراوانی بھی کرتے ہیں اور اگلے سال کون سی جنس کی کیا مارکیٹ ویلیو ہو گی یہ لوگ یہ فیصلے بھی کرتے ہیں‘ میرے والد منڈی کے درمیان میں کام کرتے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے انھیں یہ دکان چھوڑنا پڑ گئی‘ ان کے پاس اب دو آپشن تھے‘ یہ کسی دوسری دکان کا بندوبست کرتے یا پھر یہ کام چھوڑ کر گاؤں واپس چلے جاتے‘ یہ دونوں کام اس وقت مشکل تھے چنانچہ میرے والد نے تیسرا راستہ تلاش کیا.

  • ہمارے شہر میں دو منڈیاں تھیں‘ پرانی منڈی اور نئی منڈی۔ ہمارا گھر ان دونوں منڈیوں کے درمیان تھا‘ ہم ایک ایسے محلے میں رہتے تھے جو دونوں منڈیوں کو آپس میں ملاتا تھا‘ میرے والد نے گھر کی بیٹھک کو دکان بنا لیا‘ یہ اس محلے کی پہلی دکان تھی‘ لوگ مکانوں اور گھروں کے درمیان دکان دیکھ کر حیران ہوتے تھے لیکن میرے والد ڈٹے رہے‘ اس دکان نے آہستہ آہستہ پوری گلی کو مارکیٹ بنا دیا‘ میں پچھلے مہینے دس سال بعد اس گلی میں گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ ہماری پوری گلی مارکیٹ بن چکی تھی‘ اس گلی کو مارکیٹ بنانے کا کارنامہ بہرحال میرے والد ہی نے سرانجام دیا تھا لیکن یہ میرا موضوع نہیں.

  • میرا موضوع اس دکان کا حقہ ہے‘ یہ دکان محض دکان نہیں تھی‘ یہ محلے کی بیٹھک بھی تھی‘ یہ پنچایت بھی تھی اور یہ محلے کا چائے خانہ بھی تھی‘ میرے والد فجر کے وقت دکان کھول دیتے تھے‘ حقہ تازہ کر کے دکان میں رکھ دیا جاتا تھا‘ حقہ پنجاب کا سب سے بڑا سماجی رابطہ ہے‘ آپ اگر حقے کے مالک ہیں‘ آپ اگر دن میں تین بار یہ حقہ تازہ کر سکتے ہیں تو آپ جان لیں‘ آپ کا ڈیرہ آباد رہے گا‘ میرے والد کا حقہ تازہ ہوتا رہتا تھا،‘ غریب اور امیر اس حقے کے لیے سب برابر تھے۔ یہ حقہ بہت بڑی ’’ایکٹویٹی‘‘ تھا‘ میرے والد اس حقے کا بہت خیال رکھتے تھے‘ اس کا پیندا پیتل کا تھا‘ اس پیتل پر چمڑا چڑھا ہوا تھا‘ چمڑے کو ہر دو تین گھنٹے بعد گیلا کر دیا جاتا تھاجو حقے کے پانی کو ٹھنڈا رکھتا تھا‘ حقے کی نلیاں اسپیشل بانس کی بنی ہوئی تھیں‘ اس بانس پر پیتل کے چمک دار چھلے چڑھے ہوئے تھے‘ نلی کے سرے پر تمباکو کی تہہ جم جاتی تھی‘ میرے والد چار پانچ دن بعد باریک چاقو سے یہ تہہ صاف کرتے تھے‘ نلیوں میں لوہے کی تار گھسا کر نلیاں بھی صاف کی جاتی تھیں‘ تمباکو کو مردان سے خصوصی طور پر منگوایا جاتا تھا‘ تمباکو کے اوپر گڑ رکھا جاتا تھا‘ یہ بھی خصوصی ہوتا تھا‘ حقے کی چلم (ہمارے علاقے میں اسے ٹوپی کہا جاتا ہے) گجرات کی خصوصی مٹی سے بنائی جاتی ہے، کیکر کی چھال جلا کر چلم کی آگ بنائی جاتی تھی اور اس آگ کو چلم میں بھرنے کے لیے خصوصی چمٹا ہوتا تھا.

  • ہم نے والد کو ہمیشہ حقے کا خاص خیال رکھتے دیکھا‘ ہمیں بعض اوقات محسوس ہوتا تھا ہمارے والد ہم سے زیادہ حقے سے محبت کرتے ہیں چنانچہ ہم اس حقے سے ’’جیلس‘‘بھی ہو جاتے تھے‘ ہم اس کا انتقام نلی میں الٹی پھونک مار کر لیتے تھے‘ ہماری الٹی پھونک کے نتیجے میں حقے کا پانی چلم میں چڑھ جاتا تھا‘ یہ پانی آگ بجھا دیتا تھا اور یوں حقہ خراب ہو جاتا تھا اور ہمارے والد کو نئے سرے سے حقہ تازہ کرنا پڑ جاتا تھا‘یہ ہماری شرارت سے واقف تھے لیکن انھوں نے اس گستاخی پر ہمیں کبھی نہیں ڈانٹا۔

  • ہماری دکان کی دوسری ’’بڑی اٹریکشن‘‘ ٹیلی فون تھا‘ پورے محلے نے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو ہمارا فون نمبر دے رکھا تھا‘ ہم تمام بھائی اسکول سے واپسی پر ٹیلی فون آپریٹر بن جاتے تھے‘ لوگوں کے فون آتے تھے اور ہمارے والد ہم میں سے کسی نہ کسی کو محلے داروں کا نام بتا کر اس کے گھر کی طرف دوڑا دیتے تھے‘ ہم ان کے دروازے کی کنڈی بجا کر اونچی آواز میں نعرہ لگاتے تھے ’’چاچا جی آپ کا ٹیلی فون آیا ہے‘‘ اور اندر موجود لوگ ’’فون آیا‘ فون آیا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ننگے پاؤں دوڑ پڑتے تھے‘ اس فون اور اس حقے نے محلے میں ایک نئی کلاس کو جنم دے دیا‘ لوگ فون کرنے اور حقہ پینے کے لیے ہماری دکان پر آتے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے‘ یہ ہمارے والد کو اپنے دکھڑے بھی سناتے ‘ ہم ان میں سے چند لوگوں کو روز اپنے والد کے پاس بیٹھا دیکھتے تھے‘ یہ صبح کے وقت آتے تھے اور بعض اوقات شام تک دکان پر بیٹھے رہتے تھے‘ یہ چائے بھی وہیں پیتے تھے اور ہمارے والد کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے‘ یہ ادھار بھی لے جاتے تھے اور ہمارے والد کو کسی نہ کسی کام میں بھی استعمال کر جاتے تھے‘ ہم ان لوگوں کو اپنے والد کا گہرا دوست سمجھتے تھے‘ یہ ہمارے چاچا جی بن چکے تھے‘ ہم ان کا بے حد احترام کرتے تھے.

  • میرے بچپن کی بات ہے‘ ایک بار میرے والد کا گلا خراب ہو گیا‘ گلے کے اندر انفیکشن ہو گیا‘ تمباکو بلکہ ہر قسم کا دھواں اس انفیکشن کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا‘ ڈاکٹروں نے والد کی تمباکو نوشی بند کرا دی‘ میں آپ کو یہاں تمباکو نوشی کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت بھی بتاتا چلوں‘ دنیا میں تمباکو نوشی کی چند غیر مطبوعہ روایات ہیں‘ سگریٹ نوش دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ کسی بھی شخص سے‘ کسی بھی وقت سگریٹ مانگ سکتے ہیں اور دوسرا سگریٹ نوش انکار نہیں کرتا‘ یہ تمباکو نوشی کے دوران عموماً گپیں بھی مارتے ہیں‘ میرے والد ’’چین اسموکر‘‘ ہیں‘ یہ میرے ساتھ ایک بار پیرس گئے‘ جہاز میں تمباکو نوشی کی اجازت نہیں تھی چنانچہ ابا جی نے چھ گھنٹے کی فلائیٹ بڑی مشکل سے گزاری‘ ہم جوں ہی ائیرپورٹ پر اترے‘ اباجی امیگریشن کی ساری قطاریں اور کاؤنٹرز روند کر باہر نکل گئے‘ راستے میں انھیں جو بھی روکتا تھا‘ یہ انگلی سے سگریٹ کا نشان بناتے تھے اورگورا راستے سے ہٹ جاتا تھا‘ میں امیگریشن کے مسئلے حل کر کے باہر نکلا تو میں نے دیکھا‘ میرے والد ایک گورے کے ساتھ کھڑے ہو کر سگریٹ پی رہے ہیں اور اس کے ساتھ گپ بھی لگا رہے ہیں‘ میں اس عجیب و غریب تبادلہ خیال پر حیران رہ گیا‘ گورے کا تعلق آسٹریلیا سے تھا‘ وہ انجینئر تھا اور شارٹ کورس کے لیے پیرس آیا تھا‘ وہ انگریزی بول رہا تھا جب کہ ابا جی ان پڑھ ہیں اور پنجابی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے‘ میں ان کے قریب پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ آسٹریلین انجینئر ابا جی کو انگریزی میں بتا رہا تھا‘ فلائیٹ بہت لمبی تھی‘ میں نے دس گھنٹے سے سگریٹ نہیں پیا‘ یہ سفر میرے لیے بہت مشکل تھا اور ابا جی اسے پنجابی میں بتا رہے تھے‘ میں نے آخری سگریٹ دبئی میں پیا‘ چھ گھنٹے سے سگریٹ کے بغیر ہوں اور یہ سفر میرے لیے بھی بہت مشکل تھا‘ دونوں سگریٹ پھونک رہے تھے‘ دو مختلف زبانوں میں گفتگو کر رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے.

  • مجھے اس وقت معلوم ہوا سگریٹ نوش زبان سے بھی بالا تر ہوتے ہیں ‘یہ مختلف زبانوں‘ علاقوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کا مسئلہ سمجھتے ہیں‘ یہ سگریٹ کی ویلیو سے بھی واقف ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا‘ میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت ہیں‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے ہیں تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے‘ میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی‘ حسن اتفاق سے انھیں دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی‘ ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے.

  • ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘ منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انھیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے‘ میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورتحال ہضم کرنا مشکل تھا‘ میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آ جائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آ جائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اللہ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے‘ یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں.

  • میرے والد نے اس کے بعد شاندار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے‘‘ میرے والد نے فرمایا’’ بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں روؤ گے‘‘۔

Friday, 24 January 2014

ٹوئٹر


 وہ صارفین کے مفت کانٹینٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشتہارات دکھاتا ہے اور سالانہ ایک ارب ڈالر منافع کماتا ہے، اس بار ہم ٹوئٹر کے ذرائع آمدن پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایک تجارتی منصوبے کے طور پر ٹوئٹر کن کن طریقوں اور ذرائع سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔
ٹوئٹر 2006 میں منظرِ عام پر آیا، اگلے چار سالوں تک اس کا زور “مائیکرو بلاگنگ” کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر اپنی شناخت پختہ کرنے اور مختلف پلیٹ فارمز پر ایپلی کیشنز بنانے کے عمل کو آسان بنانے پر رہا جیسے موبائل فونز، اور ویب براؤزرز کے پلگ انز وغیرہ، اس سارے عرصے میں صارفین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئی لہٰذا ویب سائٹ کے آؤٹیج outage کے مسائل سامنے آنے لگے چنانچہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ویب سائٹ کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دی جانے لگی۔
2010 تک جب صحافی جیک ڈورسی (Jack Dorsey)جو کمپنی کے بانیوں میں سے ایک اور چیئرمین تھا، سے سوال کرتے تھے کہ کمپنی منافع کیسے حاصل کرے گی تو اس کے پاس کوئی شافی جواب نہیں ہوتا تھا، کبھی کبھی اس کا جواب یہ ہوتا تھا کہ جیسے آپ یہ پوچھ رہے ہوں کہ گوگل اپنا منافع کیسے حاصل کرے گا، یقینا کوئی دن آئے گا جب یہ منافع حاصل کرے گا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹوئٹر کی انتظامیہ کے پاس اس ضمن میں کوئی واضح پلان نہیں تھا، تاہم جیک ڈورسی نے یہ یقین دلایا تھا کہ ٹوئٹر کبھی اشتہارات نشر نہیں کرے گا یعنی اشتہاری بینر۔
جب ٹوئٹر نے ایک اچھوتے انداز کی مائکرو بلاگنگ کے طور پر جو اس وقت تک رائج نہیں تھی خود کو منوا لیا تو اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ پہلے ہی سال ٹوئٹر میں 5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، پھر 22 ملین ڈالر، اس کے بعد 35 ملین ڈالر جبکہ 2010 میں ٹوئٹر 200 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی مد میں حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور یوں کمپنی کی کْل قیمت 3.7 ارب ڈالر تک جا پہنچی جو شیئر بازار میں اپنے 35 ہزار شیئرز بیچنے کا نتیجہ تھا، 2011 میں کمپنی کی کْل قیمت 7.8 ارب ڈالر تھی، اسی سال سعودی شہزادے الولید بن طلال نے ٹوئٹر میں 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
اگرچہ کمپنی کے پاس ذرائع آمدن کے حوالے سے کوئی واضح پلان نہیں تھا تاہم ابتدائی آمدن اسے 2009 میں حاصل ہوئی جب اس نے گوگل اور مائکروسافٹ کو اپنے تلاش کے نتائج فراہم کرنے کے معاہدے کیے اور یوں گوگل سے 15 ملین ڈالر جبکہ مائکروسافٹ سے 10 ملین ڈالر وصول کیے، اس سال کے آخر میں ٹوئٹر نے 4 ملین ڈالر منافع کمایا جبکہ صارفین کی تعداد 25 ملین تک جا پہنچی تھی۔
2011 میں ٹوئٹر نے 139.5 ملین ڈالر اشتہارات کی مد میں حاصل کیے اور توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک 260 ملین ڈالر تک چا پہنچے گا، توقع ہے کہ اگلے سال اشتہارات کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم 1.45 ارب ڈالر تک جا پہنچیں گی جن میں 111 ملین ڈالر منافع ہوگا جبکہ صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔
اشتہارات کی پہلی قسم جن سے ٹوئٹر آمدنی جنریٹ کرتا ہے، مثال کے طور پر جب آپ لفظ پیانو piano تلاش کرتے ہیں یا آئی فون کے ہیش ٹیگ #iphone کو تلاش کرتے ہیں تو نتائج میں اشتہاری ٹویٹ سب سے اوپر ہوتی ہے جسے اورنج رنگ کے تیر سے الگ کیا گیا ہوتا ہے، یہ ٹویٹس صارف کی ٹائم لائن کے اوپر یا تھوڑا سا نیچے بھی نظر آسکتی ہیں جب صارف لاگ ان یا اپنی ٹائم لائن کو اپڈیٹ کرتا ہے۔ کسی صارف کی ٹائم لائن پر ایسی اشتہاری ٹویٹس کے ظاہر ہونے کے لیے لازم ہے کہ ……..
جب کوئی بین الاقوامی کمپنی کسی اہم اور عالمی چیز کی تشہیر کرنا چاہے تو اسے ہر صارف کی پروفائل میں صرف پرموٹڈ ٹویٹس ہی کافی نہیں ہوتیں لہذا وہ پورا ایک پرموٹڈ ٹرینڈ یعنی رجحان خرید لیتی ہے تاکہ ویب سائٹ کے تمام صارفین کی توجہ کسی نئے عالمی واقعے پر کرائی جاسکے اور اس کے بارے میں ٹویٹس کی جاسکیں، رجحانات کو کسی مخصوص برانڈ کی تشہیر یا کسی عالمی پیمانے کی تقریب جیسے کسی نئی پراڈکٹ کا اجرائ￿ یا مخصوص کانفرنس کی طرف توجہ دلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
رجحانات کی فہرست ویب سائٹ کی دائیں طرف کی فہرست میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے اور اس میں صارفین کی حالیہ گفتگو کے نمایاں ہیش ٹیگ شامل ہوتے ہیں جن پر کلک کرنے سے……..
تمام صارفین کو ایک فہرست دکھائی جاتی ہے جس میں کچھ دیگر صارفین کو فالو کرنے کی تجویز دی جاتی ہے، اس فہرست کا انحصار آپ کی دلچسپیوں، دوست یعنی فالوورز، کی ورڈز وغیرہ پر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی کمپنی اپنے نئے اکاؤنٹ کی تشہیر کچھ مخصوص دلچسپیوں کی بنیاد پر کرنا چاہے تو؟ ایسا ہوتا ہے، اور ایسی کمپنی کا اکاؤنٹ who to follow کی فہرست میں اورنج رنگ کی علامت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ صارفین کا ایک گروہ جن میں آپ بھی شامل ہیں تعلیم سے متعلقہ اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں جیسے یونیورسٹیاں، اساتذہ، اشاعتی وتحقیقی ادارے اور دیگر تعلیمی ویب سائٹس، اگر آپ اس ذمرے کے کچھ اکاؤنٹس کو فالو کر رہے ہیں مگر……..
اوپر کے تین چینل ٹوئٹر کی آمدنی کے بنیادی اوزار ہیں جن سے ٹوئٹر اپنی آمدنی حاصل کرتا ہے، تاہم دو ایسے ذرائع اور بھی ہیں جنہیں کمالیات میں شمار کیا جاسکتا ہے جو بڑے بڑے برانڈز کے لیے مخصوص ہیں، مثال کے طور پر کوئی کمپنی اپنے اکاؤنٹ کی پروفائل میں بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جس کی عام صارفین کو اجازت نہیں، اس صورت میں ٹوئٹر کمپنی کو ہیڈر میں کمپنی کا لوگو 835×90 پکسل کے سائز میں لگانے کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ کسی ٹویٹ کو ٹائم لائن میں ہمیشہ سب سے اوپر ظاہر کرنے کی خوبی بھی فراہم کی جاسکتی ہے اب چاہے ٹویٹ کتنی بھی پرانی کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ ٹائم لائن میں سب سے اوپر چسپاں رہے گی، اس اضافی خوبی کے بڑے فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر……..
ٹوئٹر پر عام طور سے اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگ کسی مخصوص موضوع پر کیا گفت وشنید کر رہے ہیں تو آپ اس موضوع سے متعلق کسی ہیش ٹیگ کا مشاہدہ کرتے ہیں، آپ اس ہیش ٹیگ کو تلاش کرتے ہیں اور اس موضوع پر گفتگو کرنے والے تمام دیگر صارفین کی گفتگو اسی ایک صفحہ پر حاصل کرلیتے ہیں۔
لیکن اگر کوئی خود کو دوسروں سے ممتاز کرنا چاہے تو؟ بات کرتے ہیں مشہور……..
اپنی اشتہاری مہم لانچ کرنے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اس کی شماریات پر بھی نظر رکھیں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کیا آپ نے اس سے اپنے مقاصد حاصل بھی کیے ہیں یا نہیں؟ یہاں شماریات کا تعلق صرف ٹوئٹر سے ہے نا کہ آپ کی ویب سائٹ سے، اشتہاری مہمیں شروع کرنے والوں کے لیے ٹوئٹر شماریات کی سہولت فراہم کرتا ہے چاہے وہ ٹویٹس ہوں، ٹرینڈ ہوں یا کھاتے۔
شماریات آپ کو تمام سرگرمیوں کی رپورٹ دیتے ہیں کہ آپ کی ٹویٹ کتنی دفعہ ظاہر ہوئی اور اس کے نتیجے میں کتنے لوگوں نے آپ کو فالو کیا، ٹویٹ کتنی دفعہ ری ٹویٹ ہوئی، اس میں موجود ربط پر کتنی دفعہ کلک کیا گیا، آپ کے اکانٹ کا کتنی دفعہ مشاہدہ کیا گیا اور کتنے لوگوں نے آپ کو اَن فالو کیا وغیرہ، اس میں ٹائم لائن کی سرگرمیاں بھی شامل ہوتی ہیں

کمپیوٹر


مائیکروسافٹ ونڈوز میں بہت سی فائلیں اور حصے ایسے ہیں جن کے بارے میں مائیکروسافٹ نے معلومات عام عوام کو نہیں بتا رکھیں۔ بیشتر لوگ ان خفیہ فائلوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں کہ یہ موجود کہاں ہوتی ہیں اور کیوں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ جو ان فائلوں کو ڈھونڈ بھی لیتے ہیں تو یہ نہیں جان پاتے کہ ان میں لکھے ڈیٹا کا مطلب کیا ہے۔
یہ فائلیں فورنزک جانچ کے لئے بے حد اہم ہوتی ہیں۔ کسی واقعے یا جرم جس کا تعلق کمپیوٹر سے ہوں، ان فائلوں کی جانچ پڑتال بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ یہ کئی رازوں سے پردہ اٹھا سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے ٹولز بہت ہی کم تعداد میں ہیں جو ان مخصوص فائلوں کی پڑتال کرکے ہمیں خفیہ معلومات فراہم کرسکیں اور جو ٹولز موجود ہیں، وہ مفت نہیں ہیں۔ اسی لئے ریسرچرز نے کڑی محنت کے بعد ’’پاسکو (Pasco)‘‘ نامی ٹول تیار کیا ہے جو بالکل مفت ہے۔
لفظ پاسکو لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’Browse‘‘ ۔ اسے تیار کرنے کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ ایکسپلورر جو دنیا کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ویب برائوزرز میں دوسرے نمبر پر ہے، کی activityفائلز کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔ پاسکو index.dat نامی فائل جس میں انٹرنیٹ ایکسپلورر اہم اعمال محفوظ کرلیتا ہے، کا تجزیہ کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتاہے۔
فورینسک جانچ کی غرض سے سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ index.dat فائلیں کیا ہیں اور انہیں کیوں ایک اہم فورینسک ثبوت سمجھا جاتا ہے اور یہ کہاں مل سکتی ہیں، اس کے بعد ہم پاسکو پر مختصراً نظر ڈالیں گے اور اس کے مثبت اور منفی پہلووں کا جائزہ لیں گے اور تحقیق کار کے کمپیوٹر پر اسے نصب کرنا سیکھیں گے، پاسکو کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ہم آخر میں اسی طرح کے دیگر پروگراموں کا مختصر تعارف بھی پیش کریں گے۔
انٹرنیٹ ایکسپلورر ان فائلوں کا استعمال ورژن 4 سے کر رہا ہے۔ اس فائل میں صارف کی طرف سے دیکھی گئی تمام ویب سائٹس، کوکیز، تلاش اور بعض اوقات کچھ فائلوں اور فولڈروں کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ ایکسپلورر کو اس فائل کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟
جب بھی کوئی صارف کسی ویب سائٹ کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس ویب سائٹ کا بیشتر مواد ہارڈ ڈسک پر محفوظ کر لیا جاتا ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر صارف اسی ویب سائٹ کو دوبارہ کسی وقت طلب کرے تو ویب سائٹ کو دوبارہ لوڈ کرنے کی بجائے ہارڈ ڈسک پر محفوظ مواد کو ہی دوبارہ سے پیش کردیا جائے جس سے نہ صرف بینڈوڈتھ کی بچت ہوتی ہے بلکہ رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ ایکسپلورر میں تمام عارضی فائلوں کی تفصیلات index.dat نامی پوشیدہ فائل میں محفوظ کی جاتی ہے۔
اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اس میں ملزم کی ان تمام کاروائیوں کا ریکارڈ ہوتا ہے جو اس نے انٹرنیٹ ایکسپلورر کو استعمال کرتے ہوئے انجام دی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ فائل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ملزم نے کس ویب سائٹ کو آخری دفعہ کب دیکھا جس کی وجہ سے کسی طرح کے کیس کی تحقیق کے سلسلے میں یہ معلومات کافی مفید اور اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔ خاص طور سے جبکہ یہ فائل پوشیدہ ہوتی ہے اور عام صارف آسانی سے اس میں کسی طرح کی تبدیلی کرنے یا حذف کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس فائل میں موجود ڈیٹا اسے کسی بھی کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں ایک اہم ثبوت فراہم کرتا ہے جو ملزم نے انٹرنیٹ ایکسپلورر کو استعمال کرتے ہوئے انجام دی ہوتی ہیں۔
یہاں یہ بات نوٹ فرمائیں کہ اس فائل کو صرف انٹرنیٹ ایکسپلورر ہی استعمال کرتا ہے۔ دیگر ویب برائوزر اس فائل پر نہ تو انحصا رکرتے ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں۔ اس کے بجائے ان کے اپنے نظام ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر موزیلا فائر فاکس ایک سے زائد فائلوںمیں صارف کی دیکھی ہوئی ویب سائٹس اور اس سے متعلق دیگر ڈیٹا محفوظ کرتا ہے۔ یہ فائلیں فائر فاکس کے ڈیٹا فولڈر میں موجود ہوتی ہیں۔

 index.dat ؟

عام طور پر یہ سسٹم کے اس فولڈر میں ہوتا ہے جہاں صارف کے انسٹال کئے ہوئے تمام پروگرام اپنا ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں جیسے Application Dataکا فولڈر۔ ذیل میں ونڈوز کے مختلف نسخوں میں فورینسک تحقیق کاروں کی طرف سے استعمال کی جانے والی زیادہ تر فائلوں کا پاتھ درج ہے:
٭…ونڈوز 7 اور ونڈوز وستا:
aC:\Users\Roaming\Microsoft\
Windows\Cookies\index.dat
aC:\Users\Roaming\Microsoft\
Windows\Cookies\Low\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\
Windows\History\History.IE5\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\
Windows\History\History.IE5\Low\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\
Windows\History\History.IE5\index.dat\
MSHistXXXXXXX\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\Windows\
History\History.IE5\Low\index.dat\
MSHistXXXXX\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\Windows\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\Windows\Temporary Internet Files\Low\Content.IE5index.dat
aC:\Users\Roaming\Microsoft\Internet Explorer\UserData\index.dat
aC:\Users\Roaming\Microsoft\Internet Explorer\UserData\Low\index.dat
٭…ونڈوز ایکس پی اور ونڈوز 2000:
aC:\Documents and Settings\Cookies\index.dat
aC:\Documents and Settings\Local Settings\History\History.IE5\index.dat
aC:\Documents and Settings\LocalSettings\
History\History.IE5\MSHistXXXXXXXXXXX\index.dat
aC:\Documents and Settings\Local Settings\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Documents and Settings\UserData\index.dat
٭…ونڈوز ایم ای،98،95 اور ونڈوز این ٹی:
aC:\Windows\Cookies\index.dat
aC:\Windows\History\index.dat
aC:\Windows\History\MSHisXXX\index.dat
aC:\Windows\History\History.IE5\index.dat
aC:\Windows\History\History.IE5\XXX\index.dat
aC:\Windows\Temporary Internet Files\index.dat
aC:\Windows\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Windows\UserData\index.dat
aC:\Windows\Profiles\Cookies\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\MSHisXX\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\History.IE5\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\History.IE5\
MSHistXXXXXXX\index.dat
aC:\Windows\Profiles\Temporary Internet Files\index.dat
aC:\Windows\Profiles\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Windows\Profiles\UserData\index.dat
یہ جاننے کے بعد کہ index.dat فائلیں کیا ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے ہم اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں اور ان فائلوں کو اینالائز کرنے والے ٹول پاسکو پر نظر ڈالتے ہیں۔
پاسکو ایک سی ایل آئی پروگرام ہے، ہم جس ورژن پر بات کریں گے وہ پاسکو کا پہلا اور آخری ورژن ہے جسے 2003 ء میں جاری کیا گیا تھا۔ اس ٹول کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ ایک آزاد مصدر یعنی اوپن سورس سافٹ ویئر ہے چنانچہ یہ نہ صرف مفت ہے بلکہ کوئی بھی اس میں اپنی مرضی کی تبدیلی کرنے اور اسے مزید بہتر کر کے ترقی دینے میں آزاد ہے۔ یہ درحقیقت ایک ریسرچ پراجیکٹ تھا۔ اسے ڈائون لوڈ کرنے کے لئے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:
http://www.mcafee.com/us/downloads/free-tools/pasco.aspx
پاسکو کو تمام بنیادی آپریٹنگ سسٹمز پر چلایا جاسکتا ہے جیسے ونڈوز (بذریعہ cygwin)، میک، لینکس اور فری بی ایس ڈی۔ یقیناً پاسکو کو کام کرنے کے لیے index.dat فائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی یہ خود فائل کو تلاش نہیں کرے گا بلکہ آپ کو اسے فائل فراہم کرنی ہوگی تاکہ وہ اس کا تجزیہ کرسکے۔
1- مفت اور آزاد مصدر
2- ٹرمنل کے ذریعے آسان استعمال
3- ہر آپریٹنگ سسٹم پر کام کرنے کی صلاحیت
منفی پہلو:
1- ٹول کسی حد تک پرانا ہے
2- پہلی ریلیز کے بعد سے اسے بہتر کرنے کے لیے کبھی کام نہیں کیا گیا
3- دیگر کئی خوبیوں کی کمی جنہیں آسانی سے شامل کیا جاسکتا تھا
4- index.dat فائلوں کو تلاش نہیں کر سکتا
5- صرف انٹرنیٹ ایکسپلورر کے لیے!
پاسکو ایک زپ فائل کی شکل میں ڈائون لوڈ ہوتا ہے۔ اسے ان زپ کرنے پر  ذیل کے فولڈر نمودار ہوں گے:
bin : ونڈوز کے صارفین کو اس ڈائریکٹری میں ونڈوز کے لیے پہلے سے کمپائل اور cygwin1.dll فائل کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار نسخہ مل جائے گا۔
src :اس ڈائریکٹری میں پروگرامر حضرات کے لیے اس کا سورس کوڈ موجود ہے جو سی لینگویج میں لکھا گیا ہے۔
Readme.txt: تنصیب وغیرہ کے لیے پروگرامر کی طرف سے کچھ ہدایات۔اسے پڑھنا کافی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
لینکس میں تنصیب (انسٹالیشن) کے لیے پاسکو کے فولڈر میں رہتے ہوئے یہ کمانڈز بالترتیب چلائیں:
$ cd  src
$ make
اگرچہ ونڈوز کے لیے ایک کمپائل شدہ تیار نسخہ موجود ہے تاہم اگر آپ سورس کوڈ سے کمپائل کرنا چاہیںسورس فائل(جسے Cلینگویج میں لکھا گیا ہے)srcکے فولڈر میں موجود ہے۔
استعمال کا طریقہ:
پاسکو کو ٹرمنل سے چلانے پر یہ آؤٹ پٹ حاصل ہوتی ہے:
Usage: pasco [options] <filename>
-d Undelete Activity Records
-t Field Delimiter (TAB by default)
پاسکو استعمال میں از حد آسان ہے۔ اس کے لیے کسی سابقہ تجربے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس میں صرف دو ہی سوئچ ہیں ۔ یعنی -d اور -t
index.dat فائل کو پڑھنے کے لیے یہ کمانڈ چلائیں:
pasco path-to-index.dat
یہ کمانڈ index.dat سے معلومات کشید کرنے کے لیے کافی ہے تاہم ہم آپ کو اس فائل کو پڑھنے کے لیے اس سے بہتر طریقہ بتائیں گے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ پاسکو کے کام کرنے لیے index.dat فائل کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا تحقیق کار کو چاہیے کہ وہ ملزم کے کمپیوٹر سے اس فائل کو حاصل کرے، ہم اپنے پاس دستیاب ایک index.dat کو استعمال کریں گے۔
سابقہ کمانڈ سے index.dat کو پڑھنا کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ہے کیونکہ فائل میں کئی ریکارڈ ہوں گے جس کی وجہ سے آؤٹ پٹ کچھ اتنی اچھی نہیں ملے گی، پائپ pipes کی کمانڈ حاصل کردہ ڈیٹا کو بہتر طور پر پڑھنے میں مدد دے سکتی ہے مگر یہ کافی نہیں، بہتر یہی ہے کہ ڈیٹا کو index.xls یعنی ایکسل کی سپریڈ شیٹ میں بدل دیا جائے تاکہ ڈیٹا کو بہتر طور پر پڑھنے میں آسانی ہو۔
pasco index.dat > index.xls
مندرجہ بالا کمانڈ آؤٹ پٹ چھپا دے گی مگر فکر نہ کریں، کیونکہ آؤٹ پٹ ڈیٹا اب ایک ایکسل کی سپریڈ شیٹ میں جس کا نام index.xls ہے بڑے منظم انداز میں پڑھنے کے لیے دستیاب ہے۔ طے شدہ طور پر پاسکو خانوں کے انتخاب کے لیے ٹیب TAB کا استعمال کرتا ہے لہٰذا ہماری تجویز بھی یہی ہے کہ اسے ایسے ہی رہنے دیا جائے اور کسی صورت میں -tکا سوئچ استعمال نہ کیا جائے۔
حاصل کردہ ایکسل کی سپریڈ شیٹ کھولیں تو ہمیں اس میں سارا ڈیٹا بڑے منظم انداز میں ملے گا۔ TYPE کا کالم اس سرگرمی کی نشاندہی کرتا ہے جو ملزم نے انجام دی ہے۔ اس کے ذیل میں ظاہر ہونے والی قسمیں بالترتیب URL, REDR اور LEAK ہیں۔
URL: کا مطلب یہ ہے کہ ملزم نے یہ ریکارڈ براؤزنگ کے دوران حاصل کیا.
REDR: کا مطلب ہے کہ ملزم اس ریکارڈ تک کسی دوسرے پتے سے آیا ہے یعنی براؤزر سے ری ڈائریکٹ ہوکے۔
LEAK: یہ عموماً -dکا آپشن استعمال کرنے کی صورت میں نظر آتا ہے اب چونکہ انٹرنیٹ ایکسپلورر آزاد مصدر براؤزر نہیں ہے چنانچہ ماہرین اس سرگرمی پر کوئی حتمی فیصلہ دینے سے قاصر ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس میں اور URL میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں سرگرمیوں کی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔
یو آر ایل URL کا کالم ان روابط پر مشتمل ہوتا ہے جن کا ملزم نے مشاہدہ کیا ہوتا ہے۔
موڈیفائیڈ ٹائم Time Modified کا کالم ملزم کی طرف سے دیکھے گئے کسی صفحے کی آخری تبدیلی دکھاتا ہے، براؤزر یہ قدر صفحے کی معلومات سے حاصل کرتا ہے اور ملزم کا اس میں کوئی اختیار یا اثر نہیں ہے۔
ایکسس ٹائمAccess Time کا کالم اہم ہے کیونکہ یہ بتاتا ہے کہ ملزم نے کسی ریکارڈ/ربط کا کب مشاہدہ کیا تھا، اس میں دن تاریخ اور وقت بڑی صراحت سے موجود ہوتا ہے۔
ڈائریکٹری DIRECTORY کا کالم ایک اتفاقی/رینڈم پاتھ دکھاتا ہے جو براؤزر عارضی فائلوں کو محفوظ کرنے کے لیے بناتا ہے تاکہ جب صارف دوبارہ وہ ربط طلب کرے تو وہ اسے اس ڈائریکٹری سے اٹھا کر پیش کردے۔
HTTP HEADER یہ ہیڈر سے متعلق معلومات دکھاتا ہے۔
HTTP/1.1 200 OK Content-Type: image/jpeg Keep-Alive: timeout=20, max=541 ETag: “6144-f36ea300″ Content-Length: 24900 ~U:ifun
شروع کا حصہ HTTP/1.1 200 OK ایچ ٹی ٹی پی سرور کا ورژن ہے جبکہ 200 کا مطلب ہے کہ عمل کامیابی سے انجام پایا۔
کانٹینٹ ٹائپ Content-Typeکا مطلب اس مواد کی نوعیت ہے۔جس کا مشاہدہ کیا گیا اور اس کے آگے image/jpeg کا ہونا بتاتا ہے کہ یہ ایک تصویر تھی۔
Keep-Alive timout=20 سیکنڈوں میں براؤزر کی ہر درخواست کی نشست کی مہلت ہے، Max=541 ان درخواستوں کی تعداد ہے جو ایچ ٹی ٹی پی سرور سے طلب کی جاسکتی ہیں۔
ETag ایک خاص علامت جو مصدر کی حالت کو بیان کرتی ہے اور ضرورت پر بنائی جاتی ہے۔
Content-Length مواد کا ممکنہ حجم ہے۔
~U اس کمپیوٹر کا نام جس نے ایڈریس طلب کیا۔
Undelete activity records
پاسکو کو اس آپشن سے چلانے پر وہ کوشش کرے گا کہ حذف شدہ ریکارڈ بحال کیے جاسکیں اور ممکنہ حذف شدہ انٹریز بھی رپورٹ میں شامل ہوں۔ ہمارے تجربے کے مطابق اس آپشن سے بھی اس نے اتنی ہی انٹریز دکھائیں جو عام کمانڈ سے دکھائی تھیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ اس کمانڈ سے حاصل کردہ فائل سادہ کمانڈ سے حاصل کردہ فائل سے مختلف ہے ہم نے ان دونوں فائلوں کا md5sum حاصل کیا اور حاصل ایک ہی رہا تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوگا۔ لہٰذا تجویز دی جاتی ہے کہ ہمیشہ دونوں طریقے استعمال کر کے رپورٹ حاصل کی جائے۔
اگرچہ پاسکو ایک چھوٹا سا مگر فعال ٹول ہے تاہم پرانا ہے، پروگرامر نے 2003 میں اسے جاری کرنے کے بعد اس پر توجہ نہیں دی، اگر کوئی پاسکو کو مزید بہتر کرنا چاہے تو ہمارے خیال سے مندرجہ ذیل تجاویز اہم ہیں:
1- پاسکو کو دیگر براؤزروں کی .dat فائلیں پڑھنے کے قابل ہونا چاہیے کیونکہ اب صرف ایکسپلورر کا راج نہیں اور صارفین دیگر براؤزر بھی استعمال کرتے ہیں!
2- پاسکو میں index.dat فائلیں تلاش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
3- اگر index.dat فائل کے حاصل کردہ نتائج کو ایکسل کی بجائے یا اس کے ساتھ ساتھ ایچ ٹی ایم ایل HTML میں بھی حاصل کرنے کی صلاحیت ہو تو یہ ہمارے خیال سے بہتر ہوگا۔
اگرچہ پاسکو ضرورت پوری کرتا ہے اور index.dat فائلوں سے تمام ڈیٹا حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے تاہم کچھ دیگر پروگرام بھی ہیں جو پاسکو سے کہیں بہتر ہیں۔
یہ ایک جی یو آئی پروگرام ہے اور اس ضمن میں اس کا شمار بہترین پروگراموں میں ہوتا ہے۔ تاہم اس کی ایک خامی یہ ہے کہ یہ صرف ونڈوز پر کام کرتا ہے۔ اگرچہ یہ تمام ویب براؤزرز کو سپورٹ کرتا ہے جو خوبی پاسکو میں نہیں۔ یہ پروگرام پورے آپریٹنگ سسٹم میں براؤزنگ کے ریکارڈ تلاش کر کے خودکار طور پر ایک رپورٹ بھی تیار کردیتا ہے جس میں صارف کی تمام تر سرگرمیاں موجود ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات کروم براؤزر کے ویب سائٹوں کے سکرین شاٹ بھی نکال لیتا ہے جن کا صارف نے مشاہدہ کیا ہوتا ہے۔
1- ڈیٹا کو فلٹر کرنے کی صلاحیت جس سے مثبت طور پر کسی کیس کو حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور ڈیٹا کے انبار میں تلاش پر وقت ضائع نہیں ہوتا۔
2- صارف کے تمام ریکارڈ منظم اور آسان انداز میں پیش کرتا ہے۔
3- پروگرام ہر ویب سائٹ کا ایک تعارفی کارڈ بناتا ہے جس سے برملا طور پر یہ جاننے میں آسانی ہوتی ہے کہ ملزم نے جس سائٹ کا مشاہدہ کیا ہے اس کی سرگرمیاں کیا ہیں۔
4- مشہور ویب براؤزرز کو سپورٹ کرتا ہے جیسے فائر فاکس، گوگل کروم، انٹرنیٹ ایکسپلورر وغیرہ۔
ڈائون لوڈ کرنے کے لئے یہ لنک ملاحظہ کیجئے:

تجارتی طور پر دستیاب ایک بہترین پروگرام جس کا مواجہ دیگر کسی بھی پروگرام سے مختلف ہے، آپ اس سے آسانی سے تمام ریکاڈ نہ صرف حاصل کر سکتے ہیں بلکہ پروگرام کے اندر موجود ایگ چھوٹی سی ونڈو میں ان کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ یہ کسی بھی ہارڈ ڈسک کی اینالائزنگ بھی کر سکتا ہے، مزید برآں یہ ریم میں موجود ڈیٹا بھی اینالائز کر سکتا ہے اور اس میں فحش تصاویر کو دریافت کرنے کا ایک نظام بھی موجود ہے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ پاسکو ایک چھوٹا مگر فعال ٹول ہے جو اپنا کام بہترین انداز میں انجام دیتا ہے، یہ اوزار تحقیق کار کو index.dat فائلوں سے برقی ثبوت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے اور ڈیٹا کو کامیابی سے اینالائز کرتا ہے، کسی بھی تحقیق میں ہم اس پروگرام کے استعمال کی بڑی شدت سے تجویز دیتے ہیں اگرچہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاسکو میں فائلوں کو تلاش کرنے اور دیگر براؤزرز کی فائلوں کو اینالائز کرنے کا عنصر مفقود ہے تاہم اگر اسے یہ خوبیاں حاصل ہوجائیں تو یہ اپنی آسانی، سادگی اور برق رفتاری کی وجہ سے اپنے شعبے کا ایک بہترین پروگرام ثابت ہوگا۔    ٭٭

انٹرنیٹ کنکٹویٹی



حال ہی میں ایک ریسرچ گروپ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ نے کمپیوٹرز بنانے والے اداروں کی ہوش اُڑا دیئے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پرسنل کمپیوٹر خریدنے والے صارفین کی تعداد بہت تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ انٹل جیسی بڑی کمپنی بھی اس رپورٹ کے نتیجے میں ہل کر رہ گئی اور اے یم ڈی جو پہلی ہی موت و زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے، کہ لئے یہ زہر قاتل ثابت ہورہی ہے۔لیکن  آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟
ریسرچرز کے مطابق اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز نے صارفین کی ترجیحات بدل دی ہیں۔ پرسنل کمپیوٹر رکھنے والے بیشتر صارفین اسے صرف ای میلز چیک کرنے یا انٹرنیٹ برائوزنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اب جبکہ یہ سہولت اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس میں بہت خوب موجود ہے، اس لئے پرسنل کمپیوٹرز کی طلب میں کمی واقع ہورہی ہے۔ انٹل کو اس میدا ن میں ARM کی شکل میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ انٹل نے بھی اس میدان میں بھی اترنے میں دیر کردی لیکن وہ پھر بھی فٹا فٹ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کے لئے پروسیسرز متعارف کروانے میں کامیاب ہوگیا جبکہ اے ایم ڈی تو سُتا ہی رے گیا!
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ایک اور رپورٹ کے مطابق مائیکر وسافٹ کا کمپیوٹرز کی دنیا میں حصہ جو پہلے 80فی صد کے لگ بھگ تھا، پچھلے سات سالوں میں کم ہوکر صرف 20%فی صد رہ گیا ہے۔ جبکہ اسی عرصے میں گوگل اور ایپل کے حصے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ وجہ؟ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس! گوگل نے مارکیٹ کے بہائو کو بھانپتے ہوئے اپنے توجہ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی طرف مرکوز کرلی لیکن مائیکروسافٹ مارکیٹ کی اس تبدیلی کو پہچانے میں ناکام رہا اور اپنے سرفس ٹیبلٹ اور ونڈوز فون آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ بہت دیر سے مارکیٹ میں داخل ہوا جہاں پہلے ہی اس کے حریف و حلیف پنجے گاڑے بیٹھے ہیں۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں ٹیبلٹس اور اسمارٹ فونز جو پہلے ہی عام ہیں، اتنے زیادہ عام ہوجائیں گے کہ پرسنل کمپیوٹرز کو صرف مخصوص کاموں کیلئے استعمال کیا جانے لگے گا۔ ماہرین کے مطابق ٹیبلٹس کمپیوٹر 2016ء تک لیپ ٹاپس کو بالکل پیچھے چھوڑ چکے ہونگے۔
اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی مانگ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ایپل اپنے آئی فون اور آئی پیڈ کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ توشیبا، ایمازون، لنیوو، آسُس، ہٹاچی، سام سنگ، ایسر، گوگل سمیت درجنوںکمپنیاں ٹیبلٹس بنا رہی ہیں جن کی قیمت چند ہزار روپوں سے لاکھوں روپوں تک ہے۔ اگر صرف ایپل آئی پیڈ کی ہی بات کی جائے تو اس کی کم از کم قیمت 500ڈالر یعنی کم و بیش اڑتالیس ہزار پاکستانی روپے ہے۔ دیگر کمپنیوں کے بنائے ہوئے ٹیبلٹس کی قیمت اگرچہ اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن پاکستانی مارکیٹ کے حساب سے پھر بھی بہت زیادہ ہے۔
جس طرح پاکستانی مارکیٹ میں چائنا کے موبائل فونز نے موبائل فونز بنانے والی کمپنیوں کی ناک میں دم کررکھا ہے، اسی طرح چائنا کی ٹیبلٹس بھی ہمارے یہاں اب عام دستیاب ہیں جن کی قیمت چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتی!
ہمارے مشاہدے میں چائنا کے ایسے ٹیبلٹس بھی آئے ہیں جن کی قیمت صرف چھ ہزار روپے تھی!
چائنا کے موبائل فون ہمارے یہاں ویسے بھی بدنام ہے۔ ان کی کارکردگی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن چونکہ یہ انتہائی سستے ہوتے ہیں ، اس لئے یہ عام بھی ہیں۔ ان کے بارے میں اکثر لوگ کہتے سنے گئے ہیں کہ ’’چائنا کا موبائل، چلے تو چاند تک، ورنہ شام تک‘‘۔ یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔ چونکہ ان موبائل فونز کو بنانے میں معیار کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا، اس لئے ان کی کارکردگی بھی واجبی سی ہی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موبائل فونز کی طرح چائنا کے ٹیبلٹس بھی اتنے ہی بیکار ہوتے ہیں؟ ہم اسی سوال کا جواب اس مضمون میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
کسی بھی ٹیبلٹ کی کارکردگی کا دارومدار چند اہم چیزوں جیسے پروسیسر، ٹچ اسکرین، بیٹری ، آپریٹنگ سسٹم وغیرہ پر ہوتا ہے۔ ہم ان سب کا جائزہ یکے بعد دیگرے لیتے ہیں۔
ایپل ، سام سنگ وغیرہ اپنے ٹیبلٹس میں ARM پروسیسرز ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ پروسیسر ARM کمپنی صرف ’’ڈیزائن‘‘ کرتی ہے اور دیگر کمپنیاں اس ڈیزائن کو لائسنس پر لے کر پروسیسر تیار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ARMپروسیسر بنانے والی کوئی ایک کمپنی نہیں، بلکہ درجنوں یا شاید سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ARM پروسیسرز کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مائیکروسافٹ نے ونڈوز 8 کے لئے خاص طور پر اس کی سپورٹ شامل کی ہے۔ ایپل کے بارے میں بھی افواہ گرم ہے کہ وہ میک کمپیوٹرز کو انٹل کے پروسیسرز سے شاید ARM پروسیسرز کی جانب لے جائے۔
ٹیبلٹس میں Cortex-A سیریز کے پروسیسرز استعمال ہوتے ہیں۔ Cortex-A5 پروسیسرز بہت عام ہیں اور پرانے بھی۔ ان کی رفتار 300تا 800میگا ہرٹز تک ہوتی ہے۔ A8پروسیسرز سنگل کوراور dualکور ہوتے ہیں ۔ ان کی ملٹی میڈیا کارکردگی بھی بہت خوب ہوتی ہے۔ ان کی رفتار 600میگا ہرٹز تا 1.5گیگا ہرٹز تک ہوتی ہے۔ Cortex-A9 پروسیسرز نئے اور جدید ٹیبلٹس میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ڈوئل کور ہوتے ہیں اور ان کی رفتار کی حد 600 میگا ہرٹز تا 1.2گیگا ہرٹز ہوتی ہے۔ ہر پروسیسر بنانے والی کمپنی ان پروسیسرز میں کسی حد تک تبدیلی بھی کرلیتی ہے لیکن ان کا بنیادی ڈیزائن وہی ہوتاہے۔ اس لئے آئی فون میں نصب A5 چپ جو Cortex-A9 پر مبنی ہے اور کسی دوسری کمپنی کے بنائے ہوئے Cortex-A9 چپ میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہوتا اور ان کی رفتار بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ چینی ٹیبلٹس میں بھی یہی پروسیسرز استعمال ہوتے ہیں۔ آپ کو دیکھنا یہ ہوگا کہ جو ٹیبلٹ آپ خرید رہے ہیں اس میں Cortex-A سیریز کا کون سا پروسیسر نصب کیا گیا ہے اور وہ کتنی coresکا حامل ہے۔ بیشتر چینی ٹیبلٹس میں آپ کو AllWinner کمپنی کے بنائے ہوئے ARMپروسیسرز ملیں گے۔ اگر ٹیبلٹ میںCortext-A9یا جدید ترین Cortext-A15 نصب ہے تو ٹیبلٹ کی رفتار سے آپ مطمئن ہوسکتے ہیں۔
چینی ٹیبلٹس کے سستے ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں گوگل اینڈروئیڈ انسٹال ہوتا ہے جو کہ مفت ہے۔ ایپل آئی پیڈ میں iOS انسٹال ہوتا ہے جو کہ ایپل کی اپنی جاگیر ہے۔ لہٰذا اس کی ڈیویلپمنٹ پر اٹھنے والے اخراجات بھی ایپل اپنے صارفین سے وصول کرتا ہے۔ اینڈروئیڈ کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔ گوگل نے اس آپریٹنگ سسٹم کو اوپن سورس رکھا ہے یعنی اس کا تمام سورس کوڈ ڈائون لوڈنگ کے لئے دستیاب ہے۔ جس کی وجہ سے چینی ’’ماہرین‘‘ بڑی ہی مہارت سے اینڈروئیڈ میں اپنے ٹیبلٹ کے مطابق تبدیلیاں کرلیتے ہیں۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ ایپلی کیشنز ان پر چلتی ہی نہیں۔ چینیوں کی ’’مہارت‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ دنیا کا پہلا ٹیبلٹ جس پر اینڈ روئیڈ آئس کریم سینڈوچ 4.0 انسٹال تھا، چینی کمپنی نے ہی بنایا تھا۔
چینی کمپنی کی اس شعبے میں مہارت کے پیچھے مغربی دنیا کی کمپنیوں کا ہی ہاتھ ہے۔ اس وقت ہر بڑی کمپیوٹر کمپنی، چاہے وہ انٹل ہو یا ایپل، ڈیل ہو یا ایچ پی اپنی مصنوعات چین میں ہی بنوارہی ہے۔ ایپل بھلے ہی امریکی پراڈکٹ ہو، لیکن بنتی چین میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں ماہرین کی ایک پوری نسل تیار ہوچکی ہے جسے کمپیوٹر مصنوعات بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ اسی مہارت کا نتیجہ ہے کہ چینی کنزیومر الیکٹرانکس میں اب چھا گئے ہیں۔
کچھ چینی ٹیبلٹ آپ کو ایسے بھی ملیں گے جن میں ونڈوز سی ای انسٹال ہوگی لیکن ایسے ٹیبلٹس کی تعداد کافی کم ہے۔ کچھ لینکس پر مبنی ٹیبلٹس بھی آپ کو نظر آسکتے ہیں لیکن آپ کو ننانوے فیصد ایسے ہی ٹیبلٹ ملیں گے جن میں گوگل اینڈروئیڈ انسٹال ہوگا۔ اگر آپ ایسا کوئی ٹیبلٹ خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس بات کی یقین دہانی کرلیں کہ اس پر آپ کی ضرورت کی تمام ایپلی کیشنز جیسے اسکائپ وغیرہ چلتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا، چینی ٹیبلٹس میں اینڈروئیڈ عموماً customized ہوتا ہے، اس لئے ضروری نہیں کہ گوگل Play Store پر دستیاب ہر ایپلی کیشن اس پر چل جائے۔
ان ٹیبلٹس کے ساتھ ایک مسئلے اپ گریڈ کا بھی ہے۔ شاذو نادر ہی کوئی ایسا چینی ٹیبلٹ ملتا ہے جس کا آپریٹنگ سسٹم اپ گریڈ کیا جاسکتا ہو۔ اینڈروئیڈ کے حوالے سے مخصوص فورمز پر کچھ فرم ویئر اپ ڈیٹس ملتی ہیں لیکن انہیں استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ٹیبلٹ بنانے والے کی جانب سے آپ امید نہ رکھیں کہ کوئی اپ ڈیٹ ریلیز کی جائے گی۔
ایپل آئی پیڈ کی اسکرین کا سائز متعین ہے۔ ایسا نہیں کہ مختلف سائز کے ٹیبلٹس دستیاب ہوں۔ لیکن دیگر تمام کمپنیاںجو ٹیبلٹ بنا رہی ہیں، اپنے مصنوعات مختلف سائز میں پیش کرتی ہیں۔ چائنا کے ٹیبلٹ بھی آپ کو پانچ سے لیکر دس انچ کے سائز میں مل جائیں گے اور وہ بھی رنگ برنگے!
جن چینی ٹیبلٹس کی قیمت کم ہوتی ہے، ان کی اسکرین اتنی شاندار نہیں ہوتی۔ رنگ پھیکے اور چمک بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن وہ ٹیبلٹ جو قدرے مہنگے ہیں (دس ہزار سے زائد قیمت والے) ان کی اسکرین عموماً گزارے لائق ضروری ہوتی ہیں۔ یہاں معاملہ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا کہ مصداق جتنا مہنگا ٹیبلٹ ہوگا، اس کی اسکرین اتنی ہی بہترین ہوگی۔ البتہ چینی ٹیبلٹس میںآپ ’’ریٹینا ‘‘ جیسے ریزلٹ ڈھونڈ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔اسکرین کے سائز کے ساتھ ساتھ اس کی ریزولوشن بھی بہت اہم ہے۔ اگر آپ ٹیبلٹ پر ایچ ڈی موویز دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سلسلے میں ریزولوشن بہت اہم ہے۔
اگر آپ نے ایپل ، سام سنگ یا کسی دوسری ’’برانڈڈ‘‘ کمپنی کا کوئی ٹیبلٹ استعمال کررکھا ہے تو چینی ٹیبلٹس میں آپ کو اس بات کا شدت سے احساس ہوگا کہ ان کا ’’ٹچ‘‘ اتنا مزیدار نہیں جتنا کہ برانڈڈ ٹیبلٹس کا ہے۔ یہ ایک ایسی وجہ ہے جو اکثر لوگوں کو چائنا کے ٹیبلٹ خریدنے سے باز رکھتی ہے۔
ٹیبلٹ خریدتے ہوئے اس بات کو ضرور مدنظر رکھیں کہ آیا وہ ملٹی ٹچ ہے کہ نہیں۔ چینی ٹیبلٹس عموماً ملٹی ٹچ ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی احتیاطاً اسے ضرور چیک کرلیں۔
اسٹوریج میڈیا اب انتہائی سستے ہوچکے ہیں۔ 2GBکی یو ایس بی جو آج سے چند سال پہلے تک ہزاروں روپے کی ملتی تھی، اب صرف دو سو روپے میں مل جاتی ہے۔ قیمت میں اس کمی کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ٹیبلٹس چاہے وہ برانڈڈ ہوں یا چائنا کے، ان میں کئی کئی گیگا بائٹس کی گنجائش ہوتی ہے۔ ایپل آئی پیڈ کی اسٹوریج میں آپ اضافہ نہیں کرسکتے، لیکن چائنا کے ٹیبلٹس میں آپ مائیکروایس ڈی کارڈ لگا کر اس کی گنجائش میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔
چینی ٹیبلٹ اسٹوریج کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی فراغ دل واقع ہوئے ہیں۔ ان میں اسٹوریج کی کوئی کمی نہیں۔ دس ہزار روپے والے ٹیبلٹ میں آپ کو 8گیگا بائٹس تک کی گنجائش بہ آسانی مل جائے گی جسے آپ مائیکرو ایس ڈی کارڈ لگا کر مزید بڑھا سکتے ہیں۔ 16جی بی والے ٹیبلٹس کی قیمت بھی ایک دو ہزار روپے ہی زائد ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر آئی پیڈ کی بات کی جائے تو 16جی بی اور 32جی بی کے آئی پیڈ میں ہزاروں روپے کا فرق ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بیٹری ٹائمنگ چائنا ٹیبلٹس کی سب سے بڑی خامی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہمارے مشاہدے میں اب تک ایسا کوئی چینی ٹیبلٹ نہیں آیا جس کی بیٹری ٹائمنگ تین چار گھنٹوں سے زائد ہو۔ بیشتر ٹیبلٹس 2گھنٹے سے زائد نہیں چلتے۔ اسٹینڈ بائے ٹائم بھی انتہائی کم ہوتا ہے جو بعض اوقات پانچ ، چھ گھنٹے بھی نہیں ہوتا۔ اگر آپ ان ٹیبلٹس پر کوئی ویڈیو دیکھنے بیٹھ جائیں تو پھر اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ مووی ختم ہونے سے پہلے بیٹری ’’پھک‘‘ جائے گی۔ یہ خامی آپ کو برانڈڈ ٹیبلٹس میں نظر نہیں آئے گی۔ آئی پیڈ کئی کئی گھنٹے بہت آرام سے چل سکتا ہے۔ جبکہ سام سنگ، لینوو، توشیبا کے ٹیبلٹس کی بیٹری ٹائمنگ بھی شاندار ہوتی ہے۔
ہماری نظر میں چینی ٹیبلٹ انٹرنیٹ برائوزنگ اور ویڈیو گیم کھیلنے کی حد تک تو بہترین ہیں، لیکن اگر آپ اسے موویز دیکھنے کیلئے خریدنا چاہ رہے ہیں تو پھر آپ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ سستے چینی ٹیبلٹ کے بجائے کوئی برانڈڈ ٹیبلٹ خریدنے کو ترجیح دیں۔ ضروری نہیں کہ آپ آئی پیڈ ہی خریدیں۔ سونی ایکسپیریا، توشیبا ، ہنڈائی ، گوگل نیکسس وغیرہ اگرچہ چینی ٹیبلٹس سے مہنگے ہیں لیکن آئی پیڈ سے پھر بھی کافی سستے ہیں اور ان میں اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم بھی ہوتاہے جو بذات خود ایک نعمت کی طرح لگتا ہے۔سستا ٹیبلٹ ہر چھ ماہ بعد نیا خریدنے سے بہتر ہے، ایک ہی اچھا ٹیبلٹ خریدیں اور اسے کم از کم سال بھر بے فکر ہوکر چلائیں۔چینی ٹیبلٹسکے ساتھ لیپ ٹاپس والا معاملہ بھی نہیں کہ بیٹری خراب ہوجانے کے بعد دوسری بیٹری لگا لی جائے۔ اگر ایک بار ان کی بیٹری خراب ہوگئی تو سمجھیں پورا ٹیبلٹ ہی بیکار ہوگیا۔ اب یہ صرف اسی وقت چلے گا جب آپ اسے چارجر سے لگا کر رکھیں گے اور بجلی بھی ہوگی جو بذات خود پاکستان میں ایک مسئلہ ہے! اس کے مقابلے میں برانڈڈ ٹیبلٹس کے پارٹس بشمول بیٹری کہیں اور نہیں تو ان کے اپنے سروس سینٹرز پر مل ہی جاتے ہیں۔
بیٹری کا معاملہ ایسا ہے جسے آپ بہ آسانی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اگر آپ نے ایک ایسا ٹیبلٹ خرید لیا جو صرف ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی جواب دے جاتا ہے، تو بھلے ہی آپ نے اسے دس ہزار روپے کا خریدا ہو، کسی طور پر سود مند نہیں۔ تاہم سب چینی ٹیبلٹس ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ چینی کمپنیاں جیسے ainol وغیرہ کی بیٹری ٹائمنگ کافی قابل قبول ہوتی ہے۔ لیکن یہ پھر بھی اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ آئی پیڈ یا گوگل نیکسس یا سونی ایکسپریا آپ کو دے سکتا ہے۔
چینی ٹیبلٹس میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کے صرف دو ہی طریقے ہیں۔ اول وائی فائی اور دوم ایتھرنیٹ۔ سیلولر انٹرنیٹ کا کوئی آپشن موجود نہیں ہوتا یعنی آپ اپنی موبائل سم لگا کر انٹرنیٹ استعمال نہیں کرسکتے۔ آئی پیڈ کا البتہ ایسا ورژن بھی آتا ہے جس میں آپ سیلولر انٹرنیٹ استعمال کرسکتے ہیں۔
ایتھرنیٹ پورٹ کی چینی ٹیبلٹ میں موجودگی ، ٹیبلٹ کے سائز پر منحصر ہے۔ اگر یہ ٹیبلٹ پانچ یا سات انچ کا ہے تو شاید اس میں ایتھر نیٹ پورٹ موجود نہ ہو۔ لیکن اگر ٹیبلٹ 10انچ کا ہے تو اس میں ایتھر نیٹ پورٹ موجود ہوسکتی ہے۔
اگر آپ کے پاس وائی فائی کے آسان رسائی ہے تو چینی ٹیبلٹ انٹرنیٹ برائوزنگ کے لئے بہترین ہے۔ لیکن سیلولر نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے خواہش مند افراد کے پاس اگر کوئی اسمارٹ فون ہو تو وہ اسے وائی فائی ہاٹ اسپاٹ بنا کر ٹیبلٹ پر انٹرنیٹ استعمال کرسکتے ہیں۔
چینی ٹیبلٹس اور برانڈڈ ٹیبلٹس کی وائرلیس ڈیٹا ٹرانسفر کی رفتار میں کچھ خاص فرق نہیں۔ بیشتر ٹیبلٹس ایک جیسے ہی اسٹینڈرز اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
بیٹری کے بعد اگر کوئی دوسری چیز لوگوں کو چینی ٹیبلٹ خریدنے سے روکتی ہے، وہ اس کی ورانٹی ہے۔ بیشتر چینی ٹیبلٹس بنانے والی کمپنیاں گمنام ہوتی ہیں۔ آپ کو ٹیبلٹ پر شاید کمپنی کا نام و نشان بھی نہ ملے جبکہ پیکجنگ بھی بالکل کوری ہوتی ہے۔ ایسے ٹیبلٹس کو OEM کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ چین میں مختلف مصنوعات کی بنائی جانے والی نقلیں OEMکی صورت میں ہی ملتی ہیں جنھیں مختلف چھوٹی کمپنیاں یا افراد خرید کر اپنے نام سے فروخت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو OEM پراڈکٹس چین سے امپورٹ کرکے یہاں اپنے نام سے فروخت کرتی ہیں۔ ہمارے علم میں ایک مشہور پاکستانی برانڈڈ کمپیوٹر بنانے والی کمپنی ہے جو چین سے OEM لیپ ٹاپ اور ٹچ اسکرینز منگوا کر پاکستان میں اپنے برانڈ نیم کے تحت فروخت کرتی ہے۔
اگر کوئی اچھی چینی کمپنی ٹیبلٹ اور اس کی پیکجنگ پر اپنا نام لکھ بھی دیتی ہے تو بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارے علم میں ایسی کوئی چینی کمپنی نہیں جس کا رجسٹرڈ آفس پاکستان میں ہو اور وہ ورانٹی کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہو۔ ٹیبلٹس اب ٹی وی یا گاڑی کی طرح تو ہیں نہیں کہ ان کے ’’مکینک‘‘ گلی کی نکڑ پر مل جائیں۔ لہٰذا خراب ٹیبلٹ آپ کے گلے آسکتا ہے۔
جب آپ یہ چینی ٹیبلٹ خریدنے جاتے ہیں، تو آپ سے ورانٹی کی مد میں کافی سارے وعدے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن ان وعدوں میں کوئی سچائی نہیں ہوتی۔ آپ اگر چینی ٹیبلٹ خریدیں تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ان کی ورانٹی ویسی نہیں ہوتی جیسی آپ کے برانڈڈ اسمارٹ فون کی ہوتی ہے۔ ورانٹی کے نام پر چینی ٹیبلٹ بیچنے والے کچھ دوست ’’سافٹ ویئر ‘‘ کی ورانٹی دیتے ہیں جس کے مطابق اگر سافٹ ویئر خراب ہوگیا تو وہ ٹھیک کردیں گے۔ کمپیوٹر کی ذرا سے بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ سافٹ ویئر کی ورانٹی ایک لایعنی چیز ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ فرم ویئر دوبارہ انسٹال کردیں گے یا ٹیبلٹ کو ’’روٹ‘‘ کردیں گے۔ اس سے زیادہ ان کے بس کی بات نہیں۔
برانڈڈ ٹیبلٹس جنہیں بنانے والی کمپنیوں کے پاکستان میں آفسز ہیں، میں البتہ آپ کو مکمل ورانٹی ملتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے ہارڈویئر میں کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو چینی ٹیبلٹس کی صورت میں اسے ٹھیک کرنے والا کوئی نہیں ہوگا لیکن برانڈڈ ٹیبلٹ کی صورت میں ان کے سروس سینٹر ضرور آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔
اس لئے ہماری کمزور دل صارفین سے یہی گزارش ہے کہ اگر آپ ورانٹی کے معاملے میں حساس واقع ہوئے ہیں تو چینی ٹیبلٹ خریدنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ ’’ڈسپوزیبل‘‘ بوتل کی طرح ہیں، پانی پیئو اور تروڑ مروڑ کر پھینک دو!
چینی ٹیبلٹ سستے ضرور ہیں لیکن ان کی اپنی خامیاں ہیں۔ اگر آپ کا ٹیبلٹ خریدنے کا مقصد ہلکی پھلکی تفریح، انٹرنیٹ برائوزنگ، سوشل نیٹ ورکنگ یا موسیقی سے لطف اندوز ہونا ہے تو چینی ٹیبلٹ آپ کو انتہائی کم قیمت میں یہ سب کچھ بہ آسانی فراہم کرسکتے ہیں۔ بچوں کے لئے بھی یہ شاندار ’’Gadgets‘‘ ہیں لیکن اگر آپ کا مقصد موویز دیکھنا، لمبے سفر میں انٹرنیٹ برائوزنگ کے لئے ٹیبلٹ رکھنا ہے تو پھر شاید یہ آپ کے کام نہ آئیں۔ ان کا کم بیٹری ٹائم آپ کے لئے کئی مسائل پیدا کرسکتا ہے ۔
سائز میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے ٹیبلٹس چاہے وہ کسی بھی کمپنی کے ہوں، ان کا ہاتھوں سے پھسل کر گرنا اور ادھر ادھر لڑک جانا عام بات ہے جس کا نتیجہ ان میں کئی طرح کی خرابیوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ خراب چینی ٹیبلٹس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ برانڈڈ ٹیبلٹس کی صورت میں کسی حد تک امید ضرور ہوتی ہے کہ سروس سینٹر سے شاید یہ ٹھیک ہوجائے۔
امانت علی گوہر ماہنامہ کمپیوٹنگ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ آپ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موضوع پر گزشتہ نو سالوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اردو یونی کوڈ سلوشن اور کئی اولین اردو یونی کوڈ فونٹس بھی ان کی تخلیق کردہ ہیں۔

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *