انتہائی دلدوز سانحہ ہے کہ جوہر ٹاؤن لاہور میں ایک سنگ دل ماں نے ” صرف تنگ دستی” سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے دونوں کمسن بچوں کا قتل کر دیا۔ درپردہ حقائق اور اصل وجوہات جو بھی تھیں، دل دہلا دینے والا یہ افسوس ناک سانحہ سیدنا عمر فاروق رض جیسی فلاحی طرز حکومت کے دعویدار حکمرانوں کیلئے” غیرت زندہ ہے تو ڈوب کے مر جاؤ” کا کھلا پیغام ہے کہ ایسے محشر پہلے بھی برپا ہو چکے ہیں۔ بلاشبہ یہ سانحہ بیحد غمناک اور ہر دل کو دکھی کر دینے والا ہے لیکن اس واقعے کے حوالے سے کچھ قابل توجہ حقائق، ملزمہ کی طرف سے بیان کردہ وجوہات کو انتہائی مشکوک اور پراسرار بنا رہے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک میں بے سکونی، معاشرے میں بڑھتی ہوئی غربت و افلاس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خودکشیوں یا اپنے ہی بچوں کے ایسے سنگ دل قتل و قتال کی سب سے بڑی وجہ ہمارے کشکول بردار حکمرانوں کی غیر دانش مندانہ معاشی پالیسیاں، بے روزگاری کے خاتمے کیلئے جامع حکمت عملی و منصوبہ بندی کا فقدان اور قومی دولت کی دونوں ہاتھوں سے بے دریغ لوٹ مار ہے۔ میں اہل نظر کے اس موقف سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ بڑے شہروں میں جدید سڑکوں، طویل و عالیشان پلوں، سفری سہولت کیلئے میٹرو بسوں اور بلند وبالا تعمیرات سے پہلے عوام الناس کو باعزت روزگار، دو وقت کی روٹی، سہولیات برائے صحت اور تعلیم کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ لیکن اس خاص واقعے کے حوالے سے پریس اینڈ میڈیا پر اندھا یقین یا اپنے خوابیدہ اور نااہل حکمرانوں پر روایتی انداز کے الزامات دھرنے سے قبل آنکھیں کھول کر تحقیق کرنا بھی لازم ہے۔
احباب اتفاق سے میں بھی اسی جوہر ٹاؤں کا ہی رہائشی ہوں جس کے ای بلاک میں ملزمہ بسمہ اپنے شوہر کے ہمراہ رہائش پذیر ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے بچوں کا قتل کرنے کا بیان دینے سفاک قاتل والدین ایک کنال کے جس گھر میں رہتے ہیں اس کی مالیت ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کے قریب ہو گی۔ غربت اور فاقہ کشی سے بچنے کیلئے اس بڑے گھر کے نصف حصۃ کو کرایہ پٓر دے کر ہی تیس پنتیس ہزار روپے کی ماہانہ آمدبی حاصل کرنا ایک معمولی بات ہوتی ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس فاقہ زدہ گھر کے گیراج میں کھڑی ہنڈا کار کی مالیت بھی بارہ تیرہ لاکھ روپے سے کم نہیں ہو گی۔ سو ان تما حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس گھر میں تنگ دستی اور فاقہ کشی عام انسان کی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک معمہ سا معمہ ہے کہ اس مقدمہء قتل سے جڑے تمام حقائق ایک دوسرے کی سراسر نفی کر رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق دونوں میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہتا تھا اور اسی وجہ سے گذشتہ برس بچوں کی ماں بسمہ گھر چھوڑ کر میکے چلی گئی تھی۔ لیکن خاندان کے بزرگوں نے چند مہینے کے بعد ان میں صلح کرا دی اور یوں وہ سسرال لوٹ آئی تھی۔ ملزمہ بسمہ کا یہ بیان اس کیس کو مذید پیچیدہ کر رہا ہے کہ “میں گذشتہ دو سال سے بچوں کو بھوک سے روتا دیکھ رہی تھی ، لیکن اب یہ سب برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میری زندگی ختم ہوگئی ہے لیکن اب وہ لوگ خوش ہوں گے جنہیں میرے بچوں کے زندہ رہنے سے نقصان تھا۔ کوئی مجھے پسند کرتا ہے نہ میرے شوہر کو، بس اسی لیے میں نے اپنے بچے مار دیے”۔ میرے مطابق ایک کروڑ پچاس لاکھ کی مالیت کے گھر اور بارہ لاکھ کی ہنڈا کار رکھنے والے جوڑے کی طرف سے تنگ دستی اور فاقہ کشی کا بیان تو مشکوک نظرآتا ہے لیکن اس کے بیان کا دوسرا حصہ کہ ” کچھ لوگ اس کے بچوں کے زندہ رہنے سے خوش نہیں تھے”، کسی سنگین نوعیت کے خاندانی وراثت کے جھگڑے یا پردہ پوش کہانی کی طرف اشارہ دے رہا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس بدقسمت خاندان کا خرچ ملزمہ بسمہ کے والدین اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ امر بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ بچوں کا والد پڑھا لکھا اور صحت مند ہونے کے باوجود کوئی کاروبار یا ملازمت نہیں کرتا تھا۔ پولیس کے مطابق جب قتل ہوا تو شوہر بھی اسی کمرے میں موجود تھا۔ لہذا یہ بات ممکن ہی نہیں کہ اس باپ کو بچوں کے قتل کا علم ہی نہیں ہوا ہوگا۔ سو اسے بھی گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی گی ہے۔ احباب اس مقدمہ قتل کی تفتیش کچھ بھی ہو لیکن ایسے دلخراش مواقع پر پاکستانی سوسائیٹی کے حوالے سے تذلیل آمیز تنقید کرنے میں پیش پیش میڈم مالاہ کا پرستار مغربی پریس اور خاص طور پر اسلام اور پاکستان دشمنی میں لازوال کردار کی حامل میڈم بی بی سی نے لکھا ہے کہ ” پاکستان میں غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ہی اہلخانہ کا قتل اور خودکشی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ واقعہ متوسط طبقے کے مالی اور ذہنی پریشانی کا آئینہ دار ہے۔ ” اس حوالے سے اس نے عالمی بدمعاشوں کی کٹھ پتلی اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ سے زیادہ افراد نشہ کی لت میں مبتلا ہیں اور ان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق نشہ کی ایک وجہ غربت اور مالی پریشانیوں سے راہ فرار بھی ہے۔ پاکستان میں غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے دلبرداشتہ ہوکر ہرسال درجنوں افراد خودکشی کرلیتے ہیں۔ معزز قارئین اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں غربت کا گراف دن بہ دن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ میرے ذاتی سروے کے مطابق لاہور کے اکثر پسماندہ علاقوں میں لوگ غربت کی انتہائی نچلی لائن سے نیچے تنگ دستی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ لاہور کے پسماندہ علاقوں ٹاؤن شپ اور گرین ٹاؤں کے سروے کے دوران، میں کئی ایسے گھرانوں سے ملا ہوں جن کے بچے صبح دودھ کی بجائے چینی والے پانی اور رس سے ناشتہ کر کے سکول نہیں بلکہ بیس پچیس روپے روزانہ کی اجرت کے کام پر جاتے ہیں، دوپہر کا کھانا بھی اگر فیکٹری یا دوکان کا مالک دے دیتا ہے تو کھا لیتے ہیں اور پھر اگلی صبح کا دکھ اٹھانے کیلئے رات بھوکے سو جاتے ہیں۔ کیا ہمارے حکمران اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک گھر میں دو کمانے والے محنت کش اور دس کھانے والے ہیں۔ کئی گھروں میں ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کے ایسے سسکتے ہوئے مریض بھی ہیں جن کیلئے کوئی دوا دارو تو درکنار، مناسب کھانا تک دستیاب نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی جادوگری کا معجزہ یہ ہے کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف، سب مگرمچوں کے کاروبار کے حجم اور ملوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ صد افسوس کہ ہمارے حکمران اور صنعتکار و سرمایہ دار اپنے وطن کی بجائے بنگلہ دیش، بھارت اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اپنے ملک میں بے روزگاری اور غربت کا گراف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آج پاکستانی عوام کی بدحالی اور غربت میں اضافے کی بڑی وجہ مغرب و سامراج کی طرف سے پاکستان کے حالات خراب کرنے کی مسلسل سازشیں اور ان کے مفادات کے محافظ، عوام کا خون چوسنے والے قومی غدار اور کرپشن کنگ ہیں۔ پاکستان کے معاشرتی نظام اور معاشی محشر کے بارے تذلیلانہ انداز میں تنقید کرنے والی اقوام متحدہ اور بی بی سی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ہی مغربی پریس کے مطابق پاکستانی قوم سے بھتہ وصول کرنے والے کھرب پتی جلاوطنوں اور قوم کا خون چوسنے والے بھتہ خوروں کے سرپرست و میزبان ابو الخباثت برطانیہ کا وہ معاشرہ دودھ سے دھلا ہوا نہیں جہاں ناجائز بچوں کی تعدار اکتالیس فیصد اور فتنہء اعظم امریکہ میں تنتیس فیصد ہے۔ صاف و شفاف اور جدیدیت کی روشنی سے منور مغربی معاشرے کی خصوصی شناخت ان ولد الحرام بچوں میں سے نصف سے زائد تمام زندگی مفلسی، نشہ بازی اور جنسی بے راہ روی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقیت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ آج پاکستان کی معاشی بدحالی اور دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ ہم پر زبردستی تھوپی جانے والی خود ساختہ وار اگینسٹ ٹیریر ہے۔ جو چالیس پچاس ہزار فوجی جوان اور معصوم شہری کھانے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کیلئے کینسر سے خطرناک ناسور بن چکی ہے۔ گورے پریس کو یاد رہے کہ پاکستانی معیشت اور عوام کی خوش حالی کے قتل کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف امریکہ اور برطانیہ میں خود کشیوں اور اپنے بچوں کے قتل جیسے جرائم کی شرح پاکستان سے دس بیس گناہ نہیں پچاس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ برطانیہ میں طلاق کا تناسب اکاون اور جدید و خوشحال امریکہ میں پچاس فیصد سے زائد ہے۔ عالمی غنڈوں کی بغل بچہ اقوام متحدہ اس بارے بھی رہورٹ جاری کرے کہ طلاق کی وجہ سے لاوارث ہوجانے اور ساری زندگی کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد برطانیہ میں ایک لاکھ سنتالیس ہزار اور امریکہ میں دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ بی بی سی پاکستان کے حالات پر مصنوئی رونا رونے کی بجائے یہ اپنے مغرب کے ان حالات پر ماتم کرے کہ مغربی خاندانوں میں نوے فیصد مائیں ہیں جبکہ باپوں کا تناسب صرف دس فیصد ہے۔ اور ان میں سے نصف سے زائد خاندان پاکستان ہی کی طرح انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے مطابق پاکستان میں ان سانحوں کے سب سے پہلے ذمہ دار فتنہء اغیار کے غلام پچھلے پینسٹھ برسوں سے آج تک کے سارے کرپٹ اور رنگیلے حکمران اور اس کے بعد خاموش چھتر کھانے والے مگر ہر خبر و اخبار پر بلا تحقیق بے ہنگم شور مچانے والے ہم خود بھی ہیں۔
احباب اتفاق سے میں بھی اسی جوہر ٹاؤں کا ہی رہائشی ہوں جس کے ای بلاک میں ملزمہ بسمہ اپنے شوہر کے ہمراہ رہائش پذیر ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے بچوں کا قتل کرنے کا بیان دینے سفاک قاتل والدین ایک کنال کے جس گھر میں رہتے ہیں اس کی مالیت ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کے قریب ہو گی۔ غربت اور فاقہ کشی سے بچنے کیلئے اس بڑے گھر کے نصف حصۃ کو کرایہ پٓر دے کر ہی تیس پنتیس ہزار روپے کی ماہانہ آمدبی حاصل کرنا ایک معمولی بات ہوتی ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس فاقہ زدہ گھر کے گیراج میں کھڑی ہنڈا کار کی مالیت بھی بارہ تیرہ لاکھ روپے سے کم نہیں ہو گی۔ سو ان تما حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس گھر میں تنگ دستی اور فاقہ کشی عام انسان کی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک معمہ سا معمہ ہے کہ اس مقدمہء قتل سے جڑے تمام حقائق ایک دوسرے کی سراسر نفی کر رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق دونوں میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہتا تھا اور اسی وجہ سے گذشتہ برس بچوں کی ماں بسمہ گھر چھوڑ کر میکے چلی گئی تھی۔ لیکن خاندان کے بزرگوں نے چند مہینے کے بعد ان میں صلح کرا دی اور یوں وہ سسرال لوٹ آئی تھی۔ ملزمہ بسمہ کا یہ بیان اس کیس کو مذید پیچیدہ کر رہا ہے کہ “میں گذشتہ دو سال سے بچوں کو بھوک سے روتا دیکھ رہی تھی ، لیکن اب یہ سب برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میری زندگی ختم ہوگئی ہے لیکن اب وہ لوگ خوش ہوں گے جنہیں میرے بچوں کے زندہ رہنے سے نقصان تھا۔ کوئی مجھے پسند کرتا ہے نہ میرے شوہر کو، بس اسی لیے میں نے اپنے بچے مار دیے”۔ میرے مطابق ایک کروڑ پچاس لاکھ کی مالیت کے گھر اور بارہ لاکھ کی ہنڈا کار رکھنے والے جوڑے کی طرف سے تنگ دستی اور فاقہ کشی کا بیان تو مشکوک نظرآتا ہے لیکن اس کے بیان کا دوسرا حصہ کہ ” کچھ لوگ اس کے بچوں کے زندہ رہنے سے خوش نہیں تھے”، کسی سنگین نوعیت کے خاندانی وراثت کے جھگڑے یا پردہ پوش کہانی کی طرف اشارہ دے رہا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس بدقسمت خاندان کا خرچ ملزمہ بسمہ کے والدین اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ امر بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ بچوں کا والد پڑھا لکھا اور صحت مند ہونے کے باوجود کوئی کاروبار یا ملازمت نہیں کرتا تھا۔ پولیس کے مطابق جب قتل ہوا تو شوہر بھی اسی کمرے میں موجود تھا۔ لہذا یہ بات ممکن ہی نہیں کہ اس باپ کو بچوں کے قتل کا علم ہی نہیں ہوا ہوگا۔ سو اسے بھی گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی گی ہے۔ احباب اس مقدمہ قتل کی تفتیش کچھ بھی ہو لیکن ایسے دلخراش مواقع پر پاکستانی سوسائیٹی کے حوالے سے تذلیل آمیز تنقید کرنے میں پیش پیش میڈم مالاہ کا پرستار مغربی پریس اور خاص طور پر اسلام اور پاکستان دشمنی میں لازوال کردار کی حامل میڈم بی بی سی نے لکھا ہے کہ ” پاکستان میں غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ہی اہلخانہ کا قتل اور خودکشی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ واقعہ متوسط طبقے کے مالی اور ذہنی پریشانی کا آئینہ دار ہے۔ ” اس حوالے سے اس نے عالمی بدمعاشوں کی کٹھ پتلی اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ سے زیادہ افراد نشہ کی لت میں مبتلا ہیں اور ان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق نشہ کی ایک وجہ غربت اور مالی پریشانیوں سے راہ فرار بھی ہے۔ پاکستان میں غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے دلبرداشتہ ہوکر ہرسال درجنوں افراد خودکشی کرلیتے ہیں۔ معزز قارئین اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں غربت کا گراف دن بہ دن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ میرے ذاتی سروے کے مطابق لاہور کے اکثر پسماندہ علاقوں میں لوگ غربت کی انتہائی نچلی لائن سے نیچے تنگ دستی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ لاہور کے پسماندہ علاقوں ٹاؤن شپ اور گرین ٹاؤں کے سروے کے دوران، میں کئی ایسے گھرانوں سے ملا ہوں جن کے بچے صبح دودھ کی بجائے چینی والے پانی اور رس سے ناشتہ کر کے سکول نہیں بلکہ بیس پچیس روپے روزانہ کی اجرت کے کام پر جاتے ہیں، دوپہر کا کھانا بھی اگر فیکٹری یا دوکان کا مالک دے دیتا ہے تو کھا لیتے ہیں اور پھر اگلی صبح کا دکھ اٹھانے کیلئے رات بھوکے سو جاتے ہیں۔ کیا ہمارے حکمران اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک گھر میں دو کمانے والے محنت کش اور دس کھانے والے ہیں۔ کئی گھروں میں ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کے ایسے سسکتے ہوئے مریض بھی ہیں جن کیلئے کوئی دوا دارو تو درکنار، مناسب کھانا تک دستیاب نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی جادوگری کا معجزہ یہ ہے کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف، سب مگرمچوں کے کاروبار کے حجم اور ملوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ صد افسوس کہ ہمارے حکمران اور صنعتکار و سرمایہ دار اپنے وطن کی بجائے بنگلہ دیش، بھارت اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اپنے ملک میں بے روزگاری اور غربت کا گراف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آج پاکستانی عوام کی بدحالی اور غربت میں اضافے کی بڑی وجہ مغرب و سامراج کی طرف سے پاکستان کے حالات خراب کرنے کی مسلسل سازشیں اور ان کے مفادات کے محافظ، عوام کا خون چوسنے والے قومی غدار اور کرپشن کنگ ہیں۔ پاکستان کے معاشرتی نظام اور معاشی محشر کے بارے تذلیلانہ انداز میں تنقید کرنے والی اقوام متحدہ اور بی بی سی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ہی مغربی پریس کے مطابق پاکستانی قوم سے بھتہ وصول کرنے والے کھرب پتی جلاوطنوں اور قوم کا خون چوسنے والے بھتہ خوروں کے سرپرست و میزبان ابو الخباثت برطانیہ کا وہ معاشرہ دودھ سے دھلا ہوا نہیں جہاں ناجائز بچوں کی تعدار اکتالیس فیصد اور فتنہء اعظم امریکہ میں تنتیس فیصد ہے۔ صاف و شفاف اور جدیدیت کی روشنی سے منور مغربی معاشرے کی خصوصی شناخت ان ولد الحرام بچوں میں سے نصف سے زائد تمام زندگی مفلسی، نشہ بازی اور جنسی بے راہ روی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقیت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ آج پاکستان کی معاشی بدحالی اور دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ ہم پر زبردستی تھوپی جانے والی خود ساختہ وار اگینسٹ ٹیریر ہے۔ جو چالیس پچاس ہزار فوجی جوان اور معصوم شہری کھانے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کیلئے کینسر سے خطرناک ناسور بن چکی ہے۔ گورے پریس کو یاد رہے کہ پاکستانی معیشت اور عوام کی خوش حالی کے قتل کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف امریکہ اور برطانیہ میں خود کشیوں اور اپنے بچوں کے قتل جیسے جرائم کی شرح پاکستان سے دس بیس گناہ نہیں پچاس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ برطانیہ میں طلاق کا تناسب اکاون اور جدید و خوشحال امریکہ میں پچاس فیصد سے زائد ہے۔ عالمی غنڈوں کی بغل بچہ اقوام متحدہ اس بارے بھی رہورٹ جاری کرے کہ طلاق کی وجہ سے لاوارث ہوجانے اور ساری زندگی کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد برطانیہ میں ایک لاکھ سنتالیس ہزار اور امریکہ میں دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ بی بی سی پاکستان کے حالات پر مصنوئی رونا رونے کی بجائے یہ اپنے مغرب کے ان حالات پر ماتم کرے کہ مغربی خاندانوں میں نوے فیصد مائیں ہیں جبکہ باپوں کا تناسب صرف دس فیصد ہے۔ اور ان میں سے نصف سے زائد خاندان پاکستان ہی کی طرح انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے مطابق پاکستان میں ان سانحوں کے سب سے پہلے ذمہ دار فتنہء اغیار کے غلام پچھلے پینسٹھ برسوں سے آج تک کے سارے کرپٹ اور رنگیلے حکمران اور اس کے بعد خاموش چھتر کھانے والے مگر ہر خبر و اخبار پر بلا تحقیق بے ہنگم شور مچانے والے ہم خود بھی ہیں۔
No comments:
Post a Comment