Saturday, 11 January 2014

BADBAN

اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

 

 

 

 

 


پاکستان گذشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان نے ہی برداشت کیا ہے جس میں جانی نقصان کا بے پناہ ہے مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب تک 50 ہزار عام شہری اور تقریباً 10 ہزار فوجی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔
ایک منٹ ٹھہرئیے ! کیا یہ سب افراد واقعی شہید ہیں؟ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں نے طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دےدیا اس بات پر کافی لے دے ہوئی  لیکن وہ افراد اپنے موقف پر ڈٹے رہے دوسری جانب طالبان کے مخالف بھی اپنی بات پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ طالبان سے آہنی ہاتھ سے نپٹا جائے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جمعرات کو ہنگو میں ایک پندرہ سالہ لڑکے اعتزاز حسن نے جرات اور بہادری کی شاندار مثال قائم کرتے ایک خودکش حملہ کو اسوقت دبوچ لیا جب وہ ہنگو میں واقع ابراہیم زئی اسکول پر حملہ کرنے جارہا تھا جہاں اسوقت دو ہزار کے لگ بھگ لڑکے اسمبلی کے لئے جمع تھے۔
شہید اعتزاز حسن کا دوست قیصر حسین جو اس واقعے کا عینی شاہد  ہے بتاتا ہے کہ حملہ آور جو اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا  اس نے ہم سے اسکول  کا پتہ پوچھا جس پر ہمیں اسپر شک گزرا اور جب اعتزاز نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اسنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
اعتزاز حسن کی حوصلہ مندانہ شہادت کی خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک سے اسکا ردعمل آنے لگا اور قوم نے اپنے اس بہادر فرزند کے لئے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا مطالبہ تک کردیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ اعتزاز کے ذہن میں وہ کیا سوچ تھی کہ جسکے زیر ِ اثراس نے حملہ آور کو دبوچ لیا اسے تو چائیے تھا کہ وہ وہی راستہ اختیار کرتا جو ہمارے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سیاستدانوں نے تجویز کیا ہے یعنی مذاکرات کرتا ، حملہ آور سے پوچھتا کہ تمھارے مطالبات کیا ہیں ؟ کن شرائط پر تم یہ دھماکہ کرنے سے باز آجاو گے لیکن نہیں! اسنے وہی کیا جو جبلتِ انسانی کا تقا ضا ہے یعنی دفاعی حملہ۔
وہ حملہ آور جو اسکے دو ہزار ہم مکتبوں کی جان لینے جارہا تھا اس نے آنکھیں بند کر کے اسے جانے نہیں دیا کہ چلو اسکے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہوگی یا اسکا کوئی عزیز کسی ڈرون حملے میں مارا گیا ہوگا لہذا یہ بھی خودکش حملہ کرکے اپنے انتقام کی آگ کو سرد کرلے بلکہ اعتزاز نے اسکو روک کر اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بے پناہ شہرت ملی اور صدر مملکت ، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسکو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
راسف اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پندرہ سالہ لڑکا تو یہ بات جانتا ہے کہ جب آگ اپنے گھر تک پہنچ جاتی ہے تو پھرصرف باتیں نہیں کی جاتیں بلکہ آگ بجائی جاتی ہے لیکن ہمارے کچھ ذہین سیاستدان اور دفاعی امور میں خود کو عقل ِ کل سمجھنے والے تجزیہ نگار ابھی بھی مذاکرات کی بین بجا کر سانپ کو رام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مذاکرات کے حامی تمام افراد سے میری یہ دست بستہ التماس ہے کہ مذاکرات کرنے سے پہلے صرف ایک بار دہشت گردوں کی بربریت کے شکار شہید کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کرلیں اوراگر ان لوگوں کے چہرے پر آپکو طالبان کا خوف نظر آئے تو پھر بیشک مذاکرات کریں لیکن اگر ان لوگوں کے حوصلے بلند ہوں تو پھر آپ اپنے اندرونی خوف اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نقاب نا پہنائیں کیونکہ پاکستانی قوم کے بچے بھی اب اس بات سےاچھی طرح واقف ہیں کہ ان وحشی درندوں کو اب بزورِ قوت روکنا ہوگا اوراگرایسا نا ہوتا تو اعتزاز حسن بھی شاید شہادت کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرتا

اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

January 11, 2014 20:14 Updated

تحریر: سید فواد رضا
پاکستان گذشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان نے ہی برداشت کیا ہے جس میں جانی نقصان کا بے پناہ ہے مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب تک 50 ہزار عام شہری اور تقریباً 10 ہزار فوجی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔
ایک منٹ ٹھہرئیے ! کیا یہ سب افراد واقعی شہید ہیں؟ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں نے طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دےدیا اس بات پر کافی لے دے ہوئی  لیکن وہ افراد اپنے موقف پر ڈٹے رہے دوسری جانب طالبان کے مخالف بھی اپنی بات پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ طالبان سے آہنی ہاتھ سے نپٹا جائے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جمعرات کو ہنگو میں ایک پندرہ سالہ لڑکے اعتزاز حسن نے جرات اور بہادری کی شاندار مثال قائم کرتے ایک خودکش حملہ کو اسوقت دبوچ لیا جب وہ ہنگو میں واقع ابراہیم زئی اسکول پر حملہ کرنے جارہا تھا جہاں اسوقت دو ہزار کے لگ بھگ لڑکے اسمبلی کے لئے جمع تھے۔
شہید اعتزاز حسن کا دوست قیصر حسین جو اس واقعے کا عینی شاہد  ہے بتاتا ہے کہ حملہ آور جو اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا  اس نے ہم سے اسکول  کا پتہ پوچھا جس پر ہمیں اسپر شک گزرا اور جب اعتزاز نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اسنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
اعتزاز حسن کی حوصلہ مندانہ شہادت کی خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک سے اسکا ردعمل آنے لگا اور قوم نے اپنے اس بہادر فرزند کے لئے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا مطالبہ تک کردیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ اعتزاز کے ذہن میں وہ کیا سوچ تھی کہ جسکے زیر ِ اثراس نے حملہ آور کو دبوچ لیا اسے تو چائیے تھا کہ وہ وہی راستہ اختیار کرتا جو ہمارے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سیاستدانوں نے تجویز کیا ہے یعنی مذاکرات کرتا ، حملہ آور سے پوچھتا کہ تمھارے مطالبات کیا ہیں ؟ کن شرائط پر تم یہ دھماکہ کرنے سے باز آجاو گے لیکن نہیں! اسنے وہی کیا جو جبلتِ انسانی کا تقا ضا ہے یعنی دفاعی حملہ۔
وہ حملہ آور جو اسکے دو ہزار ہم مکتبوں کی جان لینے جارہا تھا اس نے آنکھیں بند کر کے اسے جانے نہیں دیا کہ چلو اسکے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہوگی یا اسکا کوئی عزیز کسی ڈرون حملے میں مارا گیا ہوگا لہذا یہ بھی خودکش حملہ کرکے اپنے انتقام کی آگ کو سرد کرلے بلکہ اعتزاز نے اسکو روک کر اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بے پناہ شہرت ملی اور صدر مملکت ، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسکو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
راسف اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پندرہ سالہ لڑکا تو یہ بات جانتا ہے کہ جب آگ اپنے گھر تک پہنچ جاتی ہے تو پھرصرف باتیں نہیں کی جاتیں بلکہ آگ بجائی جاتی ہے لیکن ہمارے کچھ ذہین سیاستدان اور دفاعی امور میں خود کو عقل ِ کل سمجھنے والے تجزیہ نگار ابھی بھی مذاکرات کی بین بجا کر سانپ کو رام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مذاکرات کے حامی تمام افراد سے میری یہ دست بستہ التماس ہے کہ مذاکرات کرنے سے پہلے صرف ایک بار دہشت گردوں کی بربریت کے شکار شہید کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کرلیں اوراگر ان لوگوں کے چہرے پر آپکو طالبان کا خوف نظر آئے تو پھر بیشک مذاکرات کریں لیکن اگر ان لوگوں کے حوصلے بلند ہوں تو پھر آپ اپنے اندرونی خوف اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نقاب نا پہنائیں کیونکہ پاکستانی قوم کے بچے بھی اب اس بات سےاچھی طرح واقف ہیں کہ ان وحشی درندوں کو اب بزورِ قوت روکنا ہوگا اوراگرایسا نا ہوتا تو اعتزاز حسن بھی شاید شہادت کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرتا

لاتوں کے بھوت

PAKISTAN ???????????//

معصوم فلسطینیوں کا قاتل ایرئیل شیرون انتقال کر گیا

معصوم فلسطینیوں کا قاتل ایرئیل شیرون انتقال کر گیا

معصوم فلسطینیوں کا قاتل ایرئیل شیرون انتقال کر گیا
تل ابیب(مانیٹرنگ ڈیسک)اسرائیل کاسابق وزیر اعظم ایریئل شیرون آٹھ سال کومے میں رہنے کے بعد پچاسی سال کی عمر میں انتقال کر گیا،وہ تل ابیب سے کچھ فاصلے پر واقع شیبا میڈیکل سینٹر میں زیر علاج تھا،شیرون اسرائیل ملٹری اور سیاست کی بااثر شخصیت تھالیکن اس کا کریئر تنازعات میں گھرا رہا۔ایریئل شیرون مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کے سخت ترین حامی تھا مگر اس کے آخری اقدامات میں سے ایک، غزہ پٹی سے اسرائیلی فوج کی واپسی نے اس کے مداحوں کو حیران کر دیا۔ تھوڑے عرصے کے بعد اس کا کریئر ایک دم سے اس وقت ختم ہو گیا جب متعدد سٹروکس کی وجہ سے وہ کومے میں چلے گیا۔پوری دنیا اس کی جانب سے 1982ءمیں صابریہ شاتلیہ میں ڈھائے گئے ظلم کبھی نہیں بھولے گی جس میں اس نے سینکڑوں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں عورتوں اور معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کیا تھا۔

اپنی نوجوانی میں اس نے خفیہ یہودی مسلح تنظیم ہگانا میں شمولیت اختیار کی اور 1948-49 کی عرب اسرائیل جنگ میں بطور پلٹون کمانڈر شرکت کی۔1950 کی دہائی میں اس نے یونٹ 101 نامی ایک خصوصی دستے کی قیادت کی جس کا کام فلسطینیوںکے خلاف کارروائیاں کرنا تھا۔ایریئل شیرون نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک ملک کی تمام جنگوں میں شرکت کی تھی ،1956 میں سوئز جنگ میں اس نے چھاتہ برداروں کی ایک بریگیڈ کی قیادت کی اور میجر جنرل کے عہدے تک پہنچا۔ جون 1967 کی جنگ میں ایریئل شیرون صحرائے سینا میں ایک ڈویڑن کی قیادت کر رہااور مصری فوج کے خلاف اس کی کامیابی نے اسرائیل کے سینا جزیرہ نما پر مکمل قبضہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔چھ سال بعد جب مصر اور شام نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کیا تو شیرون کی ڈویڑن نے مصر کی تھرڈ آرمی کو صحرائے سینا میں روک دیا جس کی وجہ سے جنگ کا رخ پلٹ گیا اور اسرائیل کو کامیابی حاصل ہوئی۔دو ماہ بعد ایریئل شیرون ایک نئی دائیں بازو کی لیکود پارٹی کے ٹکٹ پر اسرائیلی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تاہم اگلے سال ہی ا س نے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کا مشیر برائے سکیورٹی بننے کے لیے رکنیت چھوڑ دی۔1977 میں وہ دوبارہ اسرائیلی پارلیمان کا حصہ بنے اور 1981 میں وزیرِ دفاع۔یاسر عرفات کی پی ایل او کی جانب سے جنوبی لبنان سے شمالی اسرائیل میں راکٹ حملوں کے بعد 1982 ایریئل شیرون نے ہمسایہ ملک پر حملے کی منصوبہ بندی کی۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کو مطلع کیے بغیر اس نے اسرائیلی فوج کو بیروت تک بھیج دیا۔ اس کارروائی کے بعد پی ایل او کو لبنان سے نکال دیا گیا۔اس اقدام سے پی ایل او کو تو لبنان چھوڑنا پڑا مگر اس کارروائی کی وجہ سے اسرائیل کے زیرِ انتظام فلسطینی پناہ گزینوں کے دو کیمپوں میں لبنانی عیسائی مسلح افراد نے سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔شیرون نے یہ ذمہ داری لی کہ وہ صابریہ شاتلیہ میں آپریشن کرے گا اور ستمبر 1982ءمیں اس نے فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں آپریشن کرتے ہوئے 3600سے زائد فلسطینی عورتوں اور بچوں کو دہشت گرد کہ کر مار ڈالا۔

اعتزاز حسین نے بہادری اور قربانی کی عظیم مثال قائم کی ہے، سربراہ پاک فوج

اعتزاز حسین نے بہادری اور قربانی کی عظیم مثال قائم کی ہے، سربراہ پاک فوج


آرمی چیف کی جانب سے ہنگو میں اعتزاز حسین کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی، آئی ایس پی آر فوٹو: فائل
راولپنڈی: پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ ہنگو میں دہشت گردوں کی کوشش کو ناکام بنانے والے 15 سالہ اعتزاز حسین نے بہادری اور قربانی کی عظیم مثال قائم کی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے ہنگو میں دہشت گردوں کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے اپنی جان قربان کرنے والے اعتزاز حسین کی قبر پر  پھولوں کی چادر چڑھائی گئی، ان کا کہنا تھا کہ 15 سالہ اعتزاز حسین نے بہادری اور قربانی کی عظیم مثال قائم کی ہے، اس نے آج اپنی جان کی قربانی ہمارے بہتر کل کے لئے دی ہے اور قوم کو اس نوجوان ہیرو پر فخر ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل ہنگو میں نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز حسین نے اسکول میں داخل ہونے والے خود کش حملہ آورکو روک کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے کئی معصوموں کی زندگیاں بچالی تھیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی میں ’’ڈولفن شو‘‘، شاہد آفریدی نے افتتاح کیا

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی میں ’’ڈولفن شو‘‘، شاہد آفریدی نے افتتاح کیا


بحریہ میوزم میں جاری ڈولفن شو آئندہ 2 ماہ تک جاری رہے گا۔ فوٹو: ایکسپریس نیوز
کراچی: پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہر قائد میں ہونے والے ڈولفن شو کا افتتاح قومی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بحریہ میوزم میں اہل کراچی کے لئے ڈولفن شو آئندہ 2 ماہ تک جاری رہے گا تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عوام کی جانب سے ملنے والی بے پناہ پذیرائی کے باعث اسے 2 ماہ کے بعد بھی جاری رکھا جاسکتا ہے جبکہ کراچی کے بعد اس شو کا انعقاد لاہور اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی کیا جائے گا۔
اپنے طرز کے اس منفرد شو میں جہاں خوبصورت اور نخریلی ’’وائٹ ڈولفن‘‘ اپنے کرتب سے حاضرین کو محظوظ کررہی ہیں تو ڈولفن نسل کی ’’بلوگا وہیل‘‘ اور ’’سی لائن‘‘ بھی اپنے کرتبوں سے دیکھنے والوں کا دل لبھا رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ حاضرین ان کے دلکش اور منفرد کرتب سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں، ان جانوروں کو دوستانہ ماحول میں کرتب دکھانے کے لئے روس کے ٹرینرز نے ان کہ خصوصی طور پر ٹریننگ کی ہے جس کا یہ جانور بھی بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔

افغان حکومت کے 2 وزراء کی طالبان رہنماؤں سے خفیہ ملاقات بے نتیجہ ختم

افغان حکومت کے 2 وزراء کی طالبان رہنماؤں سے خفیہ ملاقات بے نتیجہ ختم

1989کی طرزپربالواسطہ ثالثی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، طالبان رہنما۔ فوٹو: فائل
دبئی: افغانستان کے 2 وزراء اور طالبان رہنماؤں کے مابین سے ملک میں امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کے حوالے سے ہونے والی ملاقات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق حامدکزرئی حکومت کے 2 وزراء نے متحدہ عرب امارات میں طالبان رہنماؤں سے خفیہ ملاقات کی جس میں قیدیوں کی رہائی اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے علاوہ امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کے حوالے سے دیگر اہم معاملات بھی زیر بحث آئے۔ طالبان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ طالبان قیادت ملک میں امن کے لئے مذاکرات کے لئےتیار ہے تاہم طالبان کمانڈرز کی ایک بڑی تعداد بات چیت کے مخالف ہے جب کہ نئی نسل کے کمانڈرافغانستان پردوبارہ کنٹرول کے لیے پر اعتماد ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ 1989 کی طرز پر بالواسطہ ثالثی قبول کرنے کےلیے تیار ہیں جب کہ طالبان اور دیگر حکومت مخالف جنگجو اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد لڑائی کی بھر پور تیاری کر رہے ہیں۔

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *