Friday 24 January 2014

ٹوئٹر


 وہ صارفین کے مفت کانٹینٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشتہارات دکھاتا ہے اور سالانہ ایک ارب ڈالر منافع کماتا ہے، اس بار ہم ٹوئٹر کے ذرائع آمدن پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایک تجارتی منصوبے کے طور پر ٹوئٹر کن کن طریقوں اور ذرائع سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔
ٹوئٹر 2006 میں منظرِ عام پر آیا، اگلے چار سالوں تک اس کا زور “مائیکرو بلاگنگ” کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر اپنی شناخت پختہ کرنے اور مختلف پلیٹ فارمز پر ایپلی کیشنز بنانے کے عمل کو آسان بنانے پر رہا جیسے موبائل فونز، اور ویب براؤزرز کے پلگ انز وغیرہ، اس سارے عرصے میں صارفین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئی لہٰذا ویب سائٹ کے آؤٹیج outage کے مسائل سامنے آنے لگے چنانچہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ویب سائٹ کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دی جانے لگی۔
2010 تک جب صحافی جیک ڈورسی (Jack Dorsey)جو کمپنی کے بانیوں میں سے ایک اور چیئرمین تھا، سے سوال کرتے تھے کہ کمپنی منافع کیسے حاصل کرے گی تو اس کے پاس کوئی شافی جواب نہیں ہوتا تھا، کبھی کبھی اس کا جواب یہ ہوتا تھا کہ جیسے آپ یہ پوچھ رہے ہوں کہ گوگل اپنا منافع کیسے حاصل کرے گا، یقینا کوئی دن آئے گا جب یہ منافع حاصل کرے گا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹوئٹر کی انتظامیہ کے پاس اس ضمن میں کوئی واضح پلان نہیں تھا، تاہم جیک ڈورسی نے یہ یقین دلایا تھا کہ ٹوئٹر کبھی اشتہارات نشر نہیں کرے گا یعنی اشتہاری بینر۔
جب ٹوئٹر نے ایک اچھوتے انداز کی مائکرو بلاگنگ کے طور پر جو اس وقت تک رائج نہیں تھی خود کو منوا لیا تو اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ پہلے ہی سال ٹوئٹر میں 5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، پھر 22 ملین ڈالر، اس کے بعد 35 ملین ڈالر جبکہ 2010 میں ٹوئٹر 200 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی مد میں حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور یوں کمپنی کی کْل قیمت 3.7 ارب ڈالر تک جا پہنچی جو شیئر بازار میں اپنے 35 ہزار شیئرز بیچنے کا نتیجہ تھا، 2011 میں کمپنی کی کْل قیمت 7.8 ارب ڈالر تھی، اسی سال سعودی شہزادے الولید بن طلال نے ٹوئٹر میں 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
اگرچہ کمپنی کے پاس ذرائع آمدن کے حوالے سے کوئی واضح پلان نہیں تھا تاہم ابتدائی آمدن اسے 2009 میں حاصل ہوئی جب اس نے گوگل اور مائکروسافٹ کو اپنے تلاش کے نتائج فراہم کرنے کے معاہدے کیے اور یوں گوگل سے 15 ملین ڈالر جبکہ مائکروسافٹ سے 10 ملین ڈالر وصول کیے، اس سال کے آخر میں ٹوئٹر نے 4 ملین ڈالر منافع کمایا جبکہ صارفین کی تعداد 25 ملین تک جا پہنچی تھی۔
2011 میں ٹوئٹر نے 139.5 ملین ڈالر اشتہارات کی مد میں حاصل کیے اور توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک 260 ملین ڈالر تک چا پہنچے گا، توقع ہے کہ اگلے سال اشتہارات کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم 1.45 ارب ڈالر تک جا پہنچیں گی جن میں 111 ملین ڈالر منافع ہوگا جبکہ صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔
اشتہارات کی پہلی قسم جن سے ٹوئٹر آمدنی جنریٹ کرتا ہے، مثال کے طور پر جب آپ لفظ پیانو piano تلاش کرتے ہیں یا آئی فون کے ہیش ٹیگ #iphone کو تلاش کرتے ہیں تو نتائج میں اشتہاری ٹویٹ سب سے اوپر ہوتی ہے جسے اورنج رنگ کے تیر سے الگ کیا گیا ہوتا ہے، یہ ٹویٹس صارف کی ٹائم لائن کے اوپر یا تھوڑا سا نیچے بھی نظر آسکتی ہیں جب صارف لاگ ان یا اپنی ٹائم لائن کو اپڈیٹ کرتا ہے۔ کسی صارف کی ٹائم لائن پر ایسی اشتہاری ٹویٹس کے ظاہر ہونے کے لیے لازم ہے کہ ……..
جب کوئی بین الاقوامی کمپنی کسی اہم اور عالمی چیز کی تشہیر کرنا چاہے تو اسے ہر صارف کی پروفائل میں صرف پرموٹڈ ٹویٹس ہی کافی نہیں ہوتیں لہذا وہ پورا ایک پرموٹڈ ٹرینڈ یعنی رجحان خرید لیتی ہے تاکہ ویب سائٹ کے تمام صارفین کی توجہ کسی نئے عالمی واقعے پر کرائی جاسکے اور اس کے بارے میں ٹویٹس کی جاسکیں، رجحانات کو کسی مخصوص برانڈ کی تشہیر یا کسی عالمی پیمانے کی تقریب جیسے کسی نئی پراڈکٹ کا اجرائ￿ یا مخصوص کانفرنس کی طرف توجہ دلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
رجحانات کی فہرست ویب سائٹ کی دائیں طرف کی فہرست میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے اور اس میں صارفین کی حالیہ گفتگو کے نمایاں ہیش ٹیگ شامل ہوتے ہیں جن پر کلک کرنے سے……..
تمام صارفین کو ایک فہرست دکھائی جاتی ہے جس میں کچھ دیگر صارفین کو فالو کرنے کی تجویز دی جاتی ہے، اس فہرست کا انحصار آپ کی دلچسپیوں، دوست یعنی فالوورز، کی ورڈز وغیرہ پر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی کمپنی اپنے نئے اکاؤنٹ کی تشہیر کچھ مخصوص دلچسپیوں کی بنیاد پر کرنا چاہے تو؟ ایسا ہوتا ہے، اور ایسی کمپنی کا اکاؤنٹ who to follow کی فہرست میں اورنج رنگ کی علامت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ صارفین کا ایک گروہ جن میں آپ بھی شامل ہیں تعلیم سے متعلقہ اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں جیسے یونیورسٹیاں، اساتذہ، اشاعتی وتحقیقی ادارے اور دیگر تعلیمی ویب سائٹس، اگر آپ اس ذمرے کے کچھ اکاؤنٹس کو فالو کر رہے ہیں مگر……..
اوپر کے تین چینل ٹوئٹر کی آمدنی کے بنیادی اوزار ہیں جن سے ٹوئٹر اپنی آمدنی حاصل کرتا ہے، تاہم دو ایسے ذرائع اور بھی ہیں جنہیں کمالیات میں شمار کیا جاسکتا ہے جو بڑے بڑے برانڈز کے لیے مخصوص ہیں، مثال کے طور پر کوئی کمپنی اپنے اکاؤنٹ کی پروفائل میں بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جس کی عام صارفین کو اجازت نہیں، اس صورت میں ٹوئٹر کمپنی کو ہیڈر میں کمپنی کا لوگو 835×90 پکسل کے سائز میں لگانے کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ کسی ٹویٹ کو ٹائم لائن میں ہمیشہ سب سے اوپر ظاہر کرنے کی خوبی بھی فراہم کی جاسکتی ہے اب چاہے ٹویٹ کتنی بھی پرانی کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ ٹائم لائن میں سب سے اوپر چسپاں رہے گی، اس اضافی خوبی کے بڑے فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر……..
ٹوئٹر پر عام طور سے اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگ کسی مخصوص موضوع پر کیا گفت وشنید کر رہے ہیں تو آپ اس موضوع سے متعلق کسی ہیش ٹیگ کا مشاہدہ کرتے ہیں، آپ اس ہیش ٹیگ کو تلاش کرتے ہیں اور اس موضوع پر گفتگو کرنے والے تمام دیگر صارفین کی گفتگو اسی ایک صفحہ پر حاصل کرلیتے ہیں۔
لیکن اگر کوئی خود کو دوسروں سے ممتاز کرنا چاہے تو؟ بات کرتے ہیں مشہور……..
اپنی اشتہاری مہم لانچ کرنے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اس کی شماریات پر بھی نظر رکھیں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کیا آپ نے اس سے اپنے مقاصد حاصل بھی کیے ہیں یا نہیں؟ یہاں شماریات کا تعلق صرف ٹوئٹر سے ہے نا کہ آپ کی ویب سائٹ سے، اشتہاری مہمیں شروع کرنے والوں کے لیے ٹوئٹر شماریات کی سہولت فراہم کرتا ہے چاہے وہ ٹویٹس ہوں، ٹرینڈ ہوں یا کھاتے۔
شماریات آپ کو تمام سرگرمیوں کی رپورٹ دیتے ہیں کہ آپ کی ٹویٹ کتنی دفعہ ظاہر ہوئی اور اس کے نتیجے میں کتنے لوگوں نے آپ کو فالو کیا، ٹویٹ کتنی دفعہ ری ٹویٹ ہوئی، اس میں موجود ربط پر کتنی دفعہ کلک کیا گیا، آپ کے اکانٹ کا کتنی دفعہ مشاہدہ کیا گیا اور کتنے لوگوں نے آپ کو اَن فالو کیا وغیرہ، اس میں ٹائم لائن کی سرگرمیاں بھی شامل ہوتی ہیں

کمپیوٹر


مائیکروسافٹ ونڈوز میں بہت سی فائلیں اور حصے ایسے ہیں جن کے بارے میں مائیکروسافٹ نے معلومات عام عوام کو نہیں بتا رکھیں۔ بیشتر لوگ ان خفیہ فائلوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں کہ یہ موجود کہاں ہوتی ہیں اور کیوں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ جو ان فائلوں کو ڈھونڈ بھی لیتے ہیں تو یہ نہیں جان پاتے کہ ان میں لکھے ڈیٹا کا مطلب کیا ہے۔
یہ فائلیں فورنزک جانچ کے لئے بے حد اہم ہوتی ہیں۔ کسی واقعے یا جرم جس کا تعلق کمپیوٹر سے ہوں، ان فائلوں کی جانچ پڑتال بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ یہ کئی رازوں سے پردہ اٹھا سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے ٹولز بہت ہی کم تعداد میں ہیں جو ان مخصوص فائلوں کی پڑتال کرکے ہمیں خفیہ معلومات فراہم کرسکیں اور جو ٹولز موجود ہیں، وہ مفت نہیں ہیں۔ اسی لئے ریسرچرز نے کڑی محنت کے بعد ’’پاسکو (Pasco)‘‘ نامی ٹول تیار کیا ہے جو بالکل مفت ہے۔
لفظ پاسکو لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’Browse‘‘ ۔ اسے تیار کرنے کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ ایکسپلورر جو دنیا کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ویب برائوزرز میں دوسرے نمبر پر ہے، کی activityفائلز کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔ پاسکو index.dat نامی فائل جس میں انٹرنیٹ ایکسپلورر اہم اعمال محفوظ کرلیتا ہے، کا تجزیہ کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتاہے۔
فورینسک جانچ کی غرض سے سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ index.dat فائلیں کیا ہیں اور انہیں کیوں ایک اہم فورینسک ثبوت سمجھا جاتا ہے اور یہ کہاں مل سکتی ہیں، اس کے بعد ہم پاسکو پر مختصراً نظر ڈالیں گے اور اس کے مثبت اور منفی پہلووں کا جائزہ لیں گے اور تحقیق کار کے کمپیوٹر پر اسے نصب کرنا سیکھیں گے، پاسکو کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ہم آخر میں اسی طرح کے دیگر پروگراموں کا مختصر تعارف بھی پیش کریں گے۔
انٹرنیٹ ایکسپلورر ان فائلوں کا استعمال ورژن 4 سے کر رہا ہے۔ اس فائل میں صارف کی طرف سے دیکھی گئی تمام ویب سائٹس، کوکیز، تلاش اور بعض اوقات کچھ فائلوں اور فولڈروں کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ ایکسپلورر کو اس فائل کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟
جب بھی کوئی صارف کسی ویب سائٹ کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس ویب سائٹ کا بیشتر مواد ہارڈ ڈسک پر محفوظ کر لیا جاتا ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر صارف اسی ویب سائٹ کو دوبارہ کسی وقت طلب کرے تو ویب سائٹ کو دوبارہ لوڈ کرنے کی بجائے ہارڈ ڈسک پر محفوظ مواد کو ہی دوبارہ سے پیش کردیا جائے جس سے نہ صرف بینڈوڈتھ کی بچت ہوتی ہے بلکہ رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ ایکسپلورر میں تمام عارضی فائلوں کی تفصیلات index.dat نامی پوشیدہ فائل میں محفوظ کی جاتی ہے۔
اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اس میں ملزم کی ان تمام کاروائیوں کا ریکارڈ ہوتا ہے جو اس نے انٹرنیٹ ایکسپلورر کو استعمال کرتے ہوئے انجام دی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ فائل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ملزم نے کس ویب سائٹ کو آخری دفعہ کب دیکھا جس کی وجہ سے کسی طرح کے کیس کی تحقیق کے سلسلے میں یہ معلومات کافی مفید اور اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔ خاص طور سے جبکہ یہ فائل پوشیدہ ہوتی ہے اور عام صارف آسانی سے اس میں کسی طرح کی تبدیلی کرنے یا حذف کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس فائل میں موجود ڈیٹا اسے کسی بھی کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں ایک اہم ثبوت فراہم کرتا ہے جو ملزم نے انٹرنیٹ ایکسپلورر کو استعمال کرتے ہوئے انجام دی ہوتی ہیں۔
یہاں یہ بات نوٹ فرمائیں کہ اس فائل کو صرف انٹرنیٹ ایکسپلورر ہی استعمال کرتا ہے۔ دیگر ویب برائوزر اس فائل پر نہ تو انحصا رکرتے ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں۔ اس کے بجائے ان کے اپنے نظام ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر موزیلا فائر فاکس ایک سے زائد فائلوںمیں صارف کی دیکھی ہوئی ویب سائٹس اور اس سے متعلق دیگر ڈیٹا محفوظ کرتا ہے۔ یہ فائلیں فائر فاکس کے ڈیٹا فولڈر میں موجود ہوتی ہیں۔

 index.dat ؟

عام طور پر یہ سسٹم کے اس فولڈر میں ہوتا ہے جہاں صارف کے انسٹال کئے ہوئے تمام پروگرام اپنا ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں جیسے Application Dataکا فولڈر۔ ذیل میں ونڈوز کے مختلف نسخوں میں فورینسک تحقیق کاروں کی طرف سے استعمال کی جانے والی زیادہ تر فائلوں کا پاتھ درج ہے:
٭…ونڈوز 7 اور ونڈوز وستا:
aC:\Users\Roaming\Microsoft\
Windows\Cookies\index.dat
aC:\Users\Roaming\Microsoft\
Windows\Cookies\Low\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\
Windows\History\History.IE5\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\
Windows\History\History.IE5\Low\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\
Windows\History\History.IE5\index.dat\
MSHistXXXXXXX\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\Windows\
History\History.IE5\Low\index.dat\
MSHistXXXXX\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\Windows\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Users\Local\Microsoft\Windows\Temporary Internet Files\Low\Content.IE5index.dat
aC:\Users\Roaming\Microsoft\Internet Explorer\UserData\index.dat
aC:\Users\Roaming\Microsoft\Internet Explorer\UserData\Low\index.dat
٭…ونڈوز ایکس پی اور ونڈوز 2000:
aC:\Documents and Settings\Cookies\index.dat
aC:\Documents and Settings\Local Settings\History\History.IE5\index.dat
aC:\Documents and Settings\LocalSettings\
History\History.IE5\MSHistXXXXXXXXXXX\index.dat
aC:\Documents and Settings\Local Settings\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Documents and Settings\UserData\index.dat
٭…ونڈوز ایم ای،98،95 اور ونڈوز این ٹی:
aC:\Windows\Cookies\index.dat
aC:\Windows\History\index.dat
aC:\Windows\History\MSHisXXX\index.dat
aC:\Windows\History\History.IE5\index.dat
aC:\Windows\History\History.IE5\XXX\index.dat
aC:\Windows\Temporary Internet Files\index.dat
aC:\Windows\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Windows\UserData\index.dat
aC:\Windows\Profiles\Cookies\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\MSHisXX\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\History.IE5\index.dat
aC:\Windows\Profiles\History\History.IE5\
MSHistXXXXXXX\index.dat
aC:\Windows\Profiles\Temporary Internet Files\index.dat
aC:\Windows\Profiles\Temporary Internet Files\Content.IE5\index.dat
aC:\Windows\Profiles\UserData\index.dat
یہ جاننے کے بعد کہ index.dat فائلیں کیا ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے ہم اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں اور ان فائلوں کو اینالائز کرنے والے ٹول پاسکو پر نظر ڈالتے ہیں۔
پاسکو ایک سی ایل آئی پروگرام ہے، ہم جس ورژن پر بات کریں گے وہ پاسکو کا پہلا اور آخری ورژن ہے جسے 2003 ء میں جاری کیا گیا تھا۔ اس ٹول کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ ایک آزاد مصدر یعنی اوپن سورس سافٹ ویئر ہے چنانچہ یہ نہ صرف مفت ہے بلکہ کوئی بھی اس میں اپنی مرضی کی تبدیلی کرنے اور اسے مزید بہتر کر کے ترقی دینے میں آزاد ہے۔ یہ درحقیقت ایک ریسرچ پراجیکٹ تھا۔ اسے ڈائون لوڈ کرنے کے لئے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:
http://www.mcafee.com/us/downloads/free-tools/pasco.aspx
پاسکو کو تمام بنیادی آپریٹنگ سسٹمز پر چلایا جاسکتا ہے جیسے ونڈوز (بذریعہ cygwin)، میک، لینکس اور فری بی ایس ڈی۔ یقیناً پاسکو کو کام کرنے کے لیے index.dat فائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی یہ خود فائل کو تلاش نہیں کرے گا بلکہ آپ کو اسے فائل فراہم کرنی ہوگی تاکہ وہ اس کا تجزیہ کرسکے۔
1- مفت اور آزاد مصدر
2- ٹرمنل کے ذریعے آسان استعمال
3- ہر آپریٹنگ سسٹم پر کام کرنے کی صلاحیت
منفی پہلو:
1- ٹول کسی حد تک پرانا ہے
2- پہلی ریلیز کے بعد سے اسے بہتر کرنے کے لیے کبھی کام نہیں کیا گیا
3- دیگر کئی خوبیوں کی کمی جنہیں آسانی سے شامل کیا جاسکتا تھا
4- index.dat فائلوں کو تلاش نہیں کر سکتا
5- صرف انٹرنیٹ ایکسپلورر کے لیے!
پاسکو ایک زپ فائل کی شکل میں ڈائون لوڈ ہوتا ہے۔ اسے ان زپ کرنے پر  ذیل کے فولڈر نمودار ہوں گے:
bin : ونڈوز کے صارفین کو اس ڈائریکٹری میں ونڈوز کے لیے پہلے سے کمپائل اور cygwin1.dll فائل کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار نسخہ مل جائے گا۔
src :اس ڈائریکٹری میں پروگرامر حضرات کے لیے اس کا سورس کوڈ موجود ہے جو سی لینگویج میں لکھا گیا ہے۔
Readme.txt: تنصیب وغیرہ کے لیے پروگرامر کی طرف سے کچھ ہدایات۔اسے پڑھنا کافی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
لینکس میں تنصیب (انسٹالیشن) کے لیے پاسکو کے فولڈر میں رہتے ہوئے یہ کمانڈز بالترتیب چلائیں:
$ cd  src
$ make
اگرچہ ونڈوز کے لیے ایک کمپائل شدہ تیار نسخہ موجود ہے تاہم اگر آپ سورس کوڈ سے کمپائل کرنا چاہیںسورس فائل(جسے Cلینگویج میں لکھا گیا ہے)srcکے فولڈر میں موجود ہے۔
استعمال کا طریقہ:
پاسکو کو ٹرمنل سے چلانے پر یہ آؤٹ پٹ حاصل ہوتی ہے:
Usage: pasco [options] <filename>
-d Undelete Activity Records
-t Field Delimiter (TAB by default)
پاسکو استعمال میں از حد آسان ہے۔ اس کے لیے کسی سابقہ تجربے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس میں صرف دو ہی سوئچ ہیں ۔ یعنی -d اور -t
index.dat فائل کو پڑھنے کے لیے یہ کمانڈ چلائیں:
pasco path-to-index.dat
یہ کمانڈ index.dat سے معلومات کشید کرنے کے لیے کافی ہے تاہم ہم آپ کو اس فائل کو پڑھنے کے لیے اس سے بہتر طریقہ بتائیں گے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ پاسکو کے کام کرنے لیے index.dat فائل کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا تحقیق کار کو چاہیے کہ وہ ملزم کے کمپیوٹر سے اس فائل کو حاصل کرے، ہم اپنے پاس دستیاب ایک index.dat کو استعمال کریں گے۔
سابقہ کمانڈ سے index.dat کو پڑھنا کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ہے کیونکہ فائل میں کئی ریکارڈ ہوں گے جس کی وجہ سے آؤٹ پٹ کچھ اتنی اچھی نہیں ملے گی، پائپ pipes کی کمانڈ حاصل کردہ ڈیٹا کو بہتر طور پر پڑھنے میں مدد دے سکتی ہے مگر یہ کافی نہیں، بہتر یہی ہے کہ ڈیٹا کو index.xls یعنی ایکسل کی سپریڈ شیٹ میں بدل دیا جائے تاکہ ڈیٹا کو بہتر طور پر پڑھنے میں آسانی ہو۔
pasco index.dat > index.xls
مندرجہ بالا کمانڈ آؤٹ پٹ چھپا دے گی مگر فکر نہ کریں، کیونکہ آؤٹ پٹ ڈیٹا اب ایک ایکسل کی سپریڈ شیٹ میں جس کا نام index.xls ہے بڑے منظم انداز میں پڑھنے کے لیے دستیاب ہے۔ طے شدہ طور پر پاسکو خانوں کے انتخاب کے لیے ٹیب TAB کا استعمال کرتا ہے لہٰذا ہماری تجویز بھی یہی ہے کہ اسے ایسے ہی رہنے دیا جائے اور کسی صورت میں -tکا سوئچ استعمال نہ کیا جائے۔
حاصل کردہ ایکسل کی سپریڈ شیٹ کھولیں تو ہمیں اس میں سارا ڈیٹا بڑے منظم انداز میں ملے گا۔ TYPE کا کالم اس سرگرمی کی نشاندہی کرتا ہے جو ملزم نے انجام دی ہے۔ اس کے ذیل میں ظاہر ہونے والی قسمیں بالترتیب URL, REDR اور LEAK ہیں۔
URL: کا مطلب یہ ہے کہ ملزم نے یہ ریکارڈ براؤزنگ کے دوران حاصل کیا.
REDR: کا مطلب ہے کہ ملزم اس ریکارڈ تک کسی دوسرے پتے سے آیا ہے یعنی براؤزر سے ری ڈائریکٹ ہوکے۔
LEAK: یہ عموماً -dکا آپشن استعمال کرنے کی صورت میں نظر آتا ہے اب چونکہ انٹرنیٹ ایکسپلورر آزاد مصدر براؤزر نہیں ہے چنانچہ ماہرین اس سرگرمی پر کوئی حتمی فیصلہ دینے سے قاصر ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس میں اور URL میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں سرگرمیوں کی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔
یو آر ایل URL کا کالم ان روابط پر مشتمل ہوتا ہے جن کا ملزم نے مشاہدہ کیا ہوتا ہے۔
موڈیفائیڈ ٹائم Time Modified کا کالم ملزم کی طرف سے دیکھے گئے کسی صفحے کی آخری تبدیلی دکھاتا ہے، براؤزر یہ قدر صفحے کی معلومات سے حاصل کرتا ہے اور ملزم کا اس میں کوئی اختیار یا اثر نہیں ہے۔
ایکسس ٹائمAccess Time کا کالم اہم ہے کیونکہ یہ بتاتا ہے کہ ملزم نے کسی ریکارڈ/ربط کا کب مشاہدہ کیا تھا، اس میں دن تاریخ اور وقت بڑی صراحت سے موجود ہوتا ہے۔
ڈائریکٹری DIRECTORY کا کالم ایک اتفاقی/رینڈم پاتھ دکھاتا ہے جو براؤزر عارضی فائلوں کو محفوظ کرنے کے لیے بناتا ہے تاکہ جب صارف دوبارہ وہ ربط طلب کرے تو وہ اسے اس ڈائریکٹری سے اٹھا کر پیش کردے۔
HTTP HEADER یہ ہیڈر سے متعلق معلومات دکھاتا ہے۔
HTTP/1.1 200 OK Content-Type: image/jpeg Keep-Alive: timeout=20, max=541 ETag: “6144-f36ea300″ Content-Length: 24900 ~U:ifun
شروع کا حصہ HTTP/1.1 200 OK ایچ ٹی ٹی پی سرور کا ورژن ہے جبکہ 200 کا مطلب ہے کہ عمل کامیابی سے انجام پایا۔
کانٹینٹ ٹائپ Content-Typeکا مطلب اس مواد کی نوعیت ہے۔جس کا مشاہدہ کیا گیا اور اس کے آگے image/jpeg کا ہونا بتاتا ہے کہ یہ ایک تصویر تھی۔
Keep-Alive timout=20 سیکنڈوں میں براؤزر کی ہر درخواست کی نشست کی مہلت ہے، Max=541 ان درخواستوں کی تعداد ہے جو ایچ ٹی ٹی پی سرور سے طلب کی جاسکتی ہیں۔
ETag ایک خاص علامت جو مصدر کی حالت کو بیان کرتی ہے اور ضرورت پر بنائی جاتی ہے۔
Content-Length مواد کا ممکنہ حجم ہے۔
~U اس کمپیوٹر کا نام جس نے ایڈریس طلب کیا۔
Undelete activity records
پاسکو کو اس آپشن سے چلانے پر وہ کوشش کرے گا کہ حذف شدہ ریکارڈ بحال کیے جاسکیں اور ممکنہ حذف شدہ انٹریز بھی رپورٹ میں شامل ہوں۔ ہمارے تجربے کے مطابق اس آپشن سے بھی اس نے اتنی ہی انٹریز دکھائیں جو عام کمانڈ سے دکھائی تھیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ اس کمانڈ سے حاصل کردہ فائل سادہ کمانڈ سے حاصل کردہ فائل سے مختلف ہے ہم نے ان دونوں فائلوں کا md5sum حاصل کیا اور حاصل ایک ہی رہا تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوگا۔ لہٰذا تجویز دی جاتی ہے کہ ہمیشہ دونوں طریقے استعمال کر کے رپورٹ حاصل کی جائے۔
اگرچہ پاسکو ایک چھوٹا سا مگر فعال ٹول ہے تاہم پرانا ہے، پروگرامر نے 2003 میں اسے جاری کرنے کے بعد اس پر توجہ نہیں دی، اگر کوئی پاسکو کو مزید بہتر کرنا چاہے تو ہمارے خیال سے مندرجہ ذیل تجاویز اہم ہیں:
1- پاسکو کو دیگر براؤزروں کی .dat فائلیں پڑھنے کے قابل ہونا چاہیے کیونکہ اب صرف ایکسپلورر کا راج نہیں اور صارفین دیگر براؤزر بھی استعمال کرتے ہیں!
2- پاسکو میں index.dat فائلیں تلاش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
3- اگر index.dat فائل کے حاصل کردہ نتائج کو ایکسل کی بجائے یا اس کے ساتھ ساتھ ایچ ٹی ایم ایل HTML میں بھی حاصل کرنے کی صلاحیت ہو تو یہ ہمارے خیال سے بہتر ہوگا۔
اگرچہ پاسکو ضرورت پوری کرتا ہے اور index.dat فائلوں سے تمام ڈیٹا حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے تاہم کچھ دیگر پروگرام بھی ہیں جو پاسکو سے کہیں بہتر ہیں۔
یہ ایک جی یو آئی پروگرام ہے اور اس ضمن میں اس کا شمار بہترین پروگراموں میں ہوتا ہے۔ تاہم اس کی ایک خامی یہ ہے کہ یہ صرف ونڈوز پر کام کرتا ہے۔ اگرچہ یہ تمام ویب براؤزرز کو سپورٹ کرتا ہے جو خوبی پاسکو میں نہیں۔ یہ پروگرام پورے آپریٹنگ سسٹم میں براؤزنگ کے ریکارڈ تلاش کر کے خودکار طور پر ایک رپورٹ بھی تیار کردیتا ہے جس میں صارف کی تمام تر سرگرمیاں موجود ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات کروم براؤزر کے ویب سائٹوں کے سکرین شاٹ بھی نکال لیتا ہے جن کا صارف نے مشاہدہ کیا ہوتا ہے۔
1- ڈیٹا کو فلٹر کرنے کی صلاحیت جس سے مثبت طور پر کسی کیس کو حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور ڈیٹا کے انبار میں تلاش پر وقت ضائع نہیں ہوتا۔
2- صارف کے تمام ریکارڈ منظم اور آسان انداز میں پیش کرتا ہے۔
3- پروگرام ہر ویب سائٹ کا ایک تعارفی کارڈ بناتا ہے جس سے برملا طور پر یہ جاننے میں آسانی ہوتی ہے کہ ملزم نے جس سائٹ کا مشاہدہ کیا ہے اس کی سرگرمیاں کیا ہیں۔
4- مشہور ویب براؤزرز کو سپورٹ کرتا ہے جیسے فائر فاکس، گوگل کروم، انٹرنیٹ ایکسپلورر وغیرہ۔
ڈائون لوڈ کرنے کے لئے یہ لنک ملاحظہ کیجئے:

تجارتی طور پر دستیاب ایک بہترین پروگرام جس کا مواجہ دیگر کسی بھی پروگرام سے مختلف ہے، آپ اس سے آسانی سے تمام ریکاڈ نہ صرف حاصل کر سکتے ہیں بلکہ پروگرام کے اندر موجود ایگ چھوٹی سی ونڈو میں ان کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ یہ کسی بھی ہارڈ ڈسک کی اینالائزنگ بھی کر سکتا ہے، مزید برآں یہ ریم میں موجود ڈیٹا بھی اینالائز کر سکتا ہے اور اس میں فحش تصاویر کو دریافت کرنے کا ایک نظام بھی موجود ہے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ پاسکو ایک چھوٹا مگر فعال ٹول ہے جو اپنا کام بہترین انداز میں انجام دیتا ہے، یہ اوزار تحقیق کار کو index.dat فائلوں سے برقی ثبوت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے اور ڈیٹا کو کامیابی سے اینالائز کرتا ہے، کسی بھی تحقیق میں ہم اس پروگرام کے استعمال کی بڑی شدت سے تجویز دیتے ہیں اگرچہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاسکو میں فائلوں کو تلاش کرنے اور دیگر براؤزرز کی فائلوں کو اینالائز کرنے کا عنصر مفقود ہے تاہم اگر اسے یہ خوبیاں حاصل ہوجائیں تو یہ اپنی آسانی، سادگی اور برق رفتاری کی وجہ سے اپنے شعبے کا ایک بہترین پروگرام ثابت ہوگا۔    ٭٭

انٹرنیٹ کنکٹویٹی



حال ہی میں ایک ریسرچ گروپ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ نے کمپیوٹرز بنانے والے اداروں کی ہوش اُڑا دیئے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پرسنل کمپیوٹر خریدنے والے صارفین کی تعداد بہت تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ انٹل جیسی بڑی کمپنی بھی اس رپورٹ کے نتیجے میں ہل کر رہ گئی اور اے یم ڈی جو پہلی ہی موت و زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے، کہ لئے یہ زہر قاتل ثابت ہورہی ہے۔لیکن  آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟
ریسرچرز کے مطابق اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز نے صارفین کی ترجیحات بدل دی ہیں۔ پرسنل کمپیوٹر رکھنے والے بیشتر صارفین اسے صرف ای میلز چیک کرنے یا انٹرنیٹ برائوزنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اب جبکہ یہ سہولت اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس میں بہت خوب موجود ہے، اس لئے پرسنل کمپیوٹرز کی طلب میں کمی واقع ہورہی ہے۔ انٹل کو اس میدا ن میں ARM کی شکل میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ انٹل نے بھی اس میدان میں بھی اترنے میں دیر کردی لیکن وہ پھر بھی فٹا فٹ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کے لئے پروسیسرز متعارف کروانے میں کامیاب ہوگیا جبکہ اے ایم ڈی تو سُتا ہی رے گیا!
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ایک اور رپورٹ کے مطابق مائیکر وسافٹ کا کمپیوٹرز کی دنیا میں حصہ جو پہلے 80فی صد کے لگ بھگ تھا، پچھلے سات سالوں میں کم ہوکر صرف 20%فی صد رہ گیا ہے۔ جبکہ اسی عرصے میں گوگل اور ایپل کے حصے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ وجہ؟ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس! گوگل نے مارکیٹ کے بہائو کو بھانپتے ہوئے اپنے توجہ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی طرف مرکوز کرلی لیکن مائیکروسافٹ مارکیٹ کی اس تبدیلی کو پہچانے میں ناکام رہا اور اپنے سرفس ٹیبلٹ اور ونڈوز فون آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ بہت دیر سے مارکیٹ میں داخل ہوا جہاں پہلے ہی اس کے حریف و حلیف پنجے گاڑے بیٹھے ہیں۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں ٹیبلٹس اور اسمارٹ فونز جو پہلے ہی عام ہیں، اتنے زیادہ عام ہوجائیں گے کہ پرسنل کمپیوٹرز کو صرف مخصوص کاموں کیلئے استعمال کیا جانے لگے گا۔ ماہرین کے مطابق ٹیبلٹس کمپیوٹر 2016ء تک لیپ ٹاپس کو بالکل پیچھے چھوڑ چکے ہونگے۔
اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی مانگ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ایپل اپنے آئی فون اور آئی پیڈ کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ توشیبا، ایمازون، لنیوو، آسُس، ہٹاچی، سام سنگ، ایسر، گوگل سمیت درجنوںکمپنیاں ٹیبلٹس بنا رہی ہیں جن کی قیمت چند ہزار روپوں سے لاکھوں روپوں تک ہے۔ اگر صرف ایپل آئی پیڈ کی ہی بات کی جائے تو اس کی کم از کم قیمت 500ڈالر یعنی کم و بیش اڑتالیس ہزار پاکستانی روپے ہے۔ دیگر کمپنیوں کے بنائے ہوئے ٹیبلٹس کی قیمت اگرچہ اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن پاکستانی مارکیٹ کے حساب سے پھر بھی بہت زیادہ ہے۔
جس طرح پاکستانی مارکیٹ میں چائنا کے موبائل فونز نے موبائل فونز بنانے والی کمپنیوں کی ناک میں دم کررکھا ہے، اسی طرح چائنا کی ٹیبلٹس بھی ہمارے یہاں اب عام دستیاب ہیں جن کی قیمت چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتی!
ہمارے مشاہدے میں چائنا کے ایسے ٹیبلٹس بھی آئے ہیں جن کی قیمت صرف چھ ہزار روپے تھی!
چائنا کے موبائل فون ہمارے یہاں ویسے بھی بدنام ہے۔ ان کی کارکردگی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن چونکہ یہ انتہائی سستے ہوتے ہیں ، اس لئے یہ عام بھی ہیں۔ ان کے بارے میں اکثر لوگ کہتے سنے گئے ہیں کہ ’’چائنا کا موبائل، چلے تو چاند تک، ورنہ شام تک‘‘۔ یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔ چونکہ ان موبائل فونز کو بنانے میں معیار کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا، اس لئے ان کی کارکردگی بھی واجبی سی ہی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موبائل فونز کی طرح چائنا کے ٹیبلٹس بھی اتنے ہی بیکار ہوتے ہیں؟ ہم اسی سوال کا جواب اس مضمون میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
کسی بھی ٹیبلٹ کی کارکردگی کا دارومدار چند اہم چیزوں جیسے پروسیسر، ٹچ اسکرین، بیٹری ، آپریٹنگ سسٹم وغیرہ پر ہوتا ہے۔ ہم ان سب کا جائزہ یکے بعد دیگرے لیتے ہیں۔
ایپل ، سام سنگ وغیرہ اپنے ٹیبلٹس میں ARM پروسیسرز ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ پروسیسر ARM کمپنی صرف ’’ڈیزائن‘‘ کرتی ہے اور دیگر کمپنیاں اس ڈیزائن کو لائسنس پر لے کر پروسیسر تیار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ARMپروسیسر بنانے والی کوئی ایک کمپنی نہیں، بلکہ درجنوں یا شاید سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ARM پروسیسرز کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مائیکروسافٹ نے ونڈوز 8 کے لئے خاص طور پر اس کی سپورٹ شامل کی ہے۔ ایپل کے بارے میں بھی افواہ گرم ہے کہ وہ میک کمپیوٹرز کو انٹل کے پروسیسرز سے شاید ARM پروسیسرز کی جانب لے جائے۔
ٹیبلٹس میں Cortex-A سیریز کے پروسیسرز استعمال ہوتے ہیں۔ Cortex-A5 پروسیسرز بہت عام ہیں اور پرانے بھی۔ ان کی رفتار 300تا 800میگا ہرٹز تک ہوتی ہے۔ A8پروسیسرز سنگل کوراور dualکور ہوتے ہیں ۔ ان کی ملٹی میڈیا کارکردگی بھی بہت خوب ہوتی ہے۔ ان کی رفتار 600میگا ہرٹز تا 1.5گیگا ہرٹز تک ہوتی ہے۔ Cortex-A9 پروسیسرز نئے اور جدید ٹیبلٹس میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ڈوئل کور ہوتے ہیں اور ان کی رفتار کی حد 600 میگا ہرٹز تا 1.2گیگا ہرٹز ہوتی ہے۔ ہر پروسیسر بنانے والی کمپنی ان پروسیسرز میں کسی حد تک تبدیلی بھی کرلیتی ہے لیکن ان کا بنیادی ڈیزائن وہی ہوتاہے۔ اس لئے آئی فون میں نصب A5 چپ جو Cortex-A9 پر مبنی ہے اور کسی دوسری کمپنی کے بنائے ہوئے Cortex-A9 چپ میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہوتا اور ان کی رفتار بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ چینی ٹیبلٹس میں بھی یہی پروسیسرز استعمال ہوتے ہیں۔ آپ کو دیکھنا یہ ہوگا کہ جو ٹیبلٹ آپ خرید رہے ہیں اس میں Cortex-A سیریز کا کون سا پروسیسر نصب کیا گیا ہے اور وہ کتنی coresکا حامل ہے۔ بیشتر چینی ٹیبلٹس میں آپ کو AllWinner کمپنی کے بنائے ہوئے ARMپروسیسرز ملیں گے۔ اگر ٹیبلٹ میںCortext-A9یا جدید ترین Cortext-A15 نصب ہے تو ٹیبلٹ کی رفتار سے آپ مطمئن ہوسکتے ہیں۔
چینی ٹیبلٹس کے سستے ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں گوگل اینڈروئیڈ انسٹال ہوتا ہے جو کہ مفت ہے۔ ایپل آئی پیڈ میں iOS انسٹال ہوتا ہے جو کہ ایپل کی اپنی جاگیر ہے۔ لہٰذا اس کی ڈیویلپمنٹ پر اٹھنے والے اخراجات بھی ایپل اپنے صارفین سے وصول کرتا ہے۔ اینڈروئیڈ کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔ گوگل نے اس آپریٹنگ سسٹم کو اوپن سورس رکھا ہے یعنی اس کا تمام سورس کوڈ ڈائون لوڈنگ کے لئے دستیاب ہے۔ جس کی وجہ سے چینی ’’ماہرین‘‘ بڑی ہی مہارت سے اینڈروئیڈ میں اپنے ٹیبلٹ کے مطابق تبدیلیاں کرلیتے ہیں۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ ایپلی کیشنز ان پر چلتی ہی نہیں۔ چینیوں کی ’’مہارت‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ دنیا کا پہلا ٹیبلٹ جس پر اینڈ روئیڈ آئس کریم سینڈوچ 4.0 انسٹال تھا، چینی کمپنی نے ہی بنایا تھا۔
چینی کمپنی کی اس شعبے میں مہارت کے پیچھے مغربی دنیا کی کمپنیوں کا ہی ہاتھ ہے۔ اس وقت ہر بڑی کمپیوٹر کمپنی، چاہے وہ انٹل ہو یا ایپل، ڈیل ہو یا ایچ پی اپنی مصنوعات چین میں ہی بنوارہی ہے۔ ایپل بھلے ہی امریکی پراڈکٹ ہو، لیکن بنتی چین میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں ماہرین کی ایک پوری نسل تیار ہوچکی ہے جسے کمپیوٹر مصنوعات بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ اسی مہارت کا نتیجہ ہے کہ چینی کنزیومر الیکٹرانکس میں اب چھا گئے ہیں۔
کچھ چینی ٹیبلٹ آپ کو ایسے بھی ملیں گے جن میں ونڈوز سی ای انسٹال ہوگی لیکن ایسے ٹیبلٹس کی تعداد کافی کم ہے۔ کچھ لینکس پر مبنی ٹیبلٹس بھی آپ کو نظر آسکتے ہیں لیکن آپ کو ننانوے فیصد ایسے ہی ٹیبلٹ ملیں گے جن میں گوگل اینڈروئیڈ انسٹال ہوگا۔ اگر آپ ایسا کوئی ٹیبلٹ خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس بات کی یقین دہانی کرلیں کہ اس پر آپ کی ضرورت کی تمام ایپلی کیشنز جیسے اسکائپ وغیرہ چلتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا، چینی ٹیبلٹس میں اینڈروئیڈ عموماً customized ہوتا ہے، اس لئے ضروری نہیں کہ گوگل Play Store پر دستیاب ہر ایپلی کیشن اس پر چل جائے۔
ان ٹیبلٹس کے ساتھ ایک مسئلے اپ گریڈ کا بھی ہے۔ شاذو نادر ہی کوئی ایسا چینی ٹیبلٹ ملتا ہے جس کا آپریٹنگ سسٹم اپ گریڈ کیا جاسکتا ہو۔ اینڈروئیڈ کے حوالے سے مخصوص فورمز پر کچھ فرم ویئر اپ ڈیٹس ملتی ہیں لیکن انہیں استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ٹیبلٹ بنانے والے کی جانب سے آپ امید نہ رکھیں کہ کوئی اپ ڈیٹ ریلیز کی جائے گی۔
ایپل آئی پیڈ کی اسکرین کا سائز متعین ہے۔ ایسا نہیں کہ مختلف سائز کے ٹیبلٹس دستیاب ہوں۔ لیکن دیگر تمام کمپنیاںجو ٹیبلٹ بنا رہی ہیں، اپنے مصنوعات مختلف سائز میں پیش کرتی ہیں۔ چائنا کے ٹیبلٹ بھی آپ کو پانچ سے لیکر دس انچ کے سائز میں مل جائیں گے اور وہ بھی رنگ برنگے!
جن چینی ٹیبلٹس کی قیمت کم ہوتی ہے، ان کی اسکرین اتنی شاندار نہیں ہوتی۔ رنگ پھیکے اور چمک بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن وہ ٹیبلٹ جو قدرے مہنگے ہیں (دس ہزار سے زائد قیمت والے) ان کی اسکرین عموماً گزارے لائق ضروری ہوتی ہیں۔ یہاں معاملہ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا کہ مصداق جتنا مہنگا ٹیبلٹ ہوگا، اس کی اسکرین اتنی ہی بہترین ہوگی۔ البتہ چینی ٹیبلٹس میںآپ ’’ریٹینا ‘‘ جیسے ریزلٹ ڈھونڈ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔اسکرین کے سائز کے ساتھ ساتھ اس کی ریزولوشن بھی بہت اہم ہے۔ اگر آپ ٹیبلٹ پر ایچ ڈی موویز دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سلسلے میں ریزولوشن بہت اہم ہے۔
اگر آپ نے ایپل ، سام سنگ یا کسی دوسری ’’برانڈڈ‘‘ کمپنی کا کوئی ٹیبلٹ استعمال کررکھا ہے تو چینی ٹیبلٹس میں آپ کو اس بات کا شدت سے احساس ہوگا کہ ان کا ’’ٹچ‘‘ اتنا مزیدار نہیں جتنا کہ برانڈڈ ٹیبلٹس کا ہے۔ یہ ایک ایسی وجہ ہے جو اکثر لوگوں کو چائنا کے ٹیبلٹ خریدنے سے باز رکھتی ہے۔
ٹیبلٹ خریدتے ہوئے اس بات کو ضرور مدنظر رکھیں کہ آیا وہ ملٹی ٹچ ہے کہ نہیں۔ چینی ٹیبلٹس عموماً ملٹی ٹچ ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی احتیاطاً اسے ضرور چیک کرلیں۔
اسٹوریج میڈیا اب انتہائی سستے ہوچکے ہیں۔ 2GBکی یو ایس بی جو آج سے چند سال پہلے تک ہزاروں روپے کی ملتی تھی، اب صرف دو سو روپے میں مل جاتی ہے۔ قیمت میں اس کمی کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ٹیبلٹس چاہے وہ برانڈڈ ہوں یا چائنا کے، ان میں کئی کئی گیگا بائٹس کی گنجائش ہوتی ہے۔ ایپل آئی پیڈ کی اسٹوریج میں آپ اضافہ نہیں کرسکتے، لیکن چائنا کے ٹیبلٹس میں آپ مائیکروایس ڈی کارڈ لگا کر اس کی گنجائش میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔
چینی ٹیبلٹ اسٹوریج کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی فراغ دل واقع ہوئے ہیں۔ ان میں اسٹوریج کی کوئی کمی نہیں۔ دس ہزار روپے والے ٹیبلٹ میں آپ کو 8گیگا بائٹس تک کی گنجائش بہ آسانی مل جائے گی جسے آپ مائیکرو ایس ڈی کارڈ لگا کر مزید بڑھا سکتے ہیں۔ 16جی بی والے ٹیبلٹس کی قیمت بھی ایک دو ہزار روپے ہی زائد ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر آئی پیڈ کی بات کی جائے تو 16جی بی اور 32جی بی کے آئی پیڈ میں ہزاروں روپے کا فرق ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بیٹری ٹائمنگ چائنا ٹیبلٹس کی سب سے بڑی خامی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہمارے مشاہدے میں اب تک ایسا کوئی چینی ٹیبلٹ نہیں آیا جس کی بیٹری ٹائمنگ تین چار گھنٹوں سے زائد ہو۔ بیشتر ٹیبلٹس 2گھنٹے سے زائد نہیں چلتے۔ اسٹینڈ بائے ٹائم بھی انتہائی کم ہوتا ہے جو بعض اوقات پانچ ، چھ گھنٹے بھی نہیں ہوتا۔ اگر آپ ان ٹیبلٹس پر کوئی ویڈیو دیکھنے بیٹھ جائیں تو پھر اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ مووی ختم ہونے سے پہلے بیٹری ’’پھک‘‘ جائے گی۔ یہ خامی آپ کو برانڈڈ ٹیبلٹس میں نظر نہیں آئے گی۔ آئی پیڈ کئی کئی گھنٹے بہت آرام سے چل سکتا ہے۔ جبکہ سام سنگ، لینوو، توشیبا کے ٹیبلٹس کی بیٹری ٹائمنگ بھی شاندار ہوتی ہے۔
ہماری نظر میں چینی ٹیبلٹ انٹرنیٹ برائوزنگ اور ویڈیو گیم کھیلنے کی حد تک تو بہترین ہیں، لیکن اگر آپ اسے موویز دیکھنے کیلئے خریدنا چاہ رہے ہیں تو پھر آپ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ سستے چینی ٹیبلٹ کے بجائے کوئی برانڈڈ ٹیبلٹ خریدنے کو ترجیح دیں۔ ضروری نہیں کہ آپ آئی پیڈ ہی خریدیں۔ سونی ایکسپیریا، توشیبا ، ہنڈائی ، گوگل نیکسس وغیرہ اگرچہ چینی ٹیبلٹس سے مہنگے ہیں لیکن آئی پیڈ سے پھر بھی کافی سستے ہیں اور ان میں اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم بھی ہوتاہے جو بذات خود ایک نعمت کی طرح لگتا ہے۔سستا ٹیبلٹ ہر چھ ماہ بعد نیا خریدنے سے بہتر ہے، ایک ہی اچھا ٹیبلٹ خریدیں اور اسے کم از کم سال بھر بے فکر ہوکر چلائیں۔چینی ٹیبلٹسکے ساتھ لیپ ٹاپس والا معاملہ بھی نہیں کہ بیٹری خراب ہوجانے کے بعد دوسری بیٹری لگا لی جائے۔ اگر ایک بار ان کی بیٹری خراب ہوگئی تو سمجھیں پورا ٹیبلٹ ہی بیکار ہوگیا۔ اب یہ صرف اسی وقت چلے گا جب آپ اسے چارجر سے لگا کر رکھیں گے اور بجلی بھی ہوگی جو بذات خود پاکستان میں ایک مسئلہ ہے! اس کے مقابلے میں برانڈڈ ٹیبلٹس کے پارٹس بشمول بیٹری کہیں اور نہیں تو ان کے اپنے سروس سینٹرز پر مل ہی جاتے ہیں۔
بیٹری کا معاملہ ایسا ہے جسے آپ بہ آسانی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اگر آپ نے ایک ایسا ٹیبلٹ خرید لیا جو صرف ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی جواب دے جاتا ہے، تو بھلے ہی آپ نے اسے دس ہزار روپے کا خریدا ہو، کسی طور پر سود مند نہیں۔ تاہم سب چینی ٹیبلٹس ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ چینی کمپنیاں جیسے ainol وغیرہ کی بیٹری ٹائمنگ کافی قابل قبول ہوتی ہے۔ لیکن یہ پھر بھی اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ آئی پیڈ یا گوگل نیکسس یا سونی ایکسپریا آپ کو دے سکتا ہے۔
چینی ٹیبلٹس میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کے صرف دو ہی طریقے ہیں۔ اول وائی فائی اور دوم ایتھرنیٹ۔ سیلولر انٹرنیٹ کا کوئی آپشن موجود نہیں ہوتا یعنی آپ اپنی موبائل سم لگا کر انٹرنیٹ استعمال نہیں کرسکتے۔ آئی پیڈ کا البتہ ایسا ورژن بھی آتا ہے جس میں آپ سیلولر انٹرنیٹ استعمال کرسکتے ہیں۔
ایتھرنیٹ پورٹ کی چینی ٹیبلٹ میں موجودگی ، ٹیبلٹ کے سائز پر منحصر ہے۔ اگر یہ ٹیبلٹ پانچ یا سات انچ کا ہے تو شاید اس میں ایتھر نیٹ پورٹ موجود نہ ہو۔ لیکن اگر ٹیبلٹ 10انچ کا ہے تو اس میں ایتھر نیٹ پورٹ موجود ہوسکتی ہے۔
اگر آپ کے پاس وائی فائی کے آسان رسائی ہے تو چینی ٹیبلٹ انٹرنیٹ برائوزنگ کے لئے بہترین ہے۔ لیکن سیلولر نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے خواہش مند افراد کے پاس اگر کوئی اسمارٹ فون ہو تو وہ اسے وائی فائی ہاٹ اسپاٹ بنا کر ٹیبلٹ پر انٹرنیٹ استعمال کرسکتے ہیں۔
چینی ٹیبلٹس اور برانڈڈ ٹیبلٹس کی وائرلیس ڈیٹا ٹرانسفر کی رفتار میں کچھ خاص فرق نہیں۔ بیشتر ٹیبلٹس ایک جیسے ہی اسٹینڈرز اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
بیٹری کے بعد اگر کوئی دوسری چیز لوگوں کو چینی ٹیبلٹ خریدنے سے روکتی ہے، وہ اس کی ورانٹی ہے۔ بیشتر چینی ٹیبلٹس بنانے والی کمپنیاں گمنام ہوتی ہیں۔ آپ کو ٹیبلٹ پر شاید کمپنی کا نام و نشان بھی نہ ملے جبکہ پیکجنگ بھی بالکل کوری ہوتی ہے۔ ایسے ٹیبلٹس کو OEM کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ چین میں مختلف مصنوعات کی بنائی جانے والی نقلیں OEMکی صورت میں ہی ملتی ہیں جنھیں مختلف چھوٹی کمپنیاں یا افراد خرید کر اپنے نام سے فروخت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو OEM پراڈکٹس چین سے امپورٹ کرکے یہاں اپنے نام سے فروخت کرتی ہیں۔ ہمارے علم میں ایک مشہور پاکستانی برانڈڈ کمپیوٹر بنانے والی کمپنی ہے جو چین سے OEM لیپ ٹاپ اور ٹچ اسکرینز منگوا کر پاکستان میں اپنے برانڈ نیم کے تحت فروخت کرتی ہے۔
اگر کوئی اچھی چینی کمپنی ٹیبلٹ اور اس کی پیکجنگ پر اپنا نام لکھ بھی دیتی ہے تو بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارے علم میں ایسی کوئی چینی کمپنی نہیں جس کا رجسٹرڈ آفس پاکستان میں ہو اور وہ ورانٹی کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہو۔ ٹیبلٹس اب ٹی وی یا گاڑی کی طرح تو ہیں نہیں کہ ان کے ’’مکینک‘‘ گلی کی نکڑ پر مل جائیں۔ لہٰذا خراب ٹیبلٹ آپ کے گلے آسکتا ہے۔
جب آپ یہ چینی ٹیبلٹ خریدنے جاتے ہیں، تو آپ سے ورانٹی کی مد میں کافی سارے وعدے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن ان وعدوں میں کوئی سچائی نہیں ہوتی۔ آپ اگر چینی ٹیبلٹ خریدیں تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ان کی ورانٹی ویسی نہیں ہوتی جیسی آپ کے برانڈڈ اسمارٹ فون کی ہوتی ہے۔ ورانٹی کے نام پر چینی ٹیبلٹ بیچنے والے کچھ دوست ’’سافٹ ویئر ‘‘ کی ورانٹی دیتے ہیں جس کے مطابق اگر سافٹ ویئر خراب ہوگیا تو وہ ٹھیک کردیں گے۔ کمپیوٹر کی ذرا سے بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ سافٹ ویئر کی ورانٹی ایک لایعنی چیز ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ فرم ویئر دوبارہ انسٹال کردیں گے یا ٹیبلٹ کو ’’روٹ‘‘ کردیں گے۔ اس سے زیادہ ان کے بس کی بات نہیں۔
برانڈڈ ٹیبلٹس جنہیں بنانے والی کمپنیوں کے پاکستان میں آفسز ہیں، میں البتہ آپ کو مکمل ورانٹی ملتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے ہارڈویئر میں کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو چینی ٹیبلٹس کی صورت میں اسے ٹھیک کرنے والا کوئی نہیں ہوگا لیکن برانڈڈ ٹیبلٹ کی صورت میں ان کے سروس سینٹر ضرور آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔
اس لئے ہماری کمزور دل صارفین سے یہی گزارش ہے کہ اگر آپ ورانٹی کے معاملے میں حساس واقع ہوئے ہیں تو چینی ٹیبلٹ خریدنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ ’’ڈسپوزیبل‘‘ بوتل کی طرح ہیں، پانی پیئو اور تروڑ مروڑ کر پھینک دو!
چینی ٹیبلٹ سستے ضرور ہیں لیکن ان کی اپنی خامیاں ہیں۔ اگر آپ کا ٹیبلٹ خریدنے کا مقصد ہلکی پھلکی تفریح، انٹرنیٹ برائوزنگ، سوشل نیٹ ورکنگ یا موسیقی سے لطف اندوز ہونا ہے تو چینی ٹیبلٹ آپ کو انتہائی کم قیمت میں یہ سب کچھ بہ آسانی فراہم کرسکتے ہیں۔ بچوں کے لئے بھی یہ شاندار ’’Gadgets‘‘ ہیں لیکن اگر آپ کا مقصد موویز دیکھنا، لمبے سفر میں انٹرنیٹ برائوزنگ کے لئے ٹیبلٹ رکھنا ہے تو پھر شاید یہ آپ کے کام نہ آئیں۔ ان کا کم بیٹری ٹائم آپ کے لئے کئی مسائل پیدا کرسکتا ہے ۔
سائز میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے ٹیبلٹس چاہے وہ کسی بھی کمپنی کے ہوں، ان کا ہاتھوں سے پھسل کر گرنا اور ادھر ادھر لڑک جانا عام بات ہے جس کا نتیجہ ان میں کئی طرح کی خرابیوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ خراب چینی ٹیبلٹس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ برانڈڈ ٹیبلٹس کی صورت میں کسی حد تک امید ضرور ہوتی ہے کہ سروس سینٹر سے شاید یہ ٹھیک ہوجائے۔
امانت علی گوہر ماہنامہ کمپیوٹنگ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ آپ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موضوع پر گزشتہ نو سالوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اردو یونی کوڈ سلوشن اور کئی اولین اردو یونی کوڈ فونٹس بھی ان کی تخلیق کردہ ہیں۔

بلیک ہیٹ،



بلیک ہیٹ، وائٹ ہیٹ اور گرے ہیٹ ہیکرز
ہیکر کا لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک بہت ہی زیادہ قابل کمپیوٹر پروگرامر کی شخصیت نمودار ہوتی ہے جو کسی کی اجازت کے بغیر ہر پابندی کو توڑتے ہوئے اس کے کمپیوٹر میں داخل ہوجاتا ہے اور نہ صرف اس کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا بلکہ اس سے منسلک دیگر کمپیوٹرز کا ڈیٹا بھی چوری کرسکتا ہے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جس طرح لوگ اچھے یا برے ہوتے ہیں اسی طرح ہیکربھی اچھے یا بُرے ہوتے ہیں ۔ ہیکرز کو ان کی خصوصیات یا مقاصدکی بنا پر مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
بلیک ہیٹ
وائٹ ہیٹ
گرے ہیٹ
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ہیکرز اتنے رنگدار کیوں ہوتے ہیں؟ دراصل ہیکنگ میں رنگ دار ہیٹ کا ذکر ہالی وڈ کی پُرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے آیا جن میں ہیرو کو عام طور پر سفید رنگ کی ٹوپی پہنے ہوئے دکھایا جاتا تھا جبکہ ولن نے سیاہ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی ہوتی تھی۔ تاکہ دیکھنے والے دیکھتے ہی سمجھ جائیں کہ ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ یہ منظر اب ہالی وڈ کے بجائے لالی وڈ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ہیکرز کو بھی ان کے عزائم کی بنا پر سیاہ یا سفید کہا جاتا ہے۔

بلیک ہیٹ (Black Hat)

بلیک ہیٹ ہیکر، کمپیوٹنگ کی زبان میں اُسے کہا جاتا ہے جو نیٹ ورک سے جڑے کسی کمپیوٹر پر بغیر اجازت اور بُری نیت سے رسائی حاصل کرتا ہے۔ بلیک ہیٹ ہیکرز کی کارروائیوں کا مقصداکثر کسی کے سسٹم کو نقصان پہنچانا، ان کے کمپیوٹر سے ڈیٹا چرانا، کریڈٹ کارڈ نمبر یا پاس ورڈ اُڑانا، ذاتی نفع یا صرف دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے۔ رچرڈ اسٹالمین نے ہیکنگ کے موضوع میں کریکر (Cracker) کی ایک نئی اصطلاح وضع کی۔ لفظ کریکر بنیادی طور پر بلیک ہیٹ ہیکر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بیشتر لوگ ہیکر اور کریکر کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ہیکر ز میں بلیک ہیٹ یا وائٹ ہیٹ (جن کا ذکر آگے آئے گا) ہوتے ہیں جبکہ کریکر کی اصطلاح صرف بلیک ہیٹ کے لیے ہی استعمال ہوتی ہے۔
بلیک ہیٹ، ہیکنگ میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ایڈوانس پروگرامنگ اور سوشل انجینئرنگ کے استعمال سے واقف ہوتے ہیں۔ بلیک ہیٹ ہیکرز کی یہ قسم کسی سسٹم میں داخل ہونے کے لئے اپنے سافٹ ویئر یا ہارڈویئر ٹولز خود تیار کرتے ہیں۔ یوں کہنا چاہئے کہ یہ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک کمپیوٹر پروگرامر ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرے وہ بلیک ہیٹ ہیکرز ہوتے ہیں جو پروگرامنگ وغیرہ سے نا واقف ہوتے ہیںاور یہ دوسروں کے بنائے ہوئے خودکار ٹولز استعمال کرتے ہوئے کریکنگ کرتے ہیں۔ اِن میں سے بیشتر اس بات سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ یہ پروگرام کیسے کام کرتے ہیں۔ بس ٹول کو رَن کیا اس کے بعد چائے کی ایک پیالی لی اور کسی کے سسٹم کا بیڑا غرق۔ ان کے لئے لفظ ہیکر کا استعمال برا سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ اسکرپٹ کڈیز کہلاتے ہیں۔

چند مشہور بلیک ہیٹ ہیکرز

دئیے گئے بلیک ہیٹ ہیکرزمیں سے بہت سے بعد میں سدھر کر وائٹ ہیٹ ہیکرز بن گئے لیکن ابتدائی زمانے میں انہوں نے کمپیوٹر سیکیورٹی سسٹم پر اپنی دہشت پھیلائے رکھی۔

Mark Zbikowski

Mark Zbikowskiاسے اولین کمپیوٹر کریکرز میں سے ایک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ Zbikowski نے صرف اپنی تفریح طبع کے لیے ویانا اسٹیٹ یونی ورسٹی کے مشی گن ٹرمینل سروس جسے یونیورسٹی آف مشی گن کے مین فریم کمپیوٹر پر بنایا گیا کو کریک کیا۔ اس کے بعد بقول Zbikowski کہ جب اُس نے یونیورسٹی والوں کو یہ سمجھانا چاہا کہ کیسے وہ اپنے سیکیورٹی ہولز ختم کر سکتے ہیں تو یونیورسٹی نے اُسے دھمکی دی کہ اگر اس نے یونیورسٹی کی ملازمت قبول نہ کی تو وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ اس پر Zbikowski نے قانونی شکنجے سے بچنے کے لئے یونیورسٹی کی ملازمت قبول کر لی۔بعد میں Zbikowski نے مائیکروسافٹ میں بطور آرکیٹک بھی نوکری کی۔ اس کا شمار مائیکروسافٹ کے اوّلین ملازمین میں ہوتا ہے۔


Jonathan JamesJonathan James

اسے کامریڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس نے امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے کئے گئے ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق ہزاروں پیغامات کو غیر قانونی طور پر Intercept کیا۔ جس وقت اِسے سزا سُنا کر جیل بھجوایا گیا تو اس کی عمر صرف سولہ سال تھی۔ یہ اب تک کا سب سے کم عمر سائبر کرمنل ہے جسے سزا سُنائی گئی۔

Mark Abene

Mark Abeneیہ Phiber Optik بھی کہلاتا تھا۔ نیویارک سے تعلق رکھنے والے اس بلیک ہیٹ ہیکر کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ہزاروں امریکی نوجوانوں کو ٹیلی کمیو نی کیشن سسٹمز کو کریک کرنے کی طرف راغب کیا۔  یہ Master of Deceptionنامی گروپ کے بانیوں میں سے ایک ہے۔یہ گروپ ٹیلی فون نظام کو کریک کرنے کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ اس کے ممبران DEC سرورز کو کریک کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔

Markus Hess

اسکا تعلق مغربی جرمنی سے ہے۔ اس نے امریکہ کی ملٹری ویب سائٹس سے بہت سی معلومات چرا کر سابقہ سویت یونین کی کمیٹی فار اسٹیٹ سیکیورٹی کو فراہم کیں۔اسے عالمی جاسوس کا درجہ بھی حاصل رہا ہے۔

 Adrian Lamo

Adrian LamoLamoکو2003ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے حیرت انگیز طور پر مائیکروسافٹ، نیویارک ٹائمز، ایم ایس آئی ورلڈکوم، ایس بی سی اور یاہو! کے سسٹمز تک رسائی حاصل کی۔ اس کے ہیکنگ کرنے کے طریقے کافی متنازعہ تھے۔ اصل میں Lamoکو شہرت حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور یہی شوق اس کی گرفتاری کا باعث بن گیا۔

 Vladimir Levin

اس ماہر روسی ریاضی دان نے ایک گینگ کی سربراہی کرتے ہوئے سٹی بینک کے کمپیوٹر سسٹم میں مداخلت کرتے ہوئے تقریباً دس ملین ڈالرز چوری کرلئے۔ لیون کا استعمال کیا ہوا طریقہ کار آج تک نا معلوم ہے۔ سیکیورٹی ایجنسی نے لیون سے جو پوچھ گچھ کی تھی وہ بھی پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ ہیکرز کے ایک مشہور گروپ کے مطابق لیون تکنیکی طور پر اس قابل نہیں تھا کہ سٹی بینک کے نیٹ ورک میں بغیر لاگ اِن ہوئے داخل ہوسکتا۔ اس نے سٹی بینک کے کسی اہلکار سے یہ معلومات صرف سو ڈالر دے کر حاصل کی تھیں۔

Kevin Mitnick

Kevin Mitnick کریکنگ کی مختلف سرگرمیوں کی وجہ سے ایک عرصے تک جیل میں رہا۔ اس کی ضمانت تک منظور نہیں کی گئی۔ اس پر امریکی حساس کمپیوٹر سسٹم کو ہیک کرنے کا الزام تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد کیون نے اپنی چند ویب سائٹس بھی تیار کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی ویب سائٹس کو 20 اگست 2006 ء کو پاکستانی ہیکرز کے ایک گروپ نے ڈی فیس کردیا۔ کئی گھنٹوں تک کیون کی ویب سائٹس پر اس کے خلاف گالیوں بھرے پیغام نظر آتے رہے۔

Robert Tappan Morris

1988ء میں کیمل یونیورسٹی میں گریجویشن کرتے ہوئے اس نے پہلا کمپیوٹر ورم بنایا جو مورس کہلایا۔اس ورم نے بڑی تعداد میں کمپیوٹرز کو متاثر اور لاکھوں ڈالرز کا نقصان کیا۔اس نے بعد میں ایک کمپنی Viaweb بھی کھولی جسے بعد میں یاہو! نے خرید لیا۔

Nahshon Even-Chaim

یہ Phoenixکے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آسٹریلوی ہیکنگ گروپThe Realmکا مرکزی رکن تھا۔ 1980ء کی دہائی میں انہوں نے امریکہ کے دفاعی اور ایٹمی تحقیقاتی کمپیوٹر سسٹم پر حملہ کیا۔ اس گروپ کو 1990ء میںآسٹریلین فیڈرل پولیس نے گرفتار کیا۔ اس کی ایک وجۂ شہرت ناسا کے کمپیوٹرز تک رسائی بھی ہے۔

David L Smith

1999ء میں اسمتھ نے Melissa Worm بنایا جس کی وجہ سے مجموعی طور پر تقریباً اسی ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسمتھ کو چالیس سال کی سزا ہوئی جو کہ بعد میں کم ہوتے ہوتے بیس ماہ ہو گئی۔ اب وہ FBI کے لیے کام کر رہا ہے۔اس کی گرفتاری میں ایک اور ہیکر جوناتھن جیمز جس کا ذکر ہم نے پہلے کیا تھا، نے ایف بی آئی کی مدد کی۔ ILOVEU وائرس کے خالق کی گرفتاری بھی جوناتھن جیمز کی مدد سے کی گئی۔

وائیٹ ہیٹ (White Hat)

وائٹ ہیٹ ہیکرز کو بااخلاق ہیکرز بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی سرور یا نیٹ ورک میں داخل ہو کر اس کے مالکان کو اس سرور یا نیٹ ورک کے سیکیورٹی ہولز کے بارے میں بتاتے ہیں یا ان سیکیورٹی ہولز کو دور کرتے ہیں۔ ان کی یہ تمام کوششیں سیکیورٹی کو محفوظ بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کمپیوٹر سیکیورٹی کمپنیوں کے ملازمین ہوتے ہیں۔ انہیں اسنیکرز (sneakers) بھی کہتے ہیں اور ان کے گروپ کو اکثر ٹائیگر ٹیم کہا جاتا ہے۔
وائٹ ہیٹ ہیکرز اور بلیک ہیٹ ہیکرز میں بنیادی طور پر یہ فرق ہوتا ہے کہ وائٹ ہیکرز کے مطابق وہ ہیکر کی اخلاقیات پر نظر رکھتے ہیں۔بلیک ہیٹ ہیکرز کی طرح وہ سیکیورٹی سسٹم کی تمام تفصیلات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اورضرورت پڑنے پر کسی بھی مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔بنیادی طور پر وائٹ ہیٹ ہیکرز کا مقصد سسٹم کو محفوظ بنانا ہوتا ہے جبکہ اس کے بر عکس بلیک ہیٹ ہیکر کا مقصد سسٹم کی سیکیورٹی کو ختم کرنا۔لیکن بات جب اپنے سسٹم کی ہو تو بلیک ہیٹ ہیکرز بھی اسے محفوظ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
مائیکروسافٹ ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کرپٹوگرافی سے متعلق لائبریریز کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ آپریٹنگ سسٹم امریکہ سے باہر فروخت کیا جاتا ہے یہ لائبریریز کسی کام کی نہیں رہتیں کیونکہ آپریٹنگ سسٹم ان کو لوڈ کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ امریکہ سے باہر یہ آپریٹنگ سسٹم صرف ایسی لائبریریز کو لوڈ کرتاہے جو مائیکروسافٹ نے signed کی ہوں اور مائیکروسافٹ اس بات کی پابند ہے کہ بیرون ملک کسی بھی لائبریری کو signed کرنے سے پہلے وہ امریکی حکومت سے اس بات کی اجازت لے۔ اس پابندی کی وجہ سے امریکی حکومت نے کرپٹوگرافی کے اعلیٰ معیارات کو خود تک محدود کررکھا ہے۔ لیکن امریکہ سے باہر موجود ہیکرز نے مائیکروسافٹ ونڈوز کے بی ٹا ورژنز کے باریک بینی سے معائنے کے بعد ایک ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جو ونڈوز کو ایسی تمام لائبریریز کو لوڈ کرنے پر مجبور کردیتا ہے جو مائیکروسافٹ نے signed نہیں کی ہیں۔
بظاہر یہ ایک بری حرکت محسوس ہوتی ہے مگر اکثر ہیکر کمیونٹیز اسے وائٹ ہیکنگ کہتی ہیں کیونکہ اس طرح کرپٹو گرافی امریکہ اور اس کی عوام تک محدود رہنے کے بجائے دنیابھر میں پھیل سکے گی۔
موجودہ دور میں سرچ انجن بھی بلیک ہیٹ اور وائٹ ہیٹ کاکردار ادا کررہے ہیں۔ سرچ انجن میں بلیک ہیٹ طریقۂ واردات کو spamdexing کہا جاتا ہے۔ اس میں سرچ کیے گئے نتائج کو مخصوص ویب سائٹس پر ری ڈائریکٹ کر دیا جاتاہے۔

چند نامور وائٹ ہیٹ ہیکرز


Gordon “Fyodor” Lyon

Fyodorفیوڈور ایک مشہور و معروف سیکیورٹی ٹول Nmap کا خالق ہیں۔ یہ سافٹ ویئر نیٹ ورک اسکیننگ کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اور ہیکرز کا اہم ترین ٹول مانا جاتا ہے۔ فیوڈور نے این میپ سیکیورٹی اسکینر کو مفاد عامہ کی خاطر اوپن سورس کررکھا ہے۔
ساتھ ہی فیوڈورایک ہیکنگ ناول How to Own a Continentکے شریک مصنف اور مشہور زمانہ ’’ہنی پاٹ پروجیکٹ‘‘ کے بانی رکن ہیں۔

Mark Russinovich

یہ ونڈواین ٹی سرور، ورک اسٹیشن اور پروگرامنگ ، کے ماہر ہیں۔ اس کے علاوہ 2005 Sony Rootkit سافٹ ویئر کی دریافت کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے ایک اچھے مصنف مانے جاتے ہیں۔ مائیکروسافٹ ٹیک نیٹ کے لئے باقاعدگی سے مضامین لکھتے رہتے ہیں۔

Tsutomu ShimomuraShimomuraنے Kevin Mitnickکو جو1994 میں امریکہ کا بدنام کمپیوٹر جرائم میں ملوث شخص تھاپکڑنے میں مدد دی۔ وہ Mitnickکیس پر لکھی گئی کتابوںکا شریک مصنف بھی ہے۔

وائٹ ہیٹ اور بلیک ہیٹ کے بارے میں آپ نے پہلے بھی سن رکھا ہوگا مگر گرے ہیٹ ہیکرز کے بارے میں شاید آپ کی معلومات ناکافی ہوں۔
گرے ہیٹ کمپیوٹر کمیونٹی میں ماہر ہیکرز کے طور پر جانے جاتے ہیںجو کبھی قانونی طور پر کام کرتے ہیں اور کبھی غیر قانونی طور پر، کبھی اچھی نیت سے اور کبھی بُری نیت سے۔ زیادہ تر گرے ہیٹ ہیکر اپنے ذاتی مفاد یا برے عزائم سے کام نہیں کرتے۔ لیکن کبھی کبھار وہ اپنے کام کے دوران جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔گرے ہیٹ ہیکرز، بلیک ہیٹ ہیکرز اوروائٹ ہیٹ ہیکرز کی درمیانی قسم ہوتے ہیں۔ اکثر گرے ہیٹ ہیکر کسی سسٹم میں داخل ہو کربغیر کوئی نقصان پہنچائے صرف اپنا نام وہاں چھوڑ آتے ہیں۔
امجد نے پرویز کے لیے ویب سائٹ بنائی جسے علی کے سرور پر چلایا جا رہا ہے۔علی کا سرورامانت کے نیٹ ورک پر چلایا جا رہا ہے۔اب علی صاحب کو معلوم نہیں کہ اس کے سرور پر ایک سیکیورٹی ہول ہے۔امانت کو اس سیکیورٹی ہول کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے اور وہ اس کی مدد سے سرور کو مانیٹر کرنا شروع کرتا ہے۔ کیونکہ پرویز کے سرور پر مختلف آپریٹنگ سسٹم انسٹال ہے۔ اور امانت جاننا چاہتا ہے کہ علی کے سرور پر مزید کیا کنفیگر کیا جا رہا ہے۔ادھر علی صاحب کو فاروق سے بھی مسئلہ ہے جس کو اس کے سرور پر ایک سیکیورٹی ہول مل گیا ہے اور وہ اسے استعمال کرتے ہوئے علی کے سرور پر پیچیدہ وائرس انسٹال کر دیتا ہے جس کی وجہ سے علی کا سرور تین دن میں خراب ہو جائے گا۔
اب کیونکہ امانت سرور کو مانیٹر کر رہا ہوتا ہے اس لیے اسے فاروق کے وائرس کا پتہ چل جاتا ہے اور وہ فاروق کے سرور چھوڑنے کا انتظار کرتا ہے اور جیسے ہی وہ سرور چھوڑتا ہے امانت صاحب اس وائرس کو ختم کر دیتے ہیں۔اس سے امانت صاحب کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے سروریا نیٹ ورک میں کیا کیا سیکیورٹی ہول ہے اور انہیں اپنے سرور کو محفوظ بنانے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔
اپریل 2004ء میں کچھ گرے ہیٹ ہیکرز نے apache.org کے سرور پر قبضہ کر لیا۔ ان گرے ہیٹ ہیکرز نے apache کے سرور کو نقصان پہنچانے یا apache کے عملے کو دھمکی آمیز پیغامات دینے یا وائرس پھیلانے کے بجائے، صرف آپاچی کے عملے کو سیکیورٹی ہول کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں۔

اوپن سورس سافٹ ویئر


اوپن سورس سافٹ ویئر کی اہمی

جو حضرات آزاد سافٹ ویئر (Open source) کے بارے میں جانتے ہیں وہ عموماً ایسے سوالات کرتے ہیں کہ میرے پاس پہلے ہی میرے پسندیدہ سافٹ ویئر موجود ہیں جن کے استعمال کا میں عادی ہوں اور پھر میں انہیں مفت استعمال کر رہا ہوں (کریک کے ذریعے) اگرچہ وہ مفت نہیں، اور میں انہیں دوستوں کے ساتھ شیئر بھی کرتا ہوں، ایسے میں مجھے کیا پڑی ہے کہ میں ایسے نئے سافٹ ویئر استعمال کروں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مجھے ’’آزادی‘‘ دیں گے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ آپ ہمیشہ کے لیے ملکیتی سافٹ ویئر مفت میں حاصل کر پائیں گے (جیسے مائیکروسافٹ آفس)۔ پوری دنیا میں مختلف ممالک بڑی شدت کے ساتھ فکری ملکیت ( Intellectual Property)  کے قوانین لاگو کرتے جا رہے ہیں، وہ دن بھی دُور نہیں جب ان قوانین کا اطلاق پاکستان میں بھی ہوگا، دراصل ممالک چاہیں یا نہ چاہیں، انہیں ان قوانین کا اطلاق بہرحال کرنا ہی ہوگا کیونکہ ان قوانین کو لاگو نہ کرنے کی صورت میں ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، مثال کے طور پر ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے وقت اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ جہاں ممالک سے دیگر شرائط قبول کروائی جاتی ہیں ان میں یہ شرائط بھی شامل ہوں۔
جب فکری ملکیت کے ان قوانین کا اطلاق ہوگا تو ہمارا نہیں خیال کہ آپ ایک ہی رات میں آزاد سافٹ ویئر پر منتقل ہوپائیں گے اور آزاد سافٹ ویئر کے صارف بن جائیں گے، آپ کو قطعی مختلف ان نئے سافٹ ویئر کو سیکھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا، مزید برآں آپ کو ان کا عادی ہونے کے لیے بھی کچھ وقت لگے گا اور ظاہر ہے ان میں وہ وقت شامل نہیں جو تکنیکی مسائل کے حل تلاش کرنے میں صرف ہوگا… آہستہ شروعات کے لیے یہی وقت مناسب ہے۔
اجارہ دار کمپنیاں اپنے سافٹ ویئر کی کریکنگ کو خود ہی آسان رکھتی ہیں جو دراصل ایک طویل المدتی پالیسی کا حصہ ہے، مقصد ترقی پذیر ممالک۔ جہاں فکری ملکیت کے قوانین ابھی لاگو نہیں، میں نہ صرف اپنے سافٹ ویئر مقبول بنانے بلکہ لوگوں کو ان کا عادی بھی کرنا ہے۔ دہائیوں بعد جب لوگ ایسی کمپنیوں کے سافٹ ویئر کے عادی ہوجائیں گے تو یہ کمپنیاں ایسے ممالک پر فکری ملکیت کے قوانین کے اطلاق کے لیے دباؤ ڈالیں گی، تب لوگوں کو اپنے وہ سافٹ ویئر جن کے وہ عادی ہوچکے ہیں بدلنے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا خاص کر ادارے جن کا آج بھی انحصار ایسے ہی (چوری شدہ) سافٹ ویئر پر ہے (اور چونکہ بیشتر کو آزاد سافٹ ویئر کا پتہ ہی نہیں جو کہ زیادہ تر مفت ہی ہوتے ہیں) لہٰذا وہ نہ صرف شرمندہ بھی ہوں گے بلکہ ان سافٹ ویئر کو خریدنے کے لیے رقوم بھی ادا کریں گے۔ یوں یہ اجارہ دار کمپنیاں ترقی پذیر ممالک کی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے مفت منافع کمائیں گی… جس قدر جلد ہم آزاد سافٹ ویئر کے استعمال کے تصور کو عام کریں گے اتنا ہی ہم ایسی کمپنیوں کی اجارہ داری کے دام سے بچے رہیں گے جن کا اولین مقصد اپنی جیبیں بھرنا اور ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات کو ہلکان کرنا ہے اور انہیں سیاسی وتجارتی طور پر اپنے ملکوں کے تابع کرنا ہے۔
ملکیتی سافٹ ویئر ترقی پذیر ممالک کے لیے قطعی موزوں نہیں۔ ترقی پذیر ممالک احیائے نو (Renaissance) کے دور سے گزر رہے ہیں۔اس صدی میں ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی احیائے نو کا جزو لا ینفک ہے جس کے بغیر کوئی بھی حقیقی ترقی یا احیائے نو ممکن نہیں…مگر اس کا اس سے کیا تعلق ہے؟
ایسے ترقی پذیر ممالک کے لیے آزاد سافٹ ویئر ہی حقیقی احیائے نو کا ذریعہ ہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے بغیر ترقی پذیر ممالک حقیقی احیائے نو سے کوسوں دور رہیں گے چاہے وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں… کمپیوٹنگ اب لوگوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ معلومات کا بیش قیمت بہاؤ جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے، کے بغیر آج کے دور میں کسی حقیقی ترقی کا تصور محال ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقی احیائے نو میں آزاد سافٹ ویئر کیوں ضروری ہیں؟ اس کی وجہ از بس سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آزاد سافٹ ویئر کا مصدر (سورس کوڈ) تحقیقی وتدریسی مقاصد کے لیے دستیاب ہوتا ہے، یوں ترقی پذیر ممالک ان سافٹ ویئر میں اپنی ضرورت کا رد وبدل کر کے انہیں تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال میں لاسکتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ انہیں معقول قیمت پر اپنے شہریوں کی آمدنی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فروخت بھی کر سکتے ہیں بجائے کمپنیوں کا انتظار کرنے کے کہ وہ مہنگے داموں مطلوبہ تبدیلی/تبدیلیاں کر کے دیں اور رقم کی ادائیگی کے باوجود کوڈ اپنے پاس ہی رکھیں جس کی وجہ سے صارفین ان کی اپڈیٹس کے ہمیشہ تابع ہوجاتے ہیں، یہ سب ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات پر بے جا بوجھ بنتا ہے اور ان کی حقیقی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی۔
ہر دفعہ گاڑی بنانے پر ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد نہیں کرنا ہوگا۔ کوڈ کی دستیابی نئے نئے آئیڈیاز کو جنم دے گی جبکہ اجارہ دار پروڈکٹ میں ہمارے پاس کوئی خام مال نہیں ہوتا، نتیجتاً کسی نئے آئیڈیے کے ظہور کا امکان صفر ہے۔ ہمیں ہر چیز صفر سے شروع کرنی ہوگی۔ اگر آپ کو کوئی مخصوص ٹیکسٹ ایڈیٹر ہی بنانا ہے تو بھی آپ کو صفر سے شروع کرنا ہوگا۔ جبکہ آزاد سافٹ ویئر کی صورت میں آپ کو کئی ٹیکسٹ ایڈیٹرز کے کوڈ مفت میں مل جائیں گے، چنانچہ صفر سے شروع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آپ کو بس پہلے سے موجود کوڈ میں اپنے آئیڈیاز شامل کرنے ہیں، اس طرح سبھی کوڈ کو بہتر سے بہتر کرنے میں مدد کرتے ہیں اور آئیڈیاز کا ایک انبار جمع ہوجاتا ہے۔ یہ امر ملکیتی سافٹ ویئر کے مقابلے میں آزاد سافٹ ویئر کی تیز تر ترقی کی ضمانت ہے۔ اگر ملکیتی سافٹ ویئر میں آپ صفر سے شروع کرتے ہیں تو آزاد سافٹ ویئر میں آپ وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں دوسروں نے کام ختم کیا ہوتا ہے۔
آزاد سافٹ ویئر میں اردو کی سپورٹ کے لیے وسیع امکانات موجود ہیں۔ کوڈ کی دستیابی کی وجہ سے ہم آسانی سے کسی بھی سافٹ ویئر میں اردو کی سپورٹ شامل کر سکتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ان کا اردو ترجمہ بھی کر سکتے ہیں اور اردو بولنے والوں کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان میں مطلوبہ تبدیلیاں بھی کر سکتے ہیں۔ ہم ممکنات یا مفروضوں کی بات نہیں کر رہے، ایسے گروہ موجود ہیں جو واقعتا آزاد سافٹ ویئر کو اردوانے کا کام کر رہے ہیں۔
آپ کو ایک بار پھر یاد دلا دیں کہ آزادی کوڈ کو عام کرنے میں ہے، ملکیتی سافٹ ویئر ایک سیاہ ڈبے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، کوئی بھی آپ کو ضمانت نہیں دے سکتا کہ جو سافٹ ویئر آپ اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون میں استعمال کر رہے ہیں ان میں آپ کی جاسوسی کے لیے کوئی اجزاء موجود نہیں۔ ایسے سافٹ ویئر بڑے آرام سے آپ کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مائیکروسافٹ ونڈوز اپنے صارفین کی جاسوسی کرتی ہے اور کمپیوٹر میں داخل کیے گئے تلاش کے الفاظ پوشیدہ طور پر ارسال کرتی ہے۔ اسی طرح ونڈوز پر نصب دیگر سافٹ ویئر بھی آپ کی جاسوسی کرتے ہیں جیسے ریئل پلیئر (RealPlayer) جو آپ کی چلائی گئی تمام فائلوں کی تفصیلات کمپنی کو ارسال کرتا ہے۔ موبائل فونز بھی غیر آزاد سافٹ ویئر سے بھرے ہوتے ہیں جو آپ کی جاسوسی کرتے ہیں اور ان میں خود موبائل فونز کا غیر آزاد ہارڈویئر بھی شامل ہے۔ بعض موبائل فونز بند حالت میں بھی آپ کے مقام کے تعین کے لیے سگنل ارسال کرتے ہیں جس سے کوئی بھی مخصوص آلات کے ذریعے آپ کی لوکیشن کے بارے میں جان سکتا ہے چاہے آپ چاہیں یا نہیں۔ بعض فونز کو دور سے آواز ٹیپ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، صارفین اور ترقی پذیر حکومتیں یہ ’’خرابیاں‘‘ دور نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کا ایسے آلات پر کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی وہ جانتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں۔ واحد طریقہ جس سے آپ پْر یقین ہوسکتے ہیں کہ آپ کا سافٹ ویئر صرف آپ ہی کے لیے کام کر رہا ہے آزاد سافٹ ویئر کا استعمال ہے۔ آزاد سافٹ ویئر کی دنیا میں آپ کی اور آپ کے ڈیٹا کی سیکیوریٹی خود آپ کے ہاتھ میں ہے اور مکمل طور پر محفوظ ہے۔
پروگرامر ہونے کی صورت میں آزاد سافٹ ویئر آپ کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا بہترین ذریعہ ہیں، آپ لاکھوں سافٹ ویئر کے کوڈ کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور پھر آزاد سافٹ ویئر کے بڑے بڑے منصوبوں میں حصہ لے کر اپنی صلاحیتوں کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف آپ کے تجربے بلکہ آپ کی مارکیٹ ویلیو میں بھی اضافہ ہوگا جس کا براہ راست اثر آپ کی آمدنی پر پڑے گا۔ مختصراً آزاد سافٹ ویئر پروگرامرز اور ڈیویلپرز کے لیے ایک بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔
opensource-free-sfotware
اوپن سورس مفت سافٹ ویئر
آزاد سافٹ ویئر کا استعمال مجموعی طور پر آپ میں دوسروں کو نفع پہنچانے والی طرزِ زندگی کو قوت بخشتا ہے، کیونکہ ہر کوئی پروگرام حاصل کر سکتا ہے۔ ہر کوئی اس کے کوڈ کا مشاہدہ کر سکتا ہے اور ہر کوئی اس کی ترقی میں حصہ لے سکتا ہے۔ یہ خوبیاں معاشرے کے کسی مخصوص گروہ کے لیے مخصوص نہیں۔ آزاد سافٹ ویئر کی دنیا میں ’’ٹیکنالوجی کے پیشواؤں‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں … سیکھنا سب کے لیے دستیاب ہے اور کوئی اس پر اجارہ داری قائم نہیں کر سکتا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ آزاد سافٹ ویئر عموماً مفت ہوتے ہیں۔ پھر بھی اگر آپ قیمتاً دستیاب کوئی آزاد سافٹ ویئر استعمال کرنا چاہیں تب بھی اس کی قیمت انتہائی معقول ہو گی یا پھر آپ اسے کسی ایسے دوست سے بھی حاصل کر سکتے ہیں جس نے اسے خریدا ہوا ہو۔ اقتصادی طور پر آزاد سافٹ ویئر افراد، ادارے، اسکول، خیراتی ادارے اور حکومتوں کے لیے ایک کارآمد حل ہیں۔
تجربہ اس بات کا گواہ ہے کہ آزاد سافٹ ویئر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ گنو  (GNU) لینکس آپریٹنگ سسٹم (جوکہ بہت ہی زیادہ عام آزاد آپریٹنگ سسٹم ہے) ونڈوز سے زیاد مستحکم ہے، گنو لینکس آزاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے ہزاروں پروگرامرز کرنل (Kernel) کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مسلسل کام کرتے ہیں۔ آزاد سافٹ ویئر میں ترقی کا عمل غیر آزاد سافٹ ویئر سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ زیادہ تر آزاد سافٹ ویئر جن میں لینکس کا کرنل بھی شامل ہے ہر چھ ماہ بعد نیا ورژن جاری کرتے ہیں جس سے سافٹ ویئر یا نظام میں غلطیوں کی شرح کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ زیادہ مستحکم ہوتے چلے جاتے ہیں، لینکس استعمال کرنے پر آپ وائرس وغیرہ کو تو بھول ہی جائیں گے۔ لینکس اب تک کا سب سے محفوظ آپریٹنگ سسٹم تصور کیا جاتا ہے۔
استعمال کی آسانی نہ صرف عام بلکہ مبتدی حضرات کے لیے بھی۔ آزاد سافٹ ویئر (جیسے گنو لینکس آپریٹنگ سسٹم) استعمال میں آسان ہوتے ہیں (یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ لوگوں میں یہ شوشہ بہت عام ہے کہ لینکس استعمال میں مشکل ہے)۔ کیونکہ آپ ایک آزاد دنیا میں ہیں ’’ونڈوز ایکس پی کے راز‘‘ جیسی اصطلاحات آپ کو سننے کو نہیں ملیں گی کیونکہ آزاد سافٹ ویئر میں کوئی راز نہیں ہوتے اور نا ہی آپ کو یہ ’’راز‘‘ سیکھنے کے لیے سالوں لگیں گے۔
سپورٹ کی دستیابی، ایک عام صارف کے طور پر جب آپ آزاد سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں تو ایک ایسی عالمی برادری آپ کے انتظار میں ہوتی ہے جو علم کو راز رکھنے پر یقین نہیں رکھتی، جن کا ایمان ہے کہ معرفت سب کا حق ہے اور وہ بھی بالکل مفت اور بغیر کسی ادنیٰ تر شرط کے جس میں مذہبی، نسلی یا نظریاتی اختلافات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ انٹرنیٹ ایسے فورمز، بلاگز، ویکیز اور ویڈیو ٹیوٹوریلز سے بھرا پڑا ہے جو آپ کی سپورٹ کی ضروریات کو بھرپور انداز میں پورا کریں گے۔ پھر بھی اگر آپ کو کوئی خصوصی مسئلہ درپیش ہے تو بھی گرو حضرات مختلف آئی آر سی چینلز پر آپ کی مدد کے لیے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اگر آپ کوئی کمپنی چلاتے ہیں تو آپ قیمتاً فوری اور معیاری سپورٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
آزاد سافٹ ویئر کم تر وسائل کے حامل آلات کے لیے انتہائی موزوں ہوتے ہیں۔ غیر آزاد سافٹ ویئر کی طرح ان کے لیے کسی ہائی سپیسی فیکیشن ہارڈ ویئر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں غیر آزاد سافٹ ویئر کے ساتھ چلنے کے لیے آپ کو بار بار اپنا ہارڈ ویئر بدلنے کی زحمت اٹھانی پڑے گی جو آپ کی جیب پر یقینا ایک فالتو بوجھ ہے۔ قدیم ترین آلات کو چلانے کے لیے بھی آپ کو آزاد سافٹ ویئر کی دنیا میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یوں آزاد سافٹ ویئر کے ذریعے آپ پھینکنے کی بجائے پرانے ہارڈ ویئر کو کار آمد بنا سکتے ہیں۔ آپ کو یہ بات شاید دلچسپ لگے کہ لینکس نے حال ہی میں پرانے انٹل 386پروسیسرز کی سپورٹ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے!!
بیشتر آزاد سافٹ ویئر ایک سے زائد پلیٹ فارمز پر کام کرنے کی خوبی سے مزین ہیں۔ آپ کو کوئی آزاد سافٹ ویئر لینکس سمیت ونڈوز اور میک کے لیے بھی مل جائے گا۔ اگر آپ ایک سے زائد پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں تو ہر پلیٹ فارم کے لیے آپ کو الگ سافٹ ویئر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ وہی سافٹ ویئر دونوں آپریٹنگ سسٹمز پر چلا سکتے ہیں۔
ان نقاط کی روشنی میں قارئین با آسانی اس بات کا انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ آزاد مصدر سافٹ ویئر چاہے آپ استعمال کریں یا نہ کریں، انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جس طرح اے ایم ڈی کے بارے میں کہا جاتاہے کہ بھلے ہی اس نے مائیکرو پروسیسرز کی دنیا میں انٹل جتنی ترقی اور جدت حاصل نہ کی ہو، لیکن یہ اے ایم ڈی ہی ہے جس کی وجہ سے انٹل اپنے پروسیسرز کو بہتر سے بہترین، تیز سے تیز تر اور کم سے کم قیمت میں پیش کرتا رہا۔ بالکل اسی طرح آزاد مصدر سافٹ ویئر نے بھی کلوزڈ سورس سافٹ ویئر کو سخت مقابلے کی ٹکر دے رکھی ہے اور ان کی اجارہ داری کسی حد تک کم کررکھی ہے۔
لیکن یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ کلوزڈ سورس سافٹ ویئر کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ آزاد مصدر سافٹ ویئر کا مقصد انہیں ختم کرنا ہے، غلط ہے۔ ایسا ہونا تقریباً نا ممکن ہے۔ جب تک کمپیوٹر استعمال ہوتے رہیں گے، کلوزڈ سورس سافٹ ویئر بنتے رہیں گے اور انہی جیسی سہولیات رکھنے والے اوپن سورس سافٹ ویئر بھی سامنے آتے رہیں گے۔

Monday 20 January 2014

Global ranking: Pakistan billed to become 18th largest economy by 2050

enlarge41547 (1)Pakistan would become the 18th largest economy in the world by 2050 with a GDP of US$ 3.33 trillion, predicted economist Jim O’Neill. Currently, Pakistan is the 44th largest economy in the world with a GDP of US$ 225.14 billion. This means that, if O’Neill’s projections are correct, Pakistan’s economy would grow 15 times in the next 35 years or so.
Economist Jim O’Neill, who coined the term BRICS (Brazil, Russia, India and China – as potential powerhouses of the world economy, has now identified the ‘Mint’ countries – Mexico, Indonesia, Nigeria and Turkey – as emerging economic giants, according to BBC.
In terms of wealth, Mexico and Turkey are at about the same level, earning annually about $10,000 per head. This compares with $3,500 per head in Indonesia and $1,500 per head in Nigeria, which is on a par with India. They are a bit behind Russia – $14,000 per head – and Brazil on $11,300, but still a bit ahead of China – $6,000 (£3,600).
Published in The Express Tribune, January 20th, 2014.1102074357-1

35
 
0
 
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/01/20/global-ranking-pakistan-billed-to-become-18th-largest-economy-by-2050/#sthash.JxMBBVmx.dpuf

Global ranking: Pakistan billed to become 18th largest economy by 2050

enlarge41547 (1)Pakistan would become the 18th largest economy in the world by 2050 with a GDP of US$ 3.33 trillion, predicted economist Jim O’Neill. Currently, Pakistan is the 44th largest economy in the world with a GDP of US$ 225.14 billion. This means that, if O’Neill’s projections are correct, Pakistan’s economy would grow 15 times in the next 35 years or so.
Economist Jim O’Neill, who coined the term BRICS (Brazil, Russia, India and China – as potential powerhouses of the world economy, has now identified the ‘Mint’ countries – Mexico, Indonesia, Nigeria and Turkey – as emerging economic giants, according to BBC.
In terms of wealth, Mexico and Turkey are at about the same level, earning annually about $10,000 per head. This compares with $3,500 per head in Indonesia and $1,500 per head in Nigeria, which is on a par with India. They are a bit behind Russia – $14,000 per head – and Brazil on $11,300, but still a bit ahead of China – $6,000 (£3,600).
Published in The Express Tribune, January 20th, 2014.1102074357-1

35
 
0
 
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/01/20/global-ranking-pakistan-billed-to-become-18th-largest-economy-by-2050/#sthash.JxMBBVmx.dpuf

Global ranking: Pakistan billed to become 18th largest economy by 2050

enlarge41547 (1)Pakistan would become the 18th largest economy in the world by 2050 with a GDP of US$ 3.33 trillion, predicted economist Jim O’Neill. Currently, Pakistan is the 44th largest economy in the world with a GDP of US$ 225.14 billion. This means that, if O’Neill’s projections are correct, Pakistan’s economy would grow 15 times in the next 35 years or so.
Economist Jim O’Neill, who coined the term BRICS (Brazil, Russia, India and China – as potential powerhouses of the world economy, has now identified the ‘Mint’ countries – Mexico, Indonesia, Nigeria and Turkey – as emerging economic giants, according to BBC.
In terms of wealth, Mexico and Turkey are at about the same level, earning annually about $10,000 per head. This compares with $3,500 per head in Indonesia and $1,500 per head in Nigeria, which is on a par with India. They are a bit behind Russia – $14,000 per head – and Brazil on $11,300, but still a bit ahead of China – $6,000 (£3,600).
Published in The Express Tribune, January 20th, 2014.1102074357-1

35
 
0
 
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/01/20/global-ranking-pakistan-billed-to-become-18th-largest-economy-by-2050/#sthash.JxMBBVmx.dpuf

Jang Ka Meerut (War Time)



Jang Ka Meerut (War Time) by Orya Maqbool Jan (12th August 2013)

Jang Ka Meerut (War Time) by Orya Maqbool Jan (12th August 2013)
x3912_44944497.jpg.pagespeed.ic.g45BdRIPj-

Saturday 18 January 2014

کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر فائرنگ، فرائض کی انجام دہی دینے والے 3 ارکان شہید

کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر فائرنگ، فرائض کی انجام دہی دینے والے 3 ارکان شہید

  جمعـء 17 جنوری 2014
فائرنگ کا نشانہ بننے والی ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی جائے وقوعہ پر کھڑی ہے۔فوٹو:محمد نعمان/ایکسپریس
کراچی: میٹرک بورڈ آفس کے قریب ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر فائرنگ سے ٹیکنیشن، ڈرائیور اور گارڈ شہید ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی میٹرک بورڈ آفس کے قریب موجود تھی کہ موٹرسائیکل سوار ملزمان آئے اور اندھا دھند فائرنگ کردی، فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی کے ٹیکنیشن وقاص، ڈرائیور خالد اور گارڈ اشرف شدید زخمی ہو گئے۔ ایکسپریس نیوز کے تینوں کارکنوں کو فوری طور پر عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لا کر اسپتال میں دم توڑ گئے۔ جائے وقوعہ کے قریب پولیس اور رینجرز کی نفری بھی موجود تھی تاہم وہاں موجود اہلکاروں کی جانب سے ملزمان کو پکڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
ڈاکٹرز کے مطابق ملزمان نے وقاص کو 2 گولیاں بیٹ اور ایک سینے میں ماری جب کہ ڈرائیورخالد کو ایک گولی سینے میں ماری گئی اور شہید ہونے والے گارڈ اشرف کو 3 گولیاں کندھے اورایک سینے پرماری گئی۔
ایس ایس پی سینٹرل عامرفاروقی کا کہنا ہے کہ ملزمان شلوار قمیض میں ملبوث تھے اور انہوں نے اسلحہ پر سائلنسر نصب کر رکھے تھے جب کہ وہ حملے کے بعد اورنگی ٹاؤن کی جانب فرار ہوئے۔ دوسری جانب حکومت سندھ نے حملہ آووروں کی اطلاع دینے پر 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف، متحد قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین، سابق صدر آصف علی زرداری، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شيخ رشید نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور ذمہ داری لیتے ہیں تو ہم بھی اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، شہریوں اور صحافیوں کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری ہے اور ہم دہشت گردوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر کوشش کر رہی ہے کہ شہر میں امن قائم ہو جس میں ہم 40 فیصد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں تاہم دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنے کے لئے جدید اسلحہ اور ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی ایف آئی آر فوری درج کی جائے گی اور جائے وقوعہ پر غفلت برتنے والے پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
پی ایف یوجے سمیت دیگر صحافی تنظیموں اور مختلف پریس کلب نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کل ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ایکسپریس گروپ کے کراچی آفس پر 2 بارحملہ کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ سال 2 دسمبر کو بھی موٹرسائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے کراچی میں ایکسپریس گروپ کے دفتر پر کریکر بم پھینکے اور فائرنگ کی تھی جس سے ایک گارڈ زخمی ہوگیا تھا جب کہ اگست میں ہونے والے حملے میں ایک خاتون کارکن اور گارڈ زخمی ہوئے تھے۔

Door To Hell in Turkmenistan Flaming for 40 years January 16, 2014 Category: Current Affairs, Education News, Pakistan News - 4 comments Advertisement Door To Hell in Turkmenistan Flaming away for more than 40 years. Read this Interesting story in Urdu:

Door To Hell in Turkmenistan Flaming for 40 years

Wednesday 15 January 2014

پاکستان بھارت تجارتی مذاکرات آج شروع ہوں گے

پاکستان بھارت تجارتی مذاکرات آج شروع ہوں گے

)
پاکستان بھارت تجارتی مذاکرات آج شروع ہوں گے
نئی دہلی(مانیٹر نگ ڈیسک)پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے سلسلے میں سیکریٹری کی سطح کے مذاکرات آج سے نئی دہلی میں شروع ہو رہے ہیں۔مطابق امکان ہے کہ دونوں ممالک دو طرفہ تجارت کو مزید آزادانہ بنانے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے پروگرام پر عملدرآمد کی نئی ٹائم لائن طے کریں گے۔پاکستان اور بھارت نے باہمی تجارت کو بڑھانے کے سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے تین معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں مگر ان پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے جبکہ گذشتہ سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے انتہا پسندوں کا دباو¿ بڑھا اور اسی دباو¿ کے تناظر میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے فی الحال بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر مملکت برائے تجارت خرم دستگیر خان بھی سارک ممالک کے اقتصادی گروپ کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے جمعرات کو نئی دہلی جا رہے ہیں جہاں ان کی اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات متوقع ہے۔سیکریٹری سطح کے مذاکرات کے بعد امکان ہے کہ دونوں وزراءباہمی تجارت بڑھانے کے سلسلے میں مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

Tuesday 14 January 2014

STYLE

AOA...................................................................................................................................................................

HAPPY ............................................................................................................................................TODAY ..










ASIF

Saturday 11 January 2014



مارکسزم اور قوم پرستی کی سیاست )

مارکسزم اور قوم پرستی کی سیاست )

ibhinder@yahoo.co.uk
جب قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی یا خود مختاری کا سوال اٹھتا ہے تو یہ دیکھنا بھی لازمی ٹھہرتا ہے کہ دوسری طرف سے حقیقی مطالبہ کس کا ہے۔ اگر تو مطالبہ عوام کے جذبات کے استحصال پر قائم کیا گیا ہے، یا پھر دوسری طرف کسی ایسی ریاست کے مفادات ہیں کہ جو نئی آزاد ہونے والی ریاست کی بورژوازی کو باآسانی بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے زیر تسلط لاسکتی ہے تو ایسے مطالبے کے حق میں کھڑے ہونا بورژوازی اور سامراجی یلغار کی زد میں آنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں اس وقت ’’بلوچ قوم پرستی‘‘ کی ’تحریک‘ کو اس مظہر کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
مارکسزم کی سیاست میں فرقہ پرستی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، تاہم بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چند ایسے گروہ موجود ہیں جو طبقات کی بنیاد پر حقیقی جدوجہد کرنے کے بجائے رنگ، نسل، قوم پرستی اور مذہب کی سیاست کی جانب مڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ قوم پرستی کے سوال پر لینن واضح کردیتا ہے کہ ’’بورژوا قوم پرستی اور پرولتاریہ بین الاقوامیت دو مخالف نعرے ہیں جو سرمایہ دارانہ دنیا میں دو مختلف طبقات کی نمایندگی کرتے ہیں اور قومی سوال پر دو مختلف پالیسیاں رکھتے ہیں۔‘‘ مزید یہ کہ ’’ہر جدید قوم میں دو اقوام ہوتی ہیں۔‘‘ دو اقوام کی یہ بنیاد طبقاتی ہے: ایک وہ جو ذرایع پیداوار پر قابض ہے اور دوسرا وہ محکوم طبقہ جو اس کے لیے قدر زائد کو پیدا کرتا ہے۔ قوم پرستی کی ہر تحریک کی حمایت یا مخالفت اسی بنیاد کے پیش نظر کی جانی چاہیے۔ ہر قوم کے اندر دو اقوام کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی دو قسم کے مسلمان ہیں: ایک حاکم دوسرا محکوم۔ لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والے اس حقیقت کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی زبان بولنے والے بھی طبقاتی سطح پر منقسم ہیں۔ حقیقی اتحاد لسانی ، مذہبی، نسلی اور علاقائی امتیازات کے بجائے طبقاتی تفریق کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔
بورژوا فلسفے میں ’’قوم پرستی‘‘ حکمرانوں کی آئیڈیالوجی کے علاوہ کچھ نہیں، جسے بورژوا سیاست میں بہت اہمیت حاصل ہے اور جسے حکمرانوں کے مفادات کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بورژوا سیاست میں قوم پرستی کا مقصد خود میں مضمر حقیقی تضاد کو مخفی رکھنا اور اس کے برعکس فرضی تضادات کو تقویت دینا ہوتا ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سرمایہ داری نظام میں قوم پرستی ایک کلیت پسند اور مرکزیت پسند رجحان ہے جو ایک ہی ملک میں مختلف اقوام کی ثقافت، تہذہب، زبان، مذہب اور علاقائیت کے مابین امتیاز و تفریق کو فراموش کرکے انھیں ایک جبری ’’شناخت‘‘ عطا کرتی ہے۔ یہی وہ جبر ہے جو مظلوم اقوام پر روا رکھا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے قوم پرستی اپنی سرشت میں ردِ تکثیریت کی عکاسی کرتی ہے۔ نائن الیون کے بعد جب مغرب و امریکا میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مقصود تھا تو ذرایع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف مسیحی جذبات کو بھڑکایا گیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے جذبات کا انگیخت ہونا بھی لازمی امر تھا۔ برطانیہ میں مسیحی قوم پرستی اور فسطائی رجحانات کو تقویت ملی اور تکثیری معاشرے کی نفی ہوئی۔ تکثیری معاشرہ اقوام کی ’’بلند سطح پر وحدت‘‘ کو قائم کرتا ہے، مگر یہ وحدت سرمایہ داری نظام کے بحران کے ساتھ ہی منہدم ہونے لگتی ہے۔
دائیں بازو کے رجعتی رجحانات یعنی مذہبیت، علاقائیت، نسل پرستی وغیرہ جیسی شناختیں مستحکم ہونے لگتی ہیں۔ برطانیہ میں جنم لینے والے مسلمان جو خود کو برطانوی سمجھتے تھے ان کے مذہب کو دہشت گردی سے جوڑ کر انھیں یہ باور کرایا گیا کہ قومیت کے تصور میں مذہب کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، جب کہ دوسری طرف مذہبی جذبات کا استحصال کرکے مسیحیوں کو برطانویت کے قریب لایا جارہا تھا۔ امریکی صدر جارج بش نے ’’کروسیڈ‘‘ کا لفظ استعمال کرکے اقوام کا تعین مذہب کی بنیاد پر کیا۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ میں مقیم اقلیتوں کو باور کرایا کہ برطانیہ میں مقیم دیگر اقوام پر ’’برطانویت‘‘ کا خیال رکھنا لازم ہے۔ حکمران طبقات لسانی، علاقائی، مذہبی اور نسلی امتیازات کا فائدہ محض اپنے مفادات کے پیش نظر اٹھاتے رہتے ہیں۔ بنیادی مقصد ان کا صرف یہ ہوتا ہے کہ انھیں بھی حکمرانی میں شراکت دار بنایا جائے تاکہ وہ بھی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے رہیں۔
پاکستان میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ کبھی بلوچی قوم پرستی، پشتون قوم، سندھی قوم پرست اور کبھی لسانی بنیادوں پر اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے۔ آخری تجزیے میں لسانی، علاقائی، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عوام کے اذہان کو قومیتوں میں تقسیم کرنا فسطائیت سے ہم آہنگ ہونے کے مترادف ہے۔ قومیت ایک انتہائی پیچیدہ اور مبہم اصطلاح ہے، جس کی کوئی ایسی تعریف ممکن نہیں ہے کہ جس پر تمام سماجی سائنسدان متفق ہوسکیں، تاہم اس کے باوجود جوزف اسٹالن نے قوم پرستی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایک قوم تاریخی طور پر تشکیل پائے ہوئے ایسے طبقے (Community) پر مشتمل ہوتی ہے جو مشترک زبان، علاقہ، معاشی زندگی اور نفسیاتی عمل کا یکساں کلچر کے طور پر اظہار کرے۔‘‘ اگرچہ اسٹالن کی یہ تعریف جامع ہے، مگر اس کے باوجود مکمل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ ہر خطے اور علاقے کے لیے اس کا متعلقہ اور درست ہونا لازمی نہیں ہے۔ تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مذہب ایک اہم عامل کے طور پر ہمیشہ مختلف نسلوں، متنوع لسانی پس منظر اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے سیمنٹ کا کام دیتا رہا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اس کی سب سے جامع مثال ہے کہ جس میں محض مذہب کے نعرے کے تحت ایک الگ ملک کے قیام کو ممکن بنالیا گیا۔
ایک ہی ثقافتی اور سماجی پس منظر رکھنے والی قوم کی نفسیات دو حصوں میں منقسم ہوئی۔ عہد رفتہ میں اگر بلوچستان کی جانب دیکھنے سے عیاں ہوگا کہ جومذہبی آئیڈیالوجی پاکستان کی تخلیق کا باعث بنی، وہ پاکستانی ریاست کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے ناکافی معلوم ہورہی ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں علیحدگی کا مطالبہ جس ’’قوم پرستی‘‘ کی بنیاد پر کیا جارہا ہے اس کی آئیڈیولاجیکل حیثیت بھی اتنی ہی مشکوک ہے جتنی کہ لسانی یا مذہبی بنیادوں پر مشکوک ہوسکتی ہے۔ بورژوا عقلیت کا بنیادی نقص ہی یہ ہے کہ جب یہ خارجی سطح پر حقیقی تضادات کی عملی تحلیل میں ناکام رہتی ہے تو محض اپنی بقا کے لیے ان کے مقابل فرضی تضادات کی تشکیل کرتی ہے۔ عوام کے اذہان میں ان تضادات کو ٹھونسا جاتا ہے، انھیں یقین دلایا جاتا ہے کہ حقیقت یہی ہے جو ان کو بتائی جارہی ہے، بالآخر عوام اس فرضی حقیقت کوہی حقیقی گرداننے لگتے ہیں۔ ’’قوم پرستی‘‘ ایک ایسا ہی تضاد ہے، جو طبقات کے درمیان حقیقی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے، جسے وحشت و بربریت اور تشدد ودہشت کی عکاس سرمایہ دارانہ حکومت کے مفادات اور اقتدار کے دورانیے کی توسیع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک ایسے عہد میں جہاں پیداواری قوتوں کے ارتقا اور سرمائے کی عالمگیریت کے نتیجے میں پرانی تشکیلات کے انہدام کا عمل تیزی سے جاری ہو اور کسی ایسی ’’شناخت‘‘ کے وجود میں آنے کے امکانات مفقود ہوں جو نئی تشکیلات سے ہم آہنگ ہوسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانی، قومی، ثقافتی، نسلی اور مذہبی حوالوں سے قائم شدہ پرانے ’’تعینات‘‘ جن تصورات پر قائم تھے وہ غیر متعلقہ ہوچکے ہیں۔ اس لیے جب تک نئی صورتحال کا معروضی اور مقرونی (Concrete) تجزیہ نہ کرلیا جائے پرانے دعوؤں کی سچائی کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ عہد حاضر میں کمزور اقوام پر سامراجی قبضوں کی نوعیت اٹھارویں اور انیسویں صدی سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔

آئی ایم ایف اور قرض

آئی ایم ایف اور قرض

پاکستان نے آئی ایم ایف کو 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی 25 ویں قسط ادا کردی ہے۔ اس طرح پاکستان نے آئی ایم ایف کو 6 ارب 24 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کردی ہے۔ رواں مالی سال جس کا آغاز جولائی 2013 سے ہوا تھا آئی ایم ایف کو 1 ارب 91 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کر دیے گئے ہیں۔ حالیہ ادائیگی کے بعد پاکستان کے ذمے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت لیے گئے قرض میں سے ایک ارب 38 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی رقم بقایا رہ جائے گی جوکہ ستمبر 2015 تک ادا کرنا ہوں گے۔
پاکستان اور کئی ترقی پذیر ممالک ایسے ہیں جوکہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس ادارے نے ترقی پذیر معیشتوں کی امداد کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی اور بہت سے ترقی پذیر ممالک اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اگر ترقی پذیر ممالک کو اس ادارے کے پروگرام سے فوائد حاصل ہوتے تو بین الاقوامی تجارت میں ترقی پذیر ملکوں کا حصہ بڑھ چکا ہوتا۔ آئے روز جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے تو پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک لرزہ براندام ہوجاتے ہیں۔ ترقی پذیر معیشتوں کی برآمدات کا بڑا حصہ زرعی خام مال اور زراعت پر مبنی صنعتی پیداوار پر ہوتا ہے۔ جس سے انھیں کم زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک سے جو مصنوعات اور ترقی پذیر ممالک ملکی ترقی کی خاطر جتنی مشینریاں درآمد کرتے ہیں ان کی قیمتیں انتہائی بلند ہوتی ہیں اور بالآخر توازن تجارت اکثر و بیشتر ان ممالک کے حق میں نہیں ہوتا اور توازن ادائیگی مشکلات کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔
ایسی صورت میں آئی ایم ایف آگے بڑھتا ہے اور قرض کا ڈول ڈالتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی پسندیدہ اور ناپسندیدہ شرائط رکھ کر قرض کی فراہمی پر آمادہ ہوتا ہے۔ 1993 کے بعد جب تیل کی عالمی قیمتیں اچانک بلند ہوگئیں۔ جب سے ہی پٹرولیم قیمتوں میں آئے دن اضافے سے ترقی پذیر ممالک کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے 1974 میں ایک فنڈ قائم کیا گیا جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہونے والے ممالک کو ادائیگیوں کی سہولت بہم پہنچائی جاتی ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک اس ادارے کی پالیسیوں سے نالاں ہوتے چلے گئے اور کئی ممالک قرض لینے سے اجتناب برتنے لگے۔ 2006 میں جب ایک دفعہ تیل کی قیمتیں تیزی سے بلند ہوتے ہوئے ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر رہی تھی، فوری طور پر آئی ایم ایف نے ترقی پذیر ممالک خصوصاً افریقی ملکوں کے لیے تیل کی ادائیگی کے سلسلے میں پیش آنے والے سخت ترین مالی مشکلات کے حل کا ایک پیکیج متعارف کرایا۔ لیکن بیشتر افریقی اور کئی ترقی پذیر ملکوں نے آئی ایم ایف سے قرض لینے سے انکار کردیا۔
مارچ 2008 میں جب نئی حکومت قائم ہوئی تھی چند ہی ماہ کئی وزیر خزانہ اور مشیر خزانہ آتے رہے۔ جیسے تیسے بجٹ 2008-09 پیش کرنے کے بعد پاکستان کے مالیاتی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دی جانے لگی۔ اس لیے کہ بجٹ پیش کرتے وقت بہت سی توقعات باندھ لی گئی تھیں کہ فلاں دوست ملک سے اتنی امداد مل جائے گی۔ اس دوران مشیر خزانہ مسلسل یہ کہتے رہے کہ اب آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا ہے، پھر جلد ہی یہ کہتے سنے گئے کہ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول تھرڈ آپشن ہوگا۔ ہم دوست ملکوں سے امداد حاصل کرلیں گے، قرض حاصل کرلیں گے۔ ان ہی دنوں اگست 2008 مین فرینڈز آف پاکستان تشکیل پاچکا تھا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں کے باعث عالمی رہنماؤں کو اس طرف راغب کیا کہ ہم وسیع پیمانے پر نقصان اٹھا چکے ہیں لہٰذا پاکستان کو قرض فراہم کیا جائے۔
لیکن پاکستان اپنی معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کوئی امداد حاصل نہ کرسکا۔ بالآخر تھرڈ آپشن کا سہارا لیا گیا اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی طرف سے کڑی اور ناگوار شرائط پیش کرتے ہوئے یہ جتلایا گیا کہ ان پر عملدرآمد سے معیشت بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی۔ پاکستان نے قرض تو حاصل کرلیا لیکن اس کے نتیجے میں بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ افراط زر کی شرح بلند ہوئی روپے کی قدر بار بار کم کی گئی۔ نتیجے میں آج ایک ڈالر 106 روپے کا دستیاب ہے۔ روپے کی قدر دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی۔ واضح رہے کہ 2013 میں آئی ایم ایف سے اس کی شرائط کے مطابق پھر قرض حاصل کیا گیا ہے۔
قرض حاصل کرنے کے بعد جلد ہی اس کی ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے یہ دکھایا گیا ہے کہ جب بھی قسط ادا کرنا ہوتی ہے مارکیٹ میں افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں اور ڈالر کی قلت پیدا ہوجاتی ہے جس سے روپے کی قدر گھٹنے لگتی ہے۔ دوسری طرف مالیاتی ادارے کے مطالبات پر بجلی گیس کی قیمت میں اضافے اور سبسڈی کے خاتمے سے بھی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور بیرون ملک کی جانے والی برآمدی مصنوعات کے لیے بیرونی منڈی سے مقابلہ مزید سخت ہوجاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کو یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملا ہے جس سے برآمدات کا خطے کے دیگر ملکوں سے مقابلہ آسان ہوجائے گا اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں داخلے کی شرائط کے طور پر بجلی گیس کی قیمت میں اضافہ، مہنگائی میں تیزی، سبسڈی میں خاتمے کے باعث اور زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافے کے سبب اب برآمدات کی لاگت بھی بڑھے گی اور پھر خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ مسابقت کی فضا سخت ہوگی اور اتنا ہدف حاصل نہ ہو پائے گا جس کی توقع کی جا رہی ہے۔
لہٰذا ایسی منصوبہ بندی کی جائے اور اس طرح کے اقدامات اٹھائے جائیں کہ اب کشکول اٹھانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جس طرح بھارت نے آئی ایم ایف سے خلاصی حاصل کرلی ہے، پاکستان کے لیے بھی اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اسے بھی آئی ایم ایف کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اگرچہ حکومت نے اپنے اخراجات بہت حد تک کم کرنے کا کہا ہے یہاں تک کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے۔ اسی طرح وزرا کے صوابدیدی فنڈ بھی ختم کردیے گئے ہیں۔ اخراجات میں بھی تقریباً 40 فیصد کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت برآمدات کو بڑھائے اور درآمدات جوکہ غیر ضروری ہیں ان کو کنٹرول کرے۔ پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔ بہرحال ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ گزشتہ 50 برس سے جیسے قرض لے رہے ہیں اسی طرح لیتے رہیں گے یا قرض سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ جیساکہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا تاکہ پاکستان جلد از جلد قرض کے چنگل سے باہر نکل آئے۔

جیناہے تو ذلت سیکھ لو

جیناہے تو ذلت سیکھ لو

میرے ایک دوست کراچی میں رہتے ہیں‘ یہ انتہائی پڑھے لکھے‘ مہذب اور ایماندار انسان ہیں‘ یہ انجینئر تھے‘ سی ایس ایس کیا‘ پوزیشن لی اور سول سروس میں آ گئے‘ اچھے ذوق کے مالک ہیں اور مصوری‘ شاعری‘ ادب‘ موسیقی اور آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھتے ہیں‘ آپ دنیا کی کسی مشہور کتاب یا مصنف کا نام لیں‘ یہ اس سے نہ صرف واقف ہوں گے بلکہ انھوں نے اس کا مطالعہ بھی کر رکھا ہو گا‘ میرے اس دوست کے ساتھ چند دن قبل انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا‘ یہ دوائیں خریدنے کے لیے کراچی کی ایک مارکیٹ میں گئے‘ یہ گاڑی سے اتر رہے تھے کہ گلی سے اچانک دو نوجوان نکلے‘ ایک ان کی گاڑی کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور دوسرے نے ان کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا‘ میرے دوست کو جیبیں خالی کرنے کا حکم دیا گیا‘ انھوں نے پرس اور موبائل فون نوجوان کے ہاتھ میں دے دیا‘ پرس میں ستائیس ہزار روپے تھے‘ نوجوانوں نے رقم نکالی‘ موبائل سے سم نکال کر باہر پھینکی ‘ موبائل جیب میں ڈالا اور وہاں سے جانے لگے.
میرے دوست نے ہاتھ جوڑ کر نوجوان سے درخواست کی ’’بیٹا پرس میں میرے کارڈز ہیں‘ یہ آپ کے کسی کام نہیں آئیں گے‘ آپ اگر مہربانی کر کے یہ مجھے دے دیں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا‘‘ نوجوان نے قہقہہ لگایا‘ پرس زمین پر پھینکا اور میرے دوست کو گالی دے کر بولا ’’چل‘ جھک اور میرے پیروں سے یہ پرس اٹھا‘‘۔ نوجوان کے ہاتھ میں پستول تھا‘ میرے دوست کو محسوس ہوا ’’میں نے اگر اس کی بات نہ مانی تو یہ مجھے گولی مار دے گا‘‘ میرا دوست اس کے قدموں میں جھکا‘ اپنا پرس اٹھایا‘ زمین پر بیٹھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘ نوجوانوں نے قہقہے لگائے اور بھاگ کر گلی میں گم ہو گئے‘ میرا یہ دوست اس دن سے نفسیاتی مریض بن چکا ہے‘ یہ بس ایک ہی بات کرتا ہے ’’میں اس ملک کا باعزت شہری تھا لیکن جوں ہی میرے بیٹے کی عمر کے لڑکے نے میری کنپٹی پر پستول رکھا‘ مجھے ماں کی گالی دی اور مجھے اپنے پاؤں میں جھکنے کا حکم دیا‘ میں نے اسی وقت اپنی عزت‘ عزت نفس‘ انا اور ملک سے محبت کھو دی‘‘ وہ بار بار کہتا تھا ’’مجھے اس وقت اپنے ذلیل ہونے کا احساس ہوا اور میں شاید اب پوری زندگی ذلت کے اس احساس سے باہر نہ نکل سکوں ‘‘۔ مجھے اپنے دوست کے احساس سے اتفاق ہے‘ آپ خود سوچئے‘ آپ انتہائی پڑھے لکھے ہوں‘ آپ ایماندار‘ نفیس اور مہذب بھی ہوں اور آپ پاکستان کی بااختیار سروس کے ممبر بھی ہوں مگر ایک ان پڑھ‘ جاہل اور گنوار لڑکا چلتی سڑک پر آپ کی کنپٹی پر پستول رکھ دے‘ آپ کو گالی دے اور پھر آپ اس کے پاؤں میں جھکنے پر مجبور ہو جائیں تو آپ کی کیا حالت ہو گی؟ کیا آپ خود کو آئینے میں دیکھنے کے قابل رہیں گے اور کیا آپ اپنی نظروں کا سامنا کر سکیں گے؟۔
میں آپ کو ذاتی واقعہ بھی سناتا ہوں‘ میں رات سوا نو بجے اپنے پروگرام کا ابتدائی حصہ ریکارڈ کراتا ہوں‘ ساڑھے نو بجے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں‘ ہم گپ شپ کرتے ہیں‘ لطیفے سنتے اور سناتے ہیں اور میں دس بجے اسٹوڈیو چلا جاتا ہوں‘ میرے ساتھیوں میں ہارون احمد نام کا ایک نان لینئر ایڈیٹر (این ایل ای) بھی شامل تھا‘ جمعرات 9 جنوری کی رات ہم لوگوں نے گپ شپ کی‘ میں دس بجے اسٹوڈیو چلا گیا اور ہارون احمد گھر روانہ ہو گیا‘ یہ راولپنڈی شہر میں رہتا تھا‘ ساڑھے دس بجے اطلاع آئی ہارون احمد کو کمرشل مارکیٹ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا‘ میں نے پروگرام کے وقفے میں تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا‘ دو نوجوانوں نے کمرشل مارکیٹ میں اس سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی‘ ہارون نوجوان تھا‘ اس نے یہ ذلت گوارہ نہ کی‘ اس نے مزاحمت کی اور نوجوانوں نے اس کے سر میں گولی مار دی‘ ہارون احمد شہید ہو گیا‘ آپ تصور کیجیے‘ آپ ایک نوجوان سے روز ملتے ہوں‘ وہ آپ کے پاس سے اٹھ کر جائے اور آپ کو پھر اس کی موت کی خبر ملے تو آپ کی نفسیاتی حالت کیا ہو گی اور موت کا باعث بھی اڑھائی ہزار روپے کا موبائل فون ہو تو آپ کیا محسوس کریں گے؟
مجھے اور میری ٹیم کو اس وقت اپنی ذلت اور بے بسی کا جتنا احساس ہوا آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے‘ ہمیں محسوس ہوا‘ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں آپ کا پرس‘ آپ کا اڑھائی ہزار روپے کا موبائل آپ کی جان‘ آپ کی عزت نفس اور آپ کے وقار سے زیادہ قیمتی ہے‘ میرے ایک کالم نگار دوست ہیں‘ یہ لاہور میں رہتے ہیں‘ یہ بھی انتہائی پڑھے لکھے اور نفیس انسان ہیں‘ ان کا خاندان تین صدیوں سے معزز ہے‘ ان کے ساتھ لاہور میں واقعہ پیش آیا‘ یہ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے‘ گاڑی کھڑی کی‘ ان کی اہلیہ گاڑی میں بیٹھ گئی‘ یہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے‘ یہ واپس آئے‘ گاڑی کے نزدیک پہنچے تو ایک نوجوان نے پستول نکالا اور ان کی اہلیہ پر تان دیا‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ آپ کے ساتھ آپ کی بیٹی ہو اور اہلیہ پر پستول تانا جا چکا ہو تو آپ کیا کریں گے‘ انھوں نے بھی پرس نکالا اور نوجوان کے حوالے کر دیا‘ نوجوان نے ان کی اہلیہ کو سونے کی چوڑیاں اتارنے کا حکم دیا‘ بھابھی نے بھی اپنی چوڑیاں اتار کر اس کے حوالے کر دیں‘ اس نے گاڑی کی چابی نکالی‘ موٹر سائیکل پر بیٹھا اور یہ کہہ کر روانہ ہو گیا ’’آپ کو چابی تھوڑی دور سڑک پر مل جائے گی‘‘ وہ نوجوان ڈاکو چلا گیا اور میرے کالم نگار دوست سڑک پر جھک کر چابی تلاش کرنے لگے‘ چابی مل گئی‘ یہ سیدھے بھی ہو گئے لیکن ان کی عزت نفس‘ انا اور ملک اور معاشرے سے محبت اسی سڑک پر کہیں رہ گئی‘ وہ واپس نہ مل سکی۔
آپ گوجرانوالہ کے ایک بزنس مین کا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ یہ گھر میں سوئے ہوئے تھے‘ ڈاکو گھر میں داخل ہوئے‘ خاندان کو ڈرائنگ روم میں جمع کیا‘ بزنس مین کو فرش پر اکڑوں بیٹھنے کا حکم دے دیا گیا‘ یہ انتہائی معزز انسان تھے‘ پورے شہر میں ان کی عزت تھی لیکن یہ پستول کی نلی کی وجہ سے اپنی بیوی‘ بہوؤں‘ بیٹی اور بیٹوں کے سامنے فرش پر اکڑوں بیٹھ گئے‘ گھر کی تمام چابیاں ڈاکوؤں کے حوالے کر دی گئیں‘ ڈاکو چار گھنٹے ان کے گھر میں رہے‘ وہ چلے گئے لیکن یہ آج بھی اندر سے زخمی ہیں‘ یہ آج بھی اپنی بیوی‘ اپنی بہوؤں کا سامنا نہیں کر پاتے‘ میں نومبر میں تھائی لینڈ جا رہا تھا‘ میرے ساتھ کراچی کے ایک مشہور سرجن بیٹھے تھے‘ یہ مائیکرو سرجری کے ماہر ہیں‘ اس سرجری میں انسانی بدن پر چیرا نہیں لگایا جاتا‘ انسانی بدن کے قدرتی سوراخوں مثلاً ناف‘ ناک اور حلق میں نالی ڈال کر کیمرے کے ذریعے آپریشن کیا جاتا ہے‘ یہ ملک میں اس نوعیت کے واحد سرجن ہیں‘ یہ برطانیہ سے ملک کی محبت میں کراچی آئے‘ یہ نوجوان سرجنوں کو سرجری کی نئی تکینک بھی سکھا رہے ہیں‘ یہ مجھے بتانے لگے‘ میں رات کے وقت ایمرجنسی آپریشن کے لیے اسپتال جا رہا تھا‘ مجھے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے روکا‘ ایک گاڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا جب کہ دوسرے نے دروازہ کھلوایا‘ میرا پرس اور موبائل فون لیا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گلیوں میں غائب ہو گئے‘‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ’’وہ میری زندگی کا ذلت آمیز ترین لمحہ تھا‘ میں نے جتنی بے بسی اور لاچاری اس وقت محسوس کی‘ میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ نے مزاحمت کیوں نہیں کی‘‘ وہ بڑے دکھ سے بولے ’’میں روز ایسے تین چار زخمیوں کا آپریشن کرتا ہوں جنھوں نے ڈاکوؤں سے آرگومنٹ کی غلطی کی‘ گولی کھائی اور موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں پہنچ گئے‘ میں لوگوں کو روز مرتے دیکھتا ہوں چنانچہ میں نے جب نوجوانوں کو دیکھا تو میں نے منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر موبائل فون اور پرس انھیں پکڑا دیا‘‘۔
یہ چند واقعات ہیں‘ آپ کو کراچی سے لے کر پشاور اور گلگت سے لے کر تربت تک ایسی ہزاروں کہانیاں ملیں گی‘ یہ کہانیاں‘ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں‘ ملک میں لاء اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ آپ خواہ کوئی بھی ہیں‘ آپ خواہ کسی بھی طبقے‘ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں‘ آپ کو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ روک کر لوٹ لیا جائے گا اور آپ بے بسی سے لٹنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے‘ ڈاکے میں دو نقصان ہوتے ہیں‘ مال اور انا۔ مال کے نقصان کی ویلیو صرف دس فیصد ہوتی ہے‘ نوے فیصد نقصان آپ کی انا‘ آپ کی عزت نفس اور آپ کا احساس تفاخر اٹھاتا ہے‘ آپ نیا موبائل خرید لیتے ہیں‘ آپ دولت بھی دوبارہ کما لیتے ہیں لیکن آپ کی مجروح عزت نفس‘ آپ کی زخمی انا اور آپ کا کٹا پھٹا احساس دوبارہ بحال نہیں ہوتا‘ آپ زندگی بھر اس ٹرامے سے باہر نہیں آتے چنانچہ میرا آپ کو مشورہ ہے‘ آپ نے اگر اس ملک میں رہنا ہے‘ آپ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ ذلت سیکھ لیں‘ آپ اپنی عزت نفس اور انا کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ آپ کو اب زندگی اور عزت نفس میں سے کوئی ایک قربان کرنا پڑے گی‘ آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ڈاکوؤں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر زندہ رہیں اور آپ کو اگر یہ قبول نہیں تو پھر کسی ڈاکو کی گولی کا انتظار کریں‘ یہ انتظار آپ کی شہریت‘ آپ کا شناختی کارڈ ہے۔

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *