Wednesday 26 February 2014

TERROR

ایک پرانا لطیفہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہوا تو امریکیوں نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پاکستان میں ہوتا اور تباہ ہوتا تو حکومتِ پاکستان کیا کرتی؟ جواب: ”ڈبل سواری“ پر پابندی لگا دیتی۔ اب اس جواب کو تھوڑا جدید کر لیں، جواب: ڈبل سواری اور موبائل نیٹ ورک پر پابندی لگا دیتی۔

ایک دفعہ جنگل میں الیکشن ہوئے اور بندروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بندر بادشاہ بن گیا۔ شیر کو اپنی اس
ہار پر بہت افسوس ہوا۔ ایک دن اس نے راہ چلتے ہرنی کا بچہ پکڑ لیا۔ ہرنی دوڑی دوڑی بادشاہ (بندر) کے دربار میں پہنچی اور فریاد کی کہ شیر نے میرا بچہ پکڑ لیا ہے۔ بادشاہ سلامت انصاف کیجئے اور اسے چھڑائیے۔ بندر نے کہا تم فکر ہی نہ کرو ابھی چھڑا دیتا ہوں۔ یوں بندر نے اپنی دوڑیں لگا دیں۔ شیر کے پاس جانے یا کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرنے کی بجائے، بڑی تیزی سے ایک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے ہوئے پورے جنگل کا چکر لگایا۔ پھر تھک ہار کر ہرنی کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، دیکھو میں نے تو بہت جان مار کر دوڑ لگائی ہے، اپنی ساری توانائی لگا دی ہے، اب بھی اگر شیر تمہارا بچہ نہ چھوڑے تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں، شیر یقیناً دہشت گرد ہے۔ مزید بادشاہ بندر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام دہشت گرد شیر کا کیا دھرا ہے، جو میری حکومت گرانا چاہتا ہے۔ میں نے بہت دوڑ لگائی جو آپ کے سامنے ہے۔ اب ہم نے بندروں کی کمیٹی بنا دی ہے اور مجرموں کو جلد ہی کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔

تقریباً ہر دور میں ہمارے حکومتی بندروں کا حال بھی کچھ اس بندر جیسا ہی رہا ہے۔ جس سمت میں دوڑ لگانی چاہئے اس طرف ذرہ برابر بھی نہیں جاتے بلکہ بندر کی طرح فضول دوڑ لگاتے ہوئے ڈبل سواری پر پابندی اور اب زیادہ سے زیادہ موبائل نیٹ ورک بند کر دیتے ہیں۔ جتنی ہماری حکومتیں ہر کام پر کمیٹیاں بنا چکی ہیں اور ان کمیٹیوں کے ممبران کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اگر ہر کمیٹی کے ممبر مختلف ہوں تو پھر یقین کرو پوری عوام کمیٹیوں کی ممبر بن جائے۔ مگر کمیٹیاں بنتی ہیں، ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں بندے جاتے ہیں۔ الاؤنس ملتے ہیں اور پھر فائلیں بند، غریب عوام کا پیسہ ہضم۔ اس ملک کا ایک المیہ تو یہ بھی ہے کہ چند گنے چنے اچھے عہدیداران کے علاوہ جو جتنا بڑا بندر ہے وہ اتنے بڑے عہدے پر جا بیٹھتا ہے۔

کافی عرصہ پہلے ایک خبر پڑھی کہ حکومت پاکستان نے ایک بڑے پروجیکٹ پر کروڑوں روپے لگانے ہیں جس کے تحت بڑے بڑے سرکاری افسروں کو بلیک بیری موبائل لے کر دیئے جائیں گے تاکہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی اچھی خدمت کر سکیں۔ اب پتہ نہیں اس پر عمل ہوا تھا یا نہیں مگر جب میں نے یہ خبر پڑھی تھی تو مجھے بہت ہنسی آئی کہ وہ افسر جو سرکاری کاموں کی تفصیلات ای میل وغیرہ کرنے کی بجائے اپنا ”ٹی اے ڈی اے“ بنانے کے چکر میں سرکاری گاڑیاں دوڑاتے رہتے ہیں، ان کو بلیک بیری کی بجائے ”کھوتے“ لے کر دو۔ ویسے بھی گدھا کیا جانے ادرک کا سواد۔

پچھلے دنوں سننے میں آیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا نے کئی مہینے دن رات محنت کے بعد ووٹر فہرست تیار کیں۔ میں کوئی تیس مار خاں نہیں مگر دس منٹ میں ”کیوری“ لکھ کر دیتا ہوں۔ اگر نادرا کی ڈیٹابیس کسی بندے کے پتر ادارے یا ڈویلپر نے بنائی ہے تو پھر ہر علاقے کے حساب سے اور ووٹ دینے کی عمر کے مطابق فہرستیں خودکار نظام کے تحت بن جائیں گی۔ آپ اس دعوی کو کوئی بڑی بات نہ سمجھئے بلکہ جو بھی تھوڑا سا بھی ڈیٹابیس کے بارے میں جانتا ہے وہ یہ کام چٹکیوں میں کر سکتا ہے۔ مگر حیرانی تب ہوتی ہے جب یہ لوگ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی اپنے ”بندر“ دوڑاتے ہیں اور عوام کو بتاتے ہیں کہ دیکھو ہم نے کتنی دوڑ لگائی۔

آپ خود اندازہ کرو کہ جن لوگوں کے پاس ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی کوئی سب ڈومین یا کسی ڈومین کا کوئی خاص یوآرایل بند کرنے کا نظام نہیں انہیں بندر نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ موبائل نیٹ ورک کے لائسنس تو جاری کر دیئے مگر جنہوں نے مستقبل میں ہونے والے بے ہنگم موبائل نیٹ ورک پر ذرہ برابر بھی غور نہ کیا انہیں بندر نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟

ایک ہندی فلم ”اے وینس ڈے“ میں ایک جگہ ایک بڑے افسر کو ایک عام شہری کہتا ہے کہ ”انٹرنیٹ پر بم ٹائیپ کر کے سرچ مارئیے، 352 سائیٹس ملیں گی کہ بم کیسے بنایا جاتا ہے، کیا کیا چیزیں استعمال ہوتی ہیں، ساری معلومات ملی گی، مفت میں“۔

کچھ ایسا ہی ہم اپنی حکومت کو کہتے ہیں کہ پاگلو! کاش جعلی ڈگریوں کی بجائے تھوڑی سی معلومات حاصل کر لیتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ ڈبل سواری پر پابندی لگانے یا موبائل نیٹ ورک بند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ انٹرنیٹ پر تلاش کرو تو ”ہزاروں“ سائیٹیں ملیں گی جو نئے سے نئے رابطے کے طریقے بتائیں گی، مفت میں۔ موبائل نیٹ ورک بند بھی کر دو تو پھر بھی کمیونیکیشن کے ایک ہزار ایک طریقے موجود ہیں اور تو اور ہال روڈ لاہور چلے جاؤ۔ نہایت ہی سستے ایف ایم ٹرانسمیٹر کے ایسے ایسے بنے بنائے سرکٹ ملیں گے جس سے چٹکیوں میں پورا ایف ایم ریڈیو سٹیشن بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رنگ رنگ کی اور بہت طاقتور واکی ٹاکی مل جائیں گی۔ دور جانے کی ضروری نہیں، پی ٹی سی ایل کے ساتھ زیادہ طاقت ور کارڈلیس سیٹ لگا کر سو دو سو کلومیٹر دوری سے بھی بات کی جا سکتی ہے۔ زیادہ طاقت والے وائی فائی اومنی اینٹینے لگا کر بذریعہ لین یا انٹرنیٹ بات چیت کی جا سکتی ہے بلکہ ویڈیو تک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تو چند مشہور اور عام طریقے بتائے ہیں جبکہ کمیونیکیشن کے دیگر بے شمار اور محفوظ طریقے سستے داموں مل جاتے ہیں۔

اگر آپ کو لگے کہ میری ان باتوں سے کوئی شرپسند آئیڈیا لے کر خرابی کر سکتا ہے تو عرض یہ ہے کہ یہ کوئی راز کی یا راکٹ سائنس باتیں نہیں بلکہ یہ تو وہ باتیں ہیں جو ایک معمولی سا ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والا بھی جانتا ہے، مگر ہمارے بندروں کو معلوم نہیں۔ بالفرض اب اگر موبائل نیٹ ورک والوں نے بندروں کو چنے یا مکئی ڈالنی چھوڑ دی ہے تو اس میں عوام کا تو کوئی قصور نہیں۔ کوئی ان بندروں کو بتائے کہ ڈبل سواری پر پابندی یا موبائل نیٹ ورک بند کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ چین نے ایسے ایسے بچوں کے کھلونے بنا دیئے ہیں، جو ”کوڈیوں“ کے بھاؤ مل رہے ہیں اور چند تبدیلیوں کے بعد چلتے پھرتے بم بن جاتے ہیں۔ کوئی تو انہیں سمجھائے کہ انٹرنیٹ پر ایسی چیزوں کے بارے میں تلاش کریں تو ہزاروں طریقے اور راستے ملتے ہیں۔ اس لئے بندروں جیسی دوڑیں لگانے کی بجائے کوئی انسانوں والے کام کرو اور عوام کو مرنے سے بچاؤ۔ خود عیاشیاں کرتے پھر رہے ہو اور عوام کو دہشت گرد کتوں کے سامنے ڈال دیا ہے۔ اگر ایک بھی کسی ”پاگل سیانے“ عام شہری کا میٹر گھوم گیا تو ”اے وینس ڈے“ والے عام شہری کی طرح تمہیں ناکوں چنے چبوا دے گا۔ مانا کہ اس عوام کی اکثریت لمبی تان کر غفلت کی نیند سو رہی ہے اور اسے ابھی تک اپنے حق کا بھی نہیں پتہ مگر پھر بھی عوام کے ”صبر“ کا امتحان نہ لو، اس عوام کو نہ آزماؤ، نہیں تو پھر تمہیں چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی

Saturday 22 February 2014

صبرآزما امن کی راہ



Pakistan Railway Will Inspect Railway Tracks From Drones

pakistantime5
Pakistan Railway authorities have decided to use drone technology for inspection of railway tracks. This technology is going to be used due to increasing bomb blasts on railway tracks especially the one from Karachi to Peshawar and Quetta. These drones will examine an area from 3 to 30 kilometers and will provide its video and pictures to authorities.
Due to continuous bomb blasts on railway tracks Pakistan railway authority is now going to use these technologies. The 1600 kilometer railway track of Karachi to Quetta and Peshawar are in first priority of authorities and will be monitored by 54 drones.
The drone that ranges of 3 kilometer has a price of 3 lac rupees while the drone that has a range of 30 kilometers costs 25 lac rupees. The total cost for this project will range from 15 to 20 crore rupees, said experts of a private company in railway headquarters of Lahore.
Experts in the briefing has also suggested railway authorities to lay down a vibrating system made of optic fiber on railway tracks in order to get report of bombs on track. Experts also suggest about using scanners and thermal cameras in the briefing.
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/02/22/pakistan-railway-inspect-railway-tracks-drones/#sthash.rj3hgZ5y.dpuf

Pakistan Railway Will Inspect Railway Tracks From Drones

pakistantime5
Pakistan Railway authorities have decided to use drone technology for inspection of railway tracks. This technology is going to be used due to increasing bomb blasts on railway tracks especially the one from Karachi to Peshawar and Quetta. These drones will examine an area from 3 to 30 kilometers and will provide its video and pictures to authorities.
Due to continuous bomb blasts on railway tracks Pakistan railway authority is now going to use these technologies. The 1600 kilometer railway track of Karachi to Quetta and Peshawar are in first priority of authorities and will be monitored by 54 drones.
The drone that ranges of 3 kilometer has a price of 3 lac rupees while the drone that has a range of 30 kilometers costs 25 lac rupees. The total cost for this project will range from 15 to 20 crore rupees, said experts of a private company in railway headquarters of Lahore.
Experts in the briefing has also suggested railway authorities to lay down a vibrating system made of optic fiber on railway tracks in order to get report of bombs on track. Experts also suggest about using scanners and thermal cameras in the briefing.
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/02/22/pakistan-railway-inspect-railway-tracks-drones/#sthash.rj3hgZ5y.dpuf

Pakistan Railway Will Inspect Railway Tracks From Drones

pakistantime5
Pakistan Railway authorities have decided to use drone technology for inspection of railway tracks. This technology is going to be used due to increasing bomb blasts on railway tracks especially the one from Karachi to Peshawar and Quetta. These drones will examine an area from 3 to 30 kilometers and will provide its video and pictures to authorities.
Due to continuous bomb blasts on railway tracks Pakistan railway authority is now going to use these technologies. The 1600 kilometer railway track of Karachi to Quetta and Peshawar are in first priority of authorities and will be monitored by 54 drones.
The drone that ranges of 3 kilometer has a price of 3 lac rupees while the drone that has a range of 30 kilometers costs 25 lac rupees. The total cost for this project will range from 15 to 20 crore rupees, said experts of a private company in railway headquarters of Lahore.
Experts in the briefing has also suggested railway authorities to lay down a vibrating system made of optic fiber on railway tracks in order to get report of bombs on track. Experts also suggest about using scanners and thermal cameras in the briefing.
- See more at: http://www.pakistantv.tv/2014/02/22/pakistan-railway-inspect-railway-tracks-drones/#sthash.rj3hgZ5y.dpuf

رحمت اللعالمین کی جائے ولادت کی شہادت کا خطرہ؟


رحمت اللعالمین ﷺکی جائے ولادت کی شہادت کا خطرہ؟ رحمت اللعالمین ﷺکی جائے ولادت کی شہادت کا خطرہ؟ رحمت اللعالمین ﷺکی جائے ولادت کی شہادت کا خطرہ؟ رحمت اللعالمین ﷺکی جائے ولادت کی شہادت کا خطرہ؟ رحمت اللعالمین ﷺکی جائے ولادت کی شہادت کا خطرہ؟
مکہ المکرمہ (مانیٹرنگ ڈیسک)آثار قدیمہ کے ایک سعودی ماہر نے خبردار کیا ہے کہ مکہ میں تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے نبی کریم ﷺکی جائے ولادت تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔سعودی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر عرفان العلاوی نے بی بی سی کو بتایا کہ مکہ میں تعمیر نو کے اربوں ڈالر کے نئے منصوبوں کے تحت ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺکی جائے ولادت پر نئی عمارتیں بنادی جائیں۔حضرت محمد ﷺکی جائے پیدائش جسے ’موّلِد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے مسجد الحرام کے ساتھ واقع ہے اور اس وقت بھی اس کے آثار پر ایک لائبریری قائم ہے۔یہ لائبریری دو سال پہلے بند کر دی گئی تھی اور ڈاکٹر علاوی کے بقول اب اس عمارت کو مسمار کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ نے بھی حال ہی میں اس بارے میں اپنی خبر میں کہا ہے کہ اس تعمیراتی منصوبے کی انچارج سعودی کمپنی بن لادن گروپ نے تجویز دی ہے کہ اونچی بنیاد پر قائم لائبریری اور اس کے نیچے واقع عمارت کوگراکرامامِ کعبہ کی رہائش گاہ اور ساتھ واقع شاہی محل کے لیے راستہ نکالا جائے۔خیال رہے کہ سعودی عرب کے حکام اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ جگہ پیغمبر اسلام کی جائے ولادت ہے اور انھوں نے اس لائبریری میں ایسی عبارات والے بورڈ بھی نصب کیے ہوئے ہیں جن میں زائرین کو وہاں جانے سے منع کیا جاتا ہے۔تاہم ڈاکٹر علاوی کا کہنا ہے کہ صدیوں پرانے نقشے اور دستاویزات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہی نبی کریم ﷺکی پیدائش کا مقام ہے۔
خیال رہے کہ مکہ میں عازمین جج اور زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے پرانی عمارتوں کے انہدام اور ان کی جگہ بلند و بالا ہوٹلوں اور دیگر کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔اگرچہ اس عمل کے دوران بہت سے ایسے تاریخی مقامات بھی منہدم کیے گئے ہیں جو پیغمبر اسلام کے زمانے کے تھے لیکن سعودی حکام کا موقف ہے کہ حاجیوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے یہ اقدامات ضروری ہیں۔

Wednesday 19 February 2014

itbwp.blogspot.com

Everyone is Welcome!
Unlimited Job Positions!
Anyone can Join!
No Experience required!
Instant Account Setup and Money Making!
images/lrg_awardWinning.jpg
You can Make 1200 Dollars Today, Check Job after creating account and login to your panel.
  Main Page F.A.Q Contact us  
 
Account Area
=> TASK: Use the link below to generate traffic and earn money 10$ for every unique visitor that clicks your link and visit it.
Good places to start posting your link are social websites like Facebook, Twitter, Google+, Youtube, forums, chat rooms, blogs, etc.
We Recommends you to Make your referral link Short first before start it promoting, Make your referral Url Short at: https://bitly.com/shorten/
 
 Referral Stats  
Today visits: 0
Total visits: 0
Total Earnings
US$
25
 Payment Withdraw
Payment Status:  Enable
Withdrawal Status: Not Requested
  Withdrawal Type: Cheque
Minimum Withdrawal: 300$
  Dear  ASIFIQBALBWP! Your account is schedule to payout instantly as soon the withdrawal is requested.

Your Payment Withdrawal Option will appear here, when you will reach you minimum payout limit of 300$

You need [ 275 $ ] to get payout request form


Withdrawal Note:
Before sending the payment request, please double check your account details, i.e. your PAYEE NAME, ADDRESS and Payment Method. Once you submit your request, details will not be change at any cost.
System Updates:
Payment Gateway Status: Active
Anti-Cheat Status: Active
Account Standing: Level 1 (Starter)
Member Guide:
How do I promote my referral link?
Promote your referral link on forums, blogs, comments, chat rooms, chats, facebook wall, facebook pages, groups, twitter, ptc sites, advertising websites to get link visits and earn money on every visit you sent through your link

When will I get paid?
The minimum balance required for payout is 100$ and you can get paid through PayPal, Cheque, Western Union, Money Gram, bank transfer at end of every month.

How much can I earn?
You can earn without any limits, it depends solely on your efforts and how much you work to promote your link. Many of our top members are earning more then 200$ per day and 5,000$+ per month

This can't be real. Are you giving free money?
No, we are not giving away free money. We are paying you in order to generate traffic to our advertiser's websites. We will get paid from our advertisers for the traffic we bring to them and paid commission to you people.

Anti-Cheat
Please note that we have a strong anti-cheat system, so do not bother sending fake traffic. You will get credited about it, but eventually you will not get paid and your account will get banned. Only send real people from real pages.
Note: Please note that if you have not logged in to your account for more than 30 days, all your earnings will be lost. 

Tuesday 18 February 2014

A Map of the World's Most Dangerous Countries for Drivers

A Map of the World's Most Dangerous Countries for Drivers

A new study from the University of Michigan maps global fatalities from car accidents.

Reuters
Driving a car is safer than ever for the simple reason that cars are safer than ever—thanks to features like seat belts, air bags, and electronic stability control.  That's one reason why deaths per miles driven have plummeted around the developed world in the five decades since Ralph Nader published Unsafe at Any Speed. In fact, the U.S. used to be the safest country for drivers among all OECD countries in the early 1970s. By the middle of the last decade, the rest of the world had caught up.

This week, a new study (pdf) from the Transportation Research Initiative at the University of Michigan looks at global driving fatalities with up-to-date World Health Organization data. Around the world, deaths in fatal car crashes are 1/6th as likely as dying from a common health problem, like heart disease. In the U.S., where road crashes account for just 2 percent of deaths, individuals are 13 times more likely to die from cancer.
Here is the map of driving fatality rates per capita, with the most deadly countries (led by Namibia) in red and the safest countries (led by the Maldives) in green. The world average is 18 fatalities from a car accident per 100,000 individuals. The U.S. is just under that figure—at 14, compared to Australia (7) and the U.K. (5).

The study goes on to map fatality rates from cancer, which shows an opposite picture, with the lowest rates in Africa and the highest rates in Europe. In fact, 24 of the 25 countries with the highest per capita cancer fatalities are in Europe. The 10 nations with the highest rates are Hungary, Croatia, Denmark, Slovenia, Italy, San Marino, Japan, Latvia, Estonia, and the Czech Republic.

This isn't a morbid point so much as a truism: The data of death is really more like a picture of the way we live. It is lower-income and developing countries where auto fatalities post a sizable threat to individuals, compared to heart disease and cancer, whose risks rise with old age and obesity (both hallmarks of richer nations). In 21 African countries, from Namibia to Tanzania, auto fatalities killed half as many people as cancer did. In the OECD, the U.S and South Korea are, relatively, the most dangerous countries for drivers, and cancer deaths outnumber car fatalities by at least 10-to-1.

Monday 17 February 2014

یہ مذاکرات


وزیراعظم راجیو گاندھی نہرو خاندان کی تیسری نسل تھے‘ یہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کے سربراہ اور بھارت کے وزیراعظم بنے‘ بہرامنام راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر تھے‘ راجیو گاندھی نے 1987ء میں راجستھان کی سرحد پر فوج تعینات کر دی‘ بھارتی فوج جنگ کے لیے تیار کھڑی تھی‘ وزیراعظم کے اشارے کی دیر تھی اور بھارتی فوج پاکستان پر حملہ کر دیتی‘ ان دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر تھی‘ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جے پور میں ٹیسٹ جاری تھا‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوفناک ٹینشن تھی‘ جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی تھی لیکن پھر اچانک ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
جنرل ضیاء الحق اپنے صدارتی جہاز میں سوار ہوئے اور بھارت کی طرف سے دعوت کے بغیر دہلی روانہ ہو گئے‘ جنرل صاحب کرکٹ میچ دیکھنے انڈیا گئے‘ جنرل ضیاء کی اس غیر سفارتی حرکت نے بھارت میں سنسنی پھیلا دی‘ راجیو گاندھی پاکستانی صدر سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کابینہ اور اپوزیشن نے انھیں دہلی ائیرپورٹ جانے اور جنرل ضیاء الحق کا استقبال کرنے پر مجبور کر دیا‘ اس کے بعد کیا ہوا‘ یہ آپ بہرامنام کی زبانی ملاحظہ کیجیے۔
’’کابینہ اور اپوزیشن لیڈروں نے راجیو گاندھی کو سمجھایا‘ آپ اگر پاکستانی صدر کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ نہیں جائیں گے تو عالمی سطح پر بھارت کی بہت بے عزتی ہو گی چنانچہ راجیو گاندھی ہمارے اصرار پر نیو دہلی ائیرپورٹ پہنچ گئے‘ پاکستانی صدر طیارے سے اترے‘ راجیو نے جنرل ضیاء سے ہاتھ ملایا لیکن اس نے جنرل ضیاء الحق کے چہرے کی طرف نہیں دیکھا‘ راجیو نے ہاتھ ملاتے ہوئے مجھے حکم دیا‘ بہرامنام جنرل صاحب میچ دیکھنے آئے ہیں‘ انھیں فوراً روانہ ہو جانا چاہیے‘ آپ ان کے ساتھ جاؤ اور ان کا خیال رکھنا‘ یہ جنرل ضیاء الحق کی سیدھی سادی بے عزتی تھی لیکن میں جنرل ضیاء کا رد عمل دیکھ کر حیران رہ گیا‘ وہ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے‘ وہ اس بے عزتی کے باوجود مسکراتے رہے‘ جنرل ضیاء الحق جے پور کے لیے روانہ ہونے لگے تو وہ بھارتی وزیراعظم کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور نہایت ہی ٹھنڈے لہجے میں بولے‘ مسٹر راجیو !آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں‘ آپ ضرور کریں لیکن آپ ایک بات یاد رکھئے گا‘ اس حملے کے بعد دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی‘ یہ صرف راجیو گاندھی اور ضیاء الحق کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہوگی‘ یہ نیو کلیئر وار ہو گی اور جنگ میں ہو سکتا ہے پورا پاکستان تباہ ہو جائے مگر اس کے باوجود دنیا میں مسلمان رہیں گے لیکن آپ یہ یاد رکھنا اس جنگ کے بعد دنیا میں کوئی ہندو نہیں بچے گا‘‘۔
بہرامنام کے بقول ’’یہ فقرے بولتے وقت ضیاء الحق کی آواز اور آنکھوں میں اتنی سختی اور اتنا عزم تھا کہ وہ مجھے اس وقت دنیا کے خطرناک ترین شخص دکھائی دیے‘ راجیو گاندھی کی پیشانی پر پسینہ آگیا جب کہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پھیل گئی‘ جنرل ضیاء الحق نے یہ فقرے بڑی ہی سنجیدگی سے کہے‘ وہ اس کے بعد مسکرائے اور مجھے اور راجیو گاندھی کو چھوڑ کر وہاں موجود تمام لوگوں کے ساتھ بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا‘ وہ بھارتی وزیراعظم کو جوہری جنگ کی دھمکی دینے کے باوجود بہت خوش اور ہلکے پھلکے موڈ میں دکھائی دے رہے تھے‘ میں ان کے اعصاب اور اداکاری پر حیران رہ گیا‘‘۔
بہرامنام کے تاثرات سو فیصد درست تھے‘ جنرل ضیاء الحق کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی مضبوط اعصاب‘ اپنی اندرونی کیفیات کو چھپانے‘ اداکاری اور انکساری کی بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا‘ یہ دوسروں کواپنے فیصلوں کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کے اعصاب کس قدر مضبوط تھے‘ آپ مزید تین واقعات ملاحظہ کیجیے‘ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگایا‘ یہ مارشل لاء کی رات تک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملتے رہے اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا شاطر اور اڑتی چڑیا کے پر گننے والا شخص بھی جنرل ضیاء الحق کی نیت نہ بھانپ سکا‘ بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق سے اس قدر مطمئن تھے کہ 5 جولائی کی رات جب فوج وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوئی تو بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو فون کیا اور ان سے کہا ’’ ضیاء مجھے گھر کے اندر فوجی نظر آ رہے ہیں‘ چیک کرو یہ کون لوگ ہیں‘‘ دوسرا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی رات تھی‘ جنرل ضیاء الحق نے 3 اپریل 1979ء کے دن بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا حکم دیا‘ یہ اس حکم کے باوجود معمول کے مطابق کام کرتے رہے‘ رات کو گھر گئے‘ کھانا کھایا‘ بیگم صاحبہ کے ساتھ روٹین کی گفتگو کی اور سو گئے‘ بیگم صاحبہ تک کو ان کے فیصلے کی بھنک نہیں پڑی۔
اگلی صبح چار اپریل کو وزارت خارجہ میں میٹنگ تھی‘ جنرل ضیاء الحق مقررہ وقت پر میٹنگ کے لیے پہنچے‘ کرسی صدارت پر بیٹھے اور بڑے اطمینان سے کہا ’’ میں میٹنگ سے پہلے ایک اناؤنسمنٹ کرنا چاہتا ہوں‘ آج صبح عدالت کے حکم پر سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے‘ ان کی میت ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش میں پورے اعزاز کے ساتھ دفن ہو چکی ہے‘ آپ لوگ ایجنڈا کھولیں اور میٹنگ شروع کریں‘‘ یہ اعلان سن کر میٹنگ میں موجود تمام لوگوں کے چہروں کا رنگ اڑ گیا اور ٹانگیں کانپنے لگیں مگر جنرل ضیاء الحق پورے اطمینان سے ایجنڈا ڈسکس کرتے رہے ‘ انھوں نے اس کے بعد بھٹو کے بارے میں منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا‘ آپ تیسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ ضیاء الحق نے 27 مئی 1988ء کی سہ پہر محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کر دی‘ جنرل ضیاء الحق نے اس سے ایک دن بعد چین کے دورے پر جانا تھا‘ جنرل ضیاء الحق 27 مئی کا سارا دن چین کے دورے پر بریفنگ لیتے رہے‘ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام جنرل صاحب کو آرمی ہاؤس راولپنڈی میں چین کے بارے میں بریف کرتے رہے‘ جنرل ضیاء الحق نے دورے کے ایک ایک نقطے کے بارے میں بریفنگ لی‘ میٹنگ ختم ہوئی تو جنرل صاحب نے ڈی جی ایسٹ ایشیا سے پوچھا ’’ میں نے کل شام بیجنگ میں جو تقریر کرنی ہے‘ آپ نے وہ پرنٹ کروا لی‘‘ ڈی جی نے جواب دیا ’’سر تقریر پرنٹنگ پریس جا چکی ہے‘ میں کل صبح اس کی کاپیاں ساتھ لے کر آؤں گا‘‘ جنرل ضیاء نے ان کی تعریف کی اور دن کے تین بجے وزیر خارجہ اور ڈی جی ایسٹ ایشیا کو رخصت کیا اور دو گھنٹے بعد محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔
شام چھ بجے صدر کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر خاور نے وزیر خارجہ اور ڈی جی ایسٹ ایشیا کو فون کیا اور انھیں بتایا ’’صدر کل چین نہیں جا سکیں گے‘ آپ چینی حکومت سے معذرت کر لیں‘‘ آپ جنرل ضیاء الحق کے اعصاب اور باتوں کو خفیہ رکھنے کی صلاحیت ملاحظہ کیجیے‘ وہ محمد خان جونیجو کی حکومت کے خاتمے کا پورا منصوبہ بنا چکے تھے‘ وہ جانتے تھے‘ وہ کل چین نہیں جا سکیں گے لیکن اس کے باوجود انھوں نے چین کے دورے پر چار گھنٹے میٹنگ کی اور صاحبزادہ یعقوب علی خان سمیت وزارت خارجہ کے تمام جغادریوں کو ایک لمحے کے لیے یہ احساس نہیں ہونے دیا یہ کل چین نہیں جائیں گے‘ یہ تمام لوگ اپنے سوٹ کیس پیک کر رہے تھے اور جنرل ضیاء جونیجو حکومت کی برطرفی کا پروانہ تیار کر رہے تھے ‘ آپ کو زندگی میں شاید ہی اتنے مضبوط اعصاب کا کوئی اور شخص‘ کوئی اور لیڈر ملے۔
میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث ہیں‘ جنرل ضیاء الحق میاں صاحب کو سیاست میں بھی لے کر آئے اور یہ انھیں وزیراعظم بھی بنانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف کیونکہ اس وقت نو آموز تھے‘ یہ سیاسی داؤ پیچ سے واقف نہیں تھے چنانچہ جنرل صاحب نے انھیں سیاسی ٹریننگ میں ڈال دیا‘ جنرل ضیاء الحق میاں شہباز شریف پر بھی مہربان تھے‘ میاں شہباز شریف ان دنوں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر تھے‘ جنرل ضیاء الحق انھیں بھی صدارتی دوروں میں ساتھ لے کر جاتے تھے‘ میاں برادران نے جنرل ضیاء الحق سے بہت کچھ سیکھا‘ میاں نواز شریف میں جنرل ضیاء الحق جیسی سادگی اور انکسار بھی ہے‘ یہ لوگوں سے جھک کر ملتے ہیں‘ یہ جنرل ضیاء الحق کی طرح گاڑی تک چھوڑنے بھی جاتے ہیں‘ یہ مخاطب کی بات بھی غور سے سنتے ہیں اور یہ جنرل ضیاء الحق کی طرح ملنے والے کا دل بھی موہ لیتے ہیں لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود میاں نواز شریف کے اعصاب مضبوط نہیں ہیں‘ یہ دل کی بات دل میں بھی نہیں رکھ پاتے‘ یہ ہر ملنے والے سے مشورہ کرتے ہیں اور میاں صاحب کے سوالات ان کا مافی الضمیر‘ ان کی پلاننگ دوسرے لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں مثلاً آپ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ ہی لے لیجیے‘ پورے پاکستان کو میاں نواز شریف اور حکومت کی ایک ایک موومنٹ کا علم ہوتا ہے‘ ملک کے خفیہ ادارے مذاکرات کے اس عمل کے ساتھ نہیں ہیں‘ یہ حقیقت بھی پوری دنیا جانتی ہے‘ میاں نواز شریف آپریشن نہیں کرنا چاہتے‘ یہ بھی سب جانتے ہیں کیونکہ آپریشن کی صورت میں شہروں کے اندر خانہ جنگی ہو گی اور حکومت میں اس خانہ جنگی سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں۔
میاں نواز شریف آپریشن کرکے فوج کے ہاتھ بھی مضبوط نہیں کرنا چاہتے‘ امن کا سہرہ فوج کے بجائے جمہوری حکومت کے سر دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ یہ مذاکرات کے لیے مسلسل کوششیں کررہے ہیں‘ پورا ملک جانتا ہے میاں نواز شریف مذاکرات کی تین کوششیں کر چکے ہیں لیکن عین وقت پر ایک خفیہ ہاتھ سامنے آتا ہے اور یہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کر کے واپس چلا جاتا ہے‘ پورا ملک جانتا ہے حکومت اب یہ مذاکراتی کمیٹی توڑ دے گی‘ نئی کمیٹی بنے گی اور یہ کمیٹی ایک اور کوشش کرے گی مگر وہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امریکا خطے سے نکل نہیں جاتا‘ یہ حقائق پوری دنیا جانتی ہے اور یہ حقائق میاں صاحب کی باڈی لینگویج سے نشر ہو رہے ہیں‘ میری میاں صاحب سے درخواست ہے ‘ آپ اگر مذاکرات کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ جنرل ضیاء الحق کی طرح اپنے اعصاب مضبوط بنا لیں اور آپ جو کرنا چاہ رہے ہیں اس کی خبر آپ کے اپنے کانوں تک کو نہیں ہونی چاہیے‘ آپ کامیاب ہو جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ مذاکرات آپ کو لے کر بیٹھ جائیں گے کیونکہ یہ مذاکرات محض مذاکرات نہیں ہیں‘ یہ میک آر بریک ہیں‘ یہ بنا دیں گے یا مکمل طور پر بگاڑ دیں گے۔

Monday 10 February 2014

سلام کا نظریہ زر اور کاغذی کرنسی کی حقیقت



چونکہ لوگوں کے ما بین لین دین کے تمام معاملات میں مرکز و محور زَر ہی ہوتاہے، اس لئے ہر معاشی نظام میں زر اور اس کے متعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ زَر کی اس اہمیت کے پیش نظر علماے اسلام نے بھی اپنی تحریری کاوشوں میں اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اسلام کے قرونِ اُولیٰ میں قانونی زر سونے،چاندی کے سکوں (دنانیر و دراہم) کی شکل میں ہوتاتھا مگر دورِ حاضر میں تمام ممالک کے مالیاتی نظام کی اساس کاغذی کرنسی ہے، سونے چاندی کے سکے پوری دنیا میں
کہیں استعمال نہیں ہو تے۔ اسلامی نقطہ نظر سے زر کی حقیقت اور مروّجہ کرنسی نوٹوں کی شرعی حیثیت کیاہے؟ ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں :

زرکی حقیقت
زر کوعربی میں نَقْدکہتے ہیں اور مشہور لغت المعجم الوسیط میں نقد کا معنی یوں لکھا ہے:
النقد: (في البیع) خلاف النسیئة ویقال: درہم نقد: جید لا زیف فیہ (ج) نقود۔والعملة من الذھب أو الفضة وغیر ھما مما یتعامل بہ وفن تمییز جید الکلام من ردیئہ،وصحیحہ من فاسدہ 1
''خرید و فروخت میں نقد کا معنی ہوتا ہے: وہ شے جو اُدھار نہ ہو ، نیز عمدہ قسم کا درہم جس میں کھوٹ نہ ہو، اس کو'درہم نقد' کہا جاتا ہے۔اس کی جمع نقود آتی ہے۔ اور نقد اس کرنسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے لین دین ہوتا ہو، خواہ سونے کی بنی ہو یا چاندی کی یاان دونوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے۔ عمدہ اور ردّی، صحیح اور فاسد کلام کے مابین امتیاز کرنے کے فن کو بھی 'نقد' کہتے ہیں ۔''

فقہی لٹریچر میں نقد کا لفظ تین معانی کے لئے آتا ہے:
سونے چاندی کی دھاتیں خواہ وہ ڈلی کی شکل میں ہوں یا ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت میں ۔ چنانچہ فقہا کی عبارات میں سونے چاندی کے لئے النقدان کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے ۔

سونے چاندی کے سکوں کے لئے چاہے وہ عمدہ ہوں یا غیر عمدہ۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی دوسری دھات سے بنے ہوئے سکوں کو فُلُوْس کہتے ہیں ۔اس معنی کے مطابق فلوس نقد میں شامل نہیں ۔
ہر وہ چیز جو بطورِ آلۂ تبادلہ استعمال ہو، چاہے وہ سونے کی ہو یا چاندی، چمڑے،پیتل اورکاغذ وغیرہ کی شکل میں ، بشرطے کہ اس کوقبولیت ِعامہ حاصل ہو ۔عصر حاضر میں نقد کا لفظ اس تیسرے معنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ 2

٭ جبکہ اقتصادی ماہرین نقد(زَر)کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں :
إن للنقد ثلاث خصائص متی توفرت في مادة مَّا، اعتبرت ہذہ المادة نقدًا ــ الأولیٰ: أن یکون وسیطا للتبادل، الثانیة: أن یکون مقیاسا للقیم، الثالثة: أن یکون مستودعًا للثروة۔3
''زرکی تین خصوصیات ہیں جس مادہ میں بھی وہ پائی جائیں ، وہ زر شمار ہو گا :

  1. ذریعۂ مبادلہ ہو
  2. قیمتوں کا پیمانہ ہو،
  3. دولت محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو
بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اورسونے ،چاندی کی زر ی صلاحیت بھی مسلمہ ہے، لیکن شریعت نے زر کے لئے سونے ،چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔مشہور مؤرخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیاہے:

ہممتُ أن أجعل الدراہم من جلود الإبل فقیل لہ إذا لابعیر فأمسک4
''میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا: تب تو اونٹ ختم ہو جائیں گے تو اس پراُنہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ۔''

امام مالک فرماتے ہیں :
لو أن الناس أجازوا بینہم الجلود حتّٰی تکون لہا سکة وعین لکرہتہا أن تُباع بالذہب والورق نظرة 5
''اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ۔''

یعنی اگر چمڑا بحیثیت زر رائج ہو جائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہو ں گے جو درہم ودینار پر ہوتے ہیں ۔ علامہ ابن نجیم حنفی خراسان کے امیر غطریف بن عطاء کندی کی طرف منسوب غطارفة نامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اورچاندی کم ہوتی تھی، کی بحث میں رقم طراز ہیں :
وَذَکَرَ الْوَلْوَالِجِيُّ أَنَّ الزَّکَاةَ تَجِبُ فِي الْغَطَارِفَةِ إذَا کَانَتْ مِائَتَیْنِ؛ لِأَنَّہَا الْیَوْمَ مِنْ دَرَاہِمِ النَّاسِ وَإِنْ لَمْ تَکُنْ مِنْ دَرَاہِمِ النَّاسِ فِي الزَّمَنِ الْأَوَّلِ وَإِنَّمَا یُعْتَبَرُ فِي کُلِّ زَمَانٍ عَادَةُ أَہْلِ ذَلِکَ الزمان 6
''ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ غطارفہ جب دو سو ہوں تو ان میں زکوٰة واجب ہو گی،کیونکہ اگرچہ پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے درہم نہیں تھے مگر آج کل یہی ہیں ۔ ہر دور میں اس زمانے کا رواج معتبر ہوتا ہے۔''

اس سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ شرعی لحاظ سے زر کے انتخاب میں سونے چاندی کی پابندی نہیں ہے، قیمتوں کو چانچنے کے لئے کسی بھی چیز کو معیار بنایا جا سکتا ہے بشرطے کہ اسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو۔

زر صرف حکومت جاری کر سکتی ہے
اگرچہ شریعت نے زر کے انتخاب میں کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی، لیکن زر جاری کرنے کا اختیار صرف حکومت کو دیا ہے کیونکہ مالیاتی لین دین کا مکمل نظام زر کی اساس پر ہی رواں دواں ہے اور اگرہرکس و ناکس کو حسب ِمنشا زر جاری کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے نہایت خطرناک اقتصادی اور معاشی حالات پیدا ہو جائیں گے۔چنانچہ کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
ولا یجوز لغیر الإمام ضرب النقود لأن في ذلک افتیاتا علیہ ویحق للإمام تعزیر من افتات علیہ فیما ہو من حقوقہ، وسوائً کان ما ضربہ مخالفًا لضرب السلطان أو موافقا لہ في الوزن ونسبة الغش وفي الجودة حتی لو کان من الذہب والفضة الخالصین، قال الإمام أحمد في روایة جعفر بن محمد: لا یصلح ضرب الدراہم إلا في دار الضرب بـإذن السلطان، لأن الناس إن رخص لہم رکبوا العظائم 7
''امام کے علاوہ کسی کوکرنسی بنانے کی اجازت نہیں ،کیونکہ یہ اس پر ظلم ہے۔ اور امام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ جوشخص اس کا یہ حق سلب کرے، وہ اسے سزا دے خواہ اس کی بنائی ہوئی کرنسی خالص سونے چاندی کی ہی کیوں نہ ہو۔ امام احمد کا قول ہے کہ درہم صرف حاکم وقت کی اجازت سے ٹکسال میں ہی بنائے جا سکتے ہیں ،کیونکہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو وہ بڑے مصائب میں مبتلا ہو جائیں گے۔''

امام نووی فرماتے ہیں :
ویکرہ أیضا لغیر الإمام ضرب الدراہم والدنانیر وإن کانت خالصة لأنہ من شأن الإمام ولأنہ لا یؤمن فیہ لغش والافساد 8
''امام کے علاوہ کسی کو درہم اور دینار بنانے کی اجازت نہیں چاہے وہ خالص ہی ہوں ،کیونکہ یہ امام کا حق ہے اور اس دوسرے کو اس لئے بھی اجازت نہیں کہ اس میں جعل سازی اور بگاڑ کا اندیشہ ہے ۔''

ثابت ہوا کہ اسلامی نقطہ نظر سے حکومت ِوقت کے علاوہ کسی کوکرنسی جاری کر نے کا اختیار نہیں ،کیونکہ اس طرح جعلی کرنسی وجود میں آ نے کاخدشہ ہے جوموجب ِفساد ہے۔

زر کی قدر مستحکم ہونی چاہئے!
اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل ڈھانچہ عدل پرقائم ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ان معاملات کو ممنوع قرار دیاہے جو عدل کے منافی ہیں ، چونکہ تمام مالی معاملات در حقیقت زرہی کے گرد گھومتے ہیں اورکسی مالی معاہدے کے وقوع اور وقت ادائیگی کے درمیان زر کی قوتِ خرید میں غیر معمولی کمی سے صاحب ِ حق کا متأثر ہونا یقینی ہے جو تقاضاے عدل کے خلاف ہے، اسی بناپر بعض مسلم مفکرین افراطِ زر کو بخس،تطفیف اورملاوٹ میں شمار کرتے ہیں ۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مناسب حد تک کرنسی کی قدرکومستحکم رکھے۔ چنانچہ الموسوعة الفقہیة میں مرقوم ہے :
من المصالح العامة للمسلمین التي یجب علی الإمام رعایتھا المحافظة علی استقرار أسعار النقود من الانخفاض، لئلا یحصل بذلک غلاء الأقوات والسلع وینتشر الفقر ولتحصل الطمأنینة للناس بالتمتع بثبات قیم ما حصلوہ من النقود بجھدہم وسعیہم واکتسابہم،لئلا تذھب ھدرا ویقع الخلل والفساد 9
''مسلمانوں کے مفاداتِ عامہ جن کا تحفظ امام کی ذمہ داری ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زر کی قیمتوں میں ثبات پیدا کرے تاکہ اس سے خوراک اور اشیا کی قیمتیں نہ بڑھیں اور غربت میں اضافہ نہ ہو۔ اور لوگ اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کئے گے زر سے فائدہ اُٹھانے کے متعلق مطمئن ہوں تاکہ وہ زر رائیگاں نہ جائے اور خلل اور فساد واقع نہ ہو۔''

مشہور محدث امام ابن قیم فرماتے ہیں :
والثمن ہو المعیار الذي بہ یعرف تقویم الأموال فیجب أن یکون محدودًا مضبوطًا لایرتفع ولاینخفض إذ لو کان الثمن یرتفع وینخفض کالسلع لم یکن لنا ثمن نعتبر بہ المبـیعات بل الجمیع سلع وحاجة الناس إلی ثمــن یعتبرون بہ المبیعات حاجــة ضروریـة عامـة وذلک لا یمکن إلا بسعر تعرف بہ القیمة وذلک لا یکون إلا بثمن تقوم بہ الأشیاء ویستمر علی حالة واحدة ولا یقوم ہو بغیرہ إذ یصیر سلعة یرتفع وینخفض فتفسد معاملات الناس ویقع الخلف ویشتد الضرر 10
''زر ہی وہ معیار ہے جس کے ذریعے اموال کی قیمتوں کی پہچان ہوتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ متعین اور کنٹرول میں ہو، اس کی مالیت میں اُتار چڑھاؤنہ ہو،کیونکہ اگر سامانِ تجارت کی طرح زَر میں بھی اُتار چڑھاؤ ہو تو ہمارے پاس اشیا کی قیمت لگانے کے لئے کوئی ثمن (زَر) نہیں رہے گا بلکہ سب سامان ہی ہو گا، حالانکہ اشیاکی قیمت لگانے کے لئے لوگ ثمن کے محتاج ہیں ۔اور یہ ایسے نرخ کے ذریعے ممکن ہے جس سے قیمت کی معرفت حاصل ہواور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب اشیا کی قیمت لگانے کے لئے ایک ز ر ہو اور وہ ایک ہی حالت پر رہے۔ اور اسکی قیمت کا معیار کوئی دوسری چیز نہ ہو،کیونکہ اس صورت میں وہ خود سامان (Commodity) بن جائے گا جس کی قیمت بڑھتی اور کم ہوتی ہے، نتیجتاًلوگوں کے معاملات خراب ہو جائیں گے، اختلاف پیدا ہوگا اور شدیدضرر لاحق ہو گا۔''

یعنی کرنسی ایسی ہونی چاہیے جس کی مالیت میں عام اشیا کی طرح غیر معمولی کمی واقع نہ ہو بلکہ معقول حد تک مستحکم قدرکی حامل ہو ورنہ لوگ ضرر کا شکار ہوں گے۔

زر کی قدر میں استحکام کیسے لایا جا ئے؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان چلا آرہا ہے اور آج کل تو اس کی قدر بہت تیزی سے گر رہی ہے، اس کے برعکس سونے چاندی کی قوتِ خرید خاصی مستحکم ہے، بالخصوص سونے کی قوتِ خرید میں کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اگر کسی بحران یا سونے کے مقابلہ میں اشیاء وخدمات کی قلت کی بنا پر ایسا ہوا بھی تو کمی کا یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہا اور اس کے اسباب دور ہونے کے بعد صورت اس کے برعکس ہو گئی۔ اگر عہد ِرسالت میں سونے کی قوتِ خرید کااس کی موجودہ قوتِ خرید سے تقابل کیا جائے توکوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔بطورِ نمونہ دو مثالیں ملاحظہ ہوں :

قتل کی دیت سو اونٹ ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہوں تو وہ ان کی قیمت ادا کر دے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آٹھ سو دینار مقرر تھی :
کَانَتْ قِیمَةُ الدِّیَةِ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اﷲِ ﷺ ثَمَانَ مِائَةِ دِینَارٍ 11
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار تھی۔''

اس کا مطلب ہے کہ عہد ِرسالت میں ایک اونٹ کی قیمت آٹھ دینار تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق شرعی دینار کا وزن ۲۵ئ۴گرام ہے ۔ (دیکھئے الموسوعة الفقہیة:21؍29) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک اونٹ کی قیمت 34گرام سونا بنی، آج بھی اتنے سونے کے عوض ایک اونٹ خریدا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حضرت عمر ؓنے اونٹ گراں ہونے پر دیت کی قیمت آٹھ سو سے بڑھا کر ہزار دینار کر دی تھی، مگر آج کل ایک سو اونٹ خریدنے کے لئے آٹھ سو دینار یعنی 3400 گرام سونا کافی ہے ۔

حضرت عروہ بارقی کہتے ہیں :
أَعْطَاہُ النَّبِيُّ ﷺ دِینَارًا یَشْتَرِي بِہِ أُضْحِیَةً أَوْ شَاةً فَاشْتَرٰی شَاتَیْنِ فَبَاعَ إِحْدَاہُمَا بِدِینَارٍ فَأَتَاہُ بِشَاةٍ وَدِینَارٍ 12
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک دینار دیا تا کہ وہ اس سے ایک قربانی یا ایک بکری خریدے۔ اُنہوں نے دو بکریاں خرید لیں ،پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔''

یعنی عہد ِ رسالت میں 25ء4 گرام سونے کے عوض ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، آج بھی سونے کی قوتِ خرید یہی ہے۔

ان دو مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد ِرسالتؐ سے لے کر اب تک سونے کی قدر میں غیر معمولی کمی نہیں ہوئی، اگر کسی دور میں ایسا ہوا بھی تو بعد میں معاملہ اُلٹ ہو گیا ۔البتہ اس عرصہ کے دوران سونے کی نسبت چاندی کی قوتِ خرید میں کافی کمی آئی ہے:

عہد ِنبویؐ میں دس درہم (تقریباً تیس گرام) چاندی سے ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں اونٹوں کی زکوٰة کے ضمن میں یہ بیان ہواہے :
مَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ مِنَ الإِبِلِ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ، وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَہُ حِقَّةٌ، فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ الْحِقَّةُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا شَاتَیْنِ إِنِ اسْتَیْسَرَتَا لَہُ أَوْ عِشْرِینَ دِرْہَمًا 13
''جس کے اونٹوں کی زکوٰة میں جذعہ (چار سالہ اونٹ) فرض ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو تو اس سے تین سالہ اونٹ قبول کر لیا جائے گااور وہ ساتھ دو بکریاں اگر آسانی سے میسر ہوں دے گا یا بیس درہم۔'' یعنی ایک بکری کے بدلے دس درہم

لیکن آج کل اتنی چاندی میں ایک بکری نہیں خریدی جاسکتی۔ تاہم اس کمی سے اس قسم کے تباہ کن معاشی حالات پیدا نہیں ہوتے رہے جن سے لوگ کاغذی کرنسی کی وجہ سے دوچار ہیں ۔ اس لئے ماہرینِ معیشت کی رائے میں کاغذی کرنسی کی قدر میں ہوش ربا تغیر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہنگائی کے طوفانوں کا ایک ہی حل ہے کہ مالیاتی لین دین کی بنیاد سونے ،چاندی کو بنایا جائے۔ چنانچہ آج کل پوری دنیا میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دوبارہ سونے،چاندی کے سکوں کا نظام رائج کیاجائے۔

ابن مقریزی کے نزدیک بھی نرخوں میں بے تحاشہ اضافے کا حل یہی ہے کہ ازسرنو 'معیاری قاعدئہ زر' ( Gold Specie Standard)کا اِجرا کیا جائے۔ چنانچہ کویت کے فقہی انسا ئیکلوپیڈیا میں ان کی رائے یوں درج ہے:
''نرخوں میں افراتفری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی موجوں کا علاج صرف یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے زر کے استعمال کی طرف لوٹا جا ئے۔''

ان کے دور میں افراطِ زر کا جو بحران پیدا ہوا تھا، ان کی نظر میں اس کا ایک سبب سونے کی جگہ معدنی سکوں سے لین دین تھاجس سے قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں ۔ چنانچہ وہ اس پر روشنی ڈالنے کے بعد فرماتے ہیں :
''اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے دیں جن کے سپرد اس نے اپنے بندوں کے اُمور کر رکھے ہیں یہاں تک کہ وہ لین دین کو سونے کی طرف لے جائیں اور سامان کی قیمتوں اور اُجرتوں کے دینار اور درہم سے وابستہ کر دیں تو اس سے اُمت کا بھلا اور اُمور کی اِصلاح ہو گی۔'' 14

جبکہ جدیدماہرینِ معیشت کے نزدیک حکومت کا حقیقی پیداوار کو نظر انداز کرکے نوٹ چھاپنا، اشیاء و خدمات کی طلب و رسد کے درمیان عدمِ توازن،اِسراف و تبذیر،تاجروں میں ناجائز منافع خوری کا رجحان اوراشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو کرنسی کی قدر میں عدمِ استحکام پیدا کرتے ہیں ۔ ان مسائل کو حل کر کے کرنسی کی قدر میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ سونے ،چاندی کے سکے لازمی شرعی تقاضا نہیں ، علاوہ ازیں سونے، چاندی کے سکوں کی پابندی ریاست کے لئے غیر ضروری زحمت کا موجب بھی بن سکتی ہے، ممکن ہے ریاست کے پاس سکے بنانے کے لئے سونے چاندی کے وسیع ذخائر موجود نہ ہوں ۔ البتہ جب افراط زر کامسئلہ سنگین صورت اختیار کرجائے تو اس وقت اس کا کوئی معقول حل ہونا چاہئے جیسا کہ علما کی فقہی آرا گزر چکی ہیں ۔

زَر : اقسام ، تاریخ اور احکام
زر کی دو قسمیں ہیں :

  1. حقیقی
  2.  اعتباری
حقیقی زر کااطلاق سونے،چاندی پر ہوتا ہے۔ سونے چاندی کے علاوہ زر کی باقی تمام اقسام خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں 'اعتباری زر' کہلاتی ہیں ۔سونے چاندی کو حقیقی زر اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کی قوتِ خریدفطری ہے، اگر بحیثیت ِ زر ان کا رواج ختم بھی ہوجائے تب بھی باعتبارِ جنس ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے ۔جبکہ اگر اعتباری زر کی زری حیثیت ختم ہو جا ئے تو سونے چاندی کی طرح اس کی افادیت باقی نہیں رہتی۔سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت کا فلسفہ بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ زر ہیں ۔

زر اور کرنسی میں فرق
کرنسی کے مقابلے میں 'زر' اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، کیونکہ اس میں کرنسی کے علاوہ دوسری اشیا بھی شامل ہیں جن کو معاشرے میں آلہ مبادلہ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کرنسی کا اطلاق صرف کاغذی زر پر ہوتا ہے ۔اسی طرح کرنسی کو ادائیگیوں کے لئے قانونی طور پر قبول کرنا لازم ہوتا ہے جبکہ عام زر میں یہ پابندی نہیں ہوتی۔ تاہم اس اعتبار سے دونوں ایک ہیں کہ زر کی طرح کرنسی بھی آلہ مبادلہ کی حیثیت سے استعمال ہونے کے علاوہ اشیا کی قیمتوں کا تعین کرتی اور قابل ذخیرہ ہوتی ہے۔

کرنسی کی تاریخ
سونے ،چاندی کے بحیثیت ِزر استعمال ہونے سے قبل دنیامیں 'زرِبضاعتی'یا 'اجناسی زر' (النقود السلعیة)کا نظام رائج تھا۔ اس سسٹم کے تحت ہرخطے کے لوگوں نے اپنے علاقے میں مقبول اور قیمتی شمار ہونے وا لی اشیا کو زر کا درجہ دیا۔بعض علاقوں میں چاول بعض میں چمڑااوربعض میں چائے زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ چنانچہ معروف سعودی عالم جسٹس ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
''اس نظام میں یہ طے پایا کہ ایسی اشیا کوزرِ بضاعتی قرار دیا جائے جن میں حسابی وحدت، قیمتوں کی یکسانیت، بحیثیت ِمال جمع کئے جانے کی استعداد اور قوتِ خرید موجود ہو۔ یہ اشیا نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھیں مثلاً ساحلی علاقہ جات میں موتیوں کو بطورِ ثمن (زر)استعمال کیا گیا۔ سرد علاقوں میں پشم کو ثمن ٹھرایا گیا۔جبکہ معتدل موسم کے حامل ممالک میں آباد لوگوں کی خوشحال زندگی اور آسودہ حالی کی بنا پر خوبصورت اشیا (مثلاً قیمتی پتھروں کے نگینے ،عمدہ لباس، ہاتھی کے دانت اورمچھلیوں وغیرہ)کو کرنسی قرار دیا گیا۔ جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں چاول کو بطورِ کرنسی استعمال کیا گیا جبکہ وسط ِایشیا میں چائے، وسطی افریقہ میں نمک کے ڈلوں اور شمالی یورپ میں پوستین کو کرنسی قرار دیاگیا۔'' 15

رومی بادشاہ جولیس سیزر (دورِ حکومت 60تا 44ق م)کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی فوج کو تنخواہ نمک کی شکل میں ملتی تھی۔ نمک کو لاطینی میں 'سیل'کہتے ہیں ، اسی سے لفظ Salary نکلا ہے جس کامعنی 'تنخواہ' ہوتا ہے۔

چونکہ اشیا ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان نہیں ہوتی، اس لئے یہ نظام مستقل جاری نہ رہ سکا۔لوگوں نے اس کی جگہ سونے چاندی کا استعمال شروع کر دیا۔ابتدا میں سونے چاندی کے وزن کا ہی اعتبار ہوتا تھا۔سکوں کا رواج بعد میں شروع ہو ا۔سکے کب وجود میں آئے ؟اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ قرآنِ مجید سے یہ پتہ چلتاہے کہ حضرت یوسفؑکے دور میں دراہم موجود تھے، کیونکہ ان کے بھائیوں نے اُنہیں دراہم کے عوض بیچاتھا :
وَشَرَ‌وْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍ دَرَ‌ٰ‌هِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا۟ فِيهِ مِنَ ٱلزَّ‌ٰهِدِينَ ...﴿٢٠﴾...سورة یوسف
''اُنہوں نے اس کو انتہائی کم قیمت، جو گنتی کے چند درہم تھے، کے عوض فروخت کر دیا۔''

واضح رہے کہ حضرت یوسفؑ کا دور 1910 تا 1800ق م ہے۔

اسی طرح کہتے ہیں کہ سونے کا سکہ سب سے پہلے لیڈیاکے بادشاہ کروسس (دورِ حکومت: 560تا541 ق م)نے متعارف کرایا۔

عہد ِنبویؐ کی کرنسی
بعثت ِ نبویؐ کے وقت عرب میں لین دین کا ذریعہ درہم و دینار تھے، لیکن گنتی کی بجائے وزن کا اعتبار کیا جاتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درہم و دینار عرب کے مقامی سکے نہ تھے بلکہ ہمسایہ اقوام سے یہاں آتے تھے۔

٭درہم ساسانی سکہ تھا جو عراق کے راستے عرب پہنچتا اور لوگ اس کی بنیاد پر باہم لین دین کرتے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کوبرقرار رکھا۔ یہ دراہم چونکہ مختلف وزن کے ہوتے تھے، اس لئے جب نصابِ زکو ة کے لئے درہم کا وزن مقررکرنے کی نوبت آئی تومسلمانوں نے ان میں سے متوسط کو معیار بنایا، چنانچہ اسی کو شرعی درہم سمجھا گیا۔ ایک قول کے مطابق یہ کام حضرت عمرؓکے دور میں جبکہ دوسرے قول کے مطابق بنو اُمیہ کے دور میں ہوا۔جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کارجس شرعی درہم پراجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایاگیا۔لیکن فقہا اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن975ء2 گرام چاندی ہے۔ 16

٭ اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفاے راشدین اور حضرت معاویہؓ کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔ جب مسند ِخلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو اُنہوں نے زمانۂ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو 'شرعی دینار'کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا تھا۔ 17

٭ معمولی اشیا کے لین دین میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں یعنی تانبے وغیرہ سے بنے سکے جنہیں فُلُوْس کہاجاتا ہے، بھی استعمال ہوتے ۔ جیسا کہ حدیث میں دیوالیہ شخص کے متعلق اَلْمُفْلِس کالفظ آتا ہے۔ شارحِ بخاری حافظ ابن حجر اپنی مایہ ناز تالیف 'فتح الباری' میں فرماتے ہیں :

''شرعی معنوں میں 'مفلس' وہ شخص ہے جس کے قرضے اس کے پاس موجود مال سے زیادہ ہو جائیں ۔ اسے مفلس اس لئے کہا جاتا ہے کہ پہلے درہم و دینار کا مالک تھا لیکن اب فلوس پر آگیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف معمولی مال (فلوس) کا مالک رہ گیا ہے ۔ یا ایسے شخص کو مفلس اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس کو فلوس جیسی معمولی چیز میں ہی تصرف کا حق ہو تا ہے، کیونکہ وہ فلوس کے ذریعے معمولی اشیا کا لین دین ہی کرتے تھے۔'' 18

حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی اس روایت میں بھی فُلُوس کا تذکرہ موجود ہے :
فَأَمَرَہَا أَنْ تَشْتَرِیَ بِہِ فُلُوسًا 19
''اُنہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ اس کے بدلے 'فلوس 'خرید لو۔''

سونے چاندی کے سکے وجود میں آنے کے بعدبھی بعض علاقوں میں مخصوص اشیا زر کی حیثیت سے استعمال میں رہیں ۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سوڈان گیا تو اس وقت وہاں نمک کے ساتھ ہی لین دین ہوتاتھا،چنانچہ وہ لکھتا ہے :
''سوڈان میں نمک بطورِ روپیہ کے چلتا ہے اور سونے چاندی کا کام دیتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیتے ہیں اور انکے ذریعے خریدو فروخت ہوتی ۔''20

پھرمختلف اسباب کی بنا پر آہستہ آہستہ درہم دینار کا رواج ختم ہوتا چلا گیااور ان کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیامیں کرنسی نوٹوں کا ہی دور دورہ ہے کیونکہ یہ آسان ترین ذریعۂ مبادلہ ہے ۔

نوٹ کب ایجاد ہوئے؟
کہا جاتاہے کہ اہلِ چین نے 650ء سے 800ء کے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کئے تھے، انہی ڈرافٹ نے آگے چل کرکرنسی نوٹوں کی اشاعت کا تصور دیا۔ اسی لئے کاغذکی طرح کرنسی نوٹ بھی اہل چین کی ایجاد شمار ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کرنسی نوٹ910ء میں چین میں ایجاد ہوئے۔ 21

ابن بطوطہ جو 1324ء سے1355ء کے درمیان چین کی سیاحت پر گیاتھا، چین کے نوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتاہے :
''اہل چین درہم یادینار کے ذریعہ سے خرید وفروخت نہیں کرتے بلکہ سونے اور چاندی کو پگھلا کر ان کے ڈلے بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں اور کاغذ کے ٹکڑوں کے ذریعہ سے خرید وفروخت کرتے ہیں ۔ یہ کاغذ کاٹکڑا کفدست(ایک بالشت)کے برابر ہوتاہے اور بادشاہ کے مطبع میں اس پر مہر لگاتے ہیں ۔ ایسے پچیس کاغذوں کو بالشت کہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ دینار کے معنی میں مستعمل ہوتاہے ۔ جب یہ کاغذ کثرت استعمال سے یا کسی اور طرح پھٹ جاتاہے تو وہ دارالضرب میں لے جاتے ہیں اور اس کے عوض نیا لے آتے ہیں ۔ یہ دارالضرب ایک بڑے درجہ کے امیر کی تحویل میں ہے۔ جب کوئی شخص بازار میں درہم یا دینار لے کر خرید وفروخت کرنے جاتاہے تو وہ درہم یا دینار نہیں چلتے، لیکن وہ درہم یا دینار کے عو ض یہ کاغذ لے سکتاہے اور ان کے عوض جو چیز چاہے خرید سکتا ہے۔''

مشہورمؤرخ ابن مقریزی جب بغداد گئے تھے تواُنہوں نے بھی وہاں چین کے نوٹوں کا مشاہدہ کیا تھا۔22


چین کے بعد جاپان دوسرا ملک ہے جہاں چودھویں صدی عیسوی میں کرنسی نوٹ جاری ہوئے ۔یورپ میں پہلا باقاعدہ نوٹ 1661ء کو'سٹاک ہام بینک' آف سویڈن نے جاری کیا۔ انگلینڈ نے 1695ء میں کرنسی نوٹ جاری کئے۔ہندوستان میں پہلا نوٹ 5؍جنوری1825ء کو 'بنک آف کلکتہ' نے جاری کیاجس کی مالیت دس روپے تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان میں کرنسی نوٹ یکم اکتوبر 1948ء کو جاری کئے گئے ۔

ابتداء میں تونوٹ کی پشت پر سو فیصد سونا ہوتا تھا،لیکن بعد میں مختلف معاشی وجوہ کے باعث سونے کی مقدار سے زائد نوٹ جاری کئے جانے لگے اورمختلف اَدوار میں یہ تناسب بتدریج کم ہوتا رہا یہاں تک کہ1971ء سے نوٹ کا سونے سے تعلق بالکل ختم ہو چکا ہے۔

کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت
اب نوٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس بارے میں علما کی مختلف آرا ہیں :
پہلی رائے یہ ہے کہ نوٹ اصل میں اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ حاملِ نوٹ نے اس نوٹ کے جاری کنندہ سے اتنا سونا یا چاندی وصول پانا ہے۔ اس کے حق میں سب سے مضبوط دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نوٹ پر یہ ا لفاظ تحریر ہوتے ہیں:
''حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا''

اس رائے کے مطابق نوٹوں کے ساتھ سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، کیونکہ نوٹ کے ساتھ خریداری کا مطلب حقیقت میں اس سونے یا چاندی کے ساتھ خریداری ہے جو اس نوٹ کی پشت پرہے اور شرعی اعتبار سے سونے کی سونے یا چاندی کی سونے کے ساتھ بیع میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے جو یہاں مفقود ہے، کیونکہ خریدار نے سونے کے بدلے سونا نہیں دیا بلکہ اس کی رسید دی ہے ۔چنانچہ تفسیر'اضواء البیان 'کے مصنف علامہ محمد امین شنقیطی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں :
وأنہا سند بفضة وأن المبیع الفضة التي ہي سند بہا ومن قرأ المکتوب علیہا فَہِم صحة ذلک، وعلیہ فلا یجوز بیعہا بذہب ولا فضة ولو یدًا بید لعدم المناجزة بسبب غیبة الفضة المدفوع سندہا 23
''یہ نوٹ چاندی کی رسید ہیں اور بیچی گئی چیز وہ چاندی ہے جس کی یہ رسید ہیں ۔جو ان پر لکھی عبارت پڑھے گا وہ اس رائے کا درست ہونا سمجھ جائے گا۔اس رائے کے مطابق نوٹوں کی سونے چاندی کے بدلے بیع چاہے نقد ہوجائز نہیں ، کیونکہ جس چاندی کی رسید دی جاتی ہے وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے دونوں طرف سے موقع پر قبضہ کی شرط نہیں پائی جاتی۔''

جس طرح اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے بدلے سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، اسی طرح نوٹوں کے ساتھ مشارکہ یا بیع سلم درست نہیں ، کیونکہ اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹ دَیْن (Debt)کی رسید ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شراکت اور سلم میں سرمایہ نقد ہونا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یہ رائے اختیار کرکے ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ (منی چینجر کا کاروبار) بھی نہیں ہوسکتا،کیونکہ یہ سونے کے بدلے سونے کی اُدھار اور کمی بیشی کاساتھ بیع ہو گی جو شرعاًدرست نہیں ۔

مگر یہ موقف درست نہیں کیونکہ اب نوٹ قرض کی رسید نہیں رہا جیسا کہ قبل ازیں بیان ہو ا ہے بلکہ اب یہ خود قانونی زر بن چکا ہے اور ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ حکومت کوئی بھی چیزبطورِ زر اختیار کر سکتی ہے۔اب نوٹ پر لکھی اس عبارت ''حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔'' کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت اس کی ظاہری قیمت کی ذمہ دار ہے ۔ جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک فرماتے ہیں :
''نوٹ رسید نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ گم یا تلف ہو جائے تو اس کا مالک جاری کنندہ سے مطالبہ نہیں کر سکتا خواہ اس کے پاس ہزار گواہ ہوں اور اگر یہ حقیقی رسید ہوتا تو اس کو ضروریہ اختیار ہوتا، کیونکہ قرض مقروض کے ذمے ہوتا ہے، رسید تلف ہونے سے ضائع نہیں ہوتا۔''24

بعض نامور علما کے نزدیک نوٹ بذاتِ خود سامان(جنس) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مشہور مالکی فقیہ علیش مصری کی بھی یہی رائے ہے ۔علامہ محمد امین شنقیطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وممن أفتٰی بأنہا کعروض التجارة العالم المشہور علیش المصري صاحب النوازل، وشرح مختصر خلیل، وتبعہ في فتواہ بذلک کثیر من متأخري علماء المالکیة 25
''جن حضرات نے ان کے سامانِ تجارت ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان میں 'نوازل 'اور 'شرح مختصر خلیل 'کے مصنف مشہور عالم علیش مصری بھی شامل ہیں ۔ بعد کے اکثرمالکی علماء نے بھی ان کے فتویٰ کی پیروی کی ہے۔''

اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نوٹ قیمت بننے کی صلاحیت سے عاری ہے، کیونکہ یہ نہ سوناہے اور نہ چاندی، یہ تو سامان کی مانندہیں ۔ اس نظریہ کے مطابق ایک نوٹ کا دو نوٹوں کے ساتھ تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح اس نظریہ کے مطابق نوٹوں میں زکوٰة اسی صورت واجب ہو گی جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو ۔یعنی بذات خود ثمن کی بجائے نوٹ سامانِ تجارت قرار پاسکتاہے۔مزید برآں ا س قول کی بنیاد پر نوٹ سے مضاربہ اور بیع سلم بھی جائز نہیں بنتی، کیونکہ یہ قیمت نہیں ، سامان ہے۔چونکہ یہ نظریہ خطرناک نتائج کا حامل ہے، اس لئے عصر حاضر کے اہل علم اس کی تائید نہیں کرتے۔

تیسری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے، چاندی کا متبادل ہیں ۔ اگراس کے پیچھے سونا ہو تو سونے اور اگر چاندی ہو توچاندی کامتبادل ہو گا۔ ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
'' اس نظریہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے یہ نوٹ اپنی اس اصل کی طرح ہے جس کے یہ بدل ہیں یعنی سونا اور چاندی، کیونکہ ان کا اصل چاندی یا سونا ان کی پشت پر ان کے زرِ ضمانت کے طور پر موجود ہے اور مقاصد ِشرعیہ کاتعلق تو اصل اور حقائق سے ہے نہ کہ الفاظ اور ان کی بناوٹ سے۔'' 26

اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے باہمی لین دین میں سود کے احکام بھی جاری ہوں گے اور جب یہ دو سو درہم چاندی یا بیس دینار سونے کی قیمت کے مساوی ہوں تو سال کے بعد ان پرزکوٰة بھی واجب ہو گی۔اسی طرح ان کے ذریعے بیع سلم بھی درست ہو گی۔

لیکن یہ رائے بھی کمزور ہے، کیونکہ اس کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ نوٹ کی پشت پر سونا یاچاندی ہے حالانکہ امر واقع میں ایسا نہیں ۔ چنانچہ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع اس کی خود تردید کرتے ہیں :
''یہ نظریہ بھی حقیقت ِواقعہ کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر قابل التفات نہیں ،کیونکہ اس کا دارومدار کرنسی نوٹوں کی اصل پر ہے اور اصل جیسا کہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو کرنسی نوٹوں کی پشت پر ہے نہیں ۔بلکہ اکثر ممالک کے نوٹ محض ساکھ کی بنا پر ،زبانی ضمانتوں اور حکومتوں کے جاری کردہ ہونے کی بنا پر رائج اور قابل قبول ہیں ، ورنہ ان کے پیچھے نہ تو سونا ہے نہ چاندی۔ بلکہ کچھ ایسے ہیں جنہیں پراپرٹی کی ضمانت حاصل ہے اور کچھ کو محض اقتدار کی ضمانت۔ لہٰذا یہ نظریہ خلافِ واقعہ ہونے کی بنا پر بہت کمزور ہے۔'' 27

نوٹ کی شرعی حیثیت کے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ نوٹ دھاتی سکوں (فلوس ) کی طرح اصطلاحی زر ہیں جیسا کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے لکھا ہے :
الرابع ما ہو سلعة بالأصل وثمن بالاصطلاح کالفلوس... إلی أن قال إذا علمت ھذا فالنوط ھو من القسم الرابع سلعة بأصلہ لأنہ قرطاس وثمن بالاصطلاح لأنہ یعامل بہ معاملة الأثمان 28
''مال کی چوتھی قسم وہ ہے جو اصل میں تومال ہے، لیکن اصطلاحی لحاظ سے زر ہے جیسے دھاتی سکے ہیں ...جب یہ معلوم ہوگیا تو، سنو نوٹ کا تعلق چوتھی قسم سے ہے جو حقیقت میں سامان ہے کیونکہ یہ کاغذ ہے اور اصطلاحی طور پر زر ہے، کیونکہ اس سے زر جیسا معاملہ کیاجاتاہے۔''

لیکن یہ رائے بھی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اہل علم کے ہاں دھاتی سکوں میں زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہا نہ توکمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ مکروہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو شراکت و مضاربت میں رأس المال بنانے کی اجازت دیتے ہیں ۔نیزان میں زکوٰةبھی اسی صورت واجب قرار دیتے ہیں جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔ جیساکہ الموسوعة الفقہیة میں ہے :
الأصح عند الشافعیة والصحیح عند الحنابلة وہو قول الشیخین من الحنفیة وقول عند المالکیة: أنھا لیست أثمانا ربویة وأنھا کالعروض
''امام ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف اورمالکی فقہا کاقول ،حنابلہ کا صحیح مسلک اور شافعیوں کاصحیح ترین نقطہ نظر یہی ہے کہ دھاتی سکوں میں ربا نہیں ہے بلکہ یہ سامان کی طرح ہیں ۔''29

ذھب جمہور الفقہائ: أبو حنیفة وأبو یوسف والمالکیة علی المشہور و الشافعیة والحنابلة إلی أن المضاربة لا تصح بالفلوس لأن المضاربة عقد غرر جوز للحاجة فاختص بما یروج غالبًا وتسہل التجارة بہ وہو الأثمان 30
''امام ابو حنیفہ ،ابویوسف ، مالکی(مشہور مسلک کے مطابق) شافعی اور حنبلی فقہا کا خیال ہے کہ دھاتی سکوں کے ذریعے مضاربہ درست نہیں کیونکہ مضاربہ عقد ِ غرر ہے جو ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ انہی چیزوں کے ساتھ خاص رہے گاجو اکثر مروّج ہوں اور ان کے ساتھ تجارت آسان ہو اوروہ نقدیاں ہیں ۔''یعنی دھاتی سکے زر نہیں ۔

''فذھب الشافعیة و الحنابلة إلی أن الفلوس کالعروض فلا تجب الزکاة فیھا إلا إذا عرضت للتجارة''31
''شافعی اور حنبلی فقہا کی رائے میں دھاتی سکے سامان کی طرح ہیں ، چنانچہ ان میں زکوٰة اسی وقت واجب ہو گی جب یہ تجارت کی غرض سے ہوں ۔''

ان فقہا کے نقطہ نظر کی تائیداس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی حدیث میں دھاتی سکوں کی زکوٰةکا تذ کرہ نہیں ملتا حالانکہ عہد ِنبویؐ میں یہ موجود تھے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اگر یہ زر ہوتے تو سونے چاندی کی طرح ان کی زکوة کا بھی ذکر ہوتا۔ حضرت ابو ذرؓکی اس روایت کہ انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا: ''اس کے فلوس خرید لو۔'' سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ صحابہ کے ہاں دھاتی سکے سامان شمار ہوتے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہاے احناف کے نزدیک دھاتی سکے زر ہیں ، اسی لئے وہ ان میں زکوٰة بھی واجب قرار دیتے ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زر ی حیثیت ختم کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ سامان کے حکم میں ہوتے ہیں اوران حضرات کے نزدیک کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ بھی صحیح ہو تا ہے۔

ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہا کی نظر میں دھاتی سکے( فلوس) یا تو زر ہی نہیں یا پھر ناقص زر ہیں ، اسی لئے وہ ان سے زرکاوصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔جو صورت بھی ہو بہر حال کرنسی نوٹوں کو ان پر قیاس نہیں کیا سکتا،کیونکہ نہ تودھاتی سکوں کی طرح ان میں سامان کا پہلوغالب ہے۔ یہ تو محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں ، ان کی جو حیثیت بھی ہے، وہ ان کی پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے اور نہ ہی متعاقدین کو ان کی زری حیثیت کالعدم کرنے کااختیار ہے، کیونکہ یہ قانونی زر ہیں ۔

اس سلسلہ میں پانچویں اورآخری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زر ہے، کیونکہ نوٹوں میں زر کی تما م صفات پائی جاتی ہیں ۔ قیمتوں کا پیمانہ اور قابل ذخیرہ بھی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں ۔ شرعی اعتبار سے یہی زر کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم شروع میں امام مالک کا یہ قول نقل کر آئے ہیں :
''اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ۔''

اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی چیز کو خواہ وہ چمڑا ہی کیوں نہ ہو بطور زر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید امام ابن تیمیہ کے 'مجموع الفتاوی' میں ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
أما الدرہم والدینار فما یعرف لہ حد طبعي ولا شرعي بل مرجعہ إلی العادة والاصطلاح وذلک لأنہ في الأصل لایتعلق المقصود بہ بل الغرض أن یکون معیارًا لما یتعاملون بہ والدراہم والدنانیر لا تقصد لنفسہا بل ہی وسیلة إلی التعامل بہا ولہٰذا کانت أثمانا بخلاف سائر الأموال فإن المقصود الانتفاع بہا نفسہا فلہٰذا کانت مقدرة بالأمور الطبعیـة أو الشرعیـة والوسیلـة المحضـة التـي لا یتعلـق بہــا غـرض لا بمادتہا ولا بصورتہا یحصل بہا المقصود کیف ما کانت 32
''اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درہم و دینار کی کوئی ذاتی اور شرعی تعریف نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف اور اصطلاح سے ہے، کیونکہ درہم و دیناربذاتِ خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ یہ باہمی لین دین کا ذریعہ ہیں ۔ اسی لئے یہ قیمت شمار ہوتے ہیں چونکہ باقی اَموال سے فائدہ اُٹھانا مقصود ہوتا ہے، اس لئے ان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔ وہ ذریعہ جس کے مادہ اور صورت سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو وہ جیسا بھی اس سے مقصود حاصل ہوجاتاہے ۔''

چونکہ دلائل کے لحاظ سے یہ نقطہ نظر قوی ہے اور اس پر کئے گئے اعتراضات بھی زیادہ وزنی نہیں ، اس لئے دور حاضر کے علماء کی اکثریت 'بیشترمفتیانِ کرام کے فتاوی اور اہم فقہی اداروں کی قرار دادیں اسی کے حق میں ہیں ۔ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع کی بھی یہی رائے ہے۔ 33

سعودی کبار علماء کی مجلس نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ 34

جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک بھی اسی قول کے حق میں ہیں ۔چنانچہ وہ مذکورہ بالا آرا اور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
''کاغذی زر کے متعلق علما کی آرا اور ہر ایک کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لینے سے ہمیں ان کا قول راجح معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ مستقل کرنسی ہے اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے اَحکام جاری ہوتے ہیں ۔ ربا، سود اور تلف کی صورت میں ضمان کے مسائل میں ان پر مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔'' 35

دیگر اقوال کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''دوسرے اقوال یا تو معاملات میں لوگوں کومشکل میں ڈال دیں گے یا لین دین کا دروازہ ہی بند کر دیں گے حالانکہ اس کے بغیر چارہ نہیں یا پھر سود کا دروازہ چوپٹ کھول دیں گے اور نقدین کی زکوٰة ضائع کرنے کے حیلوں کا دروازہ کھولیں گے۔''

Sunday 9 February 2014

سیکیورٹی معاہدہ نہ ہونے پر ’پختونستان‘ کے نام سے نیا ملک بن سکتاہے: امریکہ

سیکیورٹی معاہدہ نہ ہونے پر ’پختونستان‘ کے نام سے نیا ملک بن سکتاہے: امریکہ

سیکیورٹی معاہدہ نہ ہونے پر ’پختونستان‘ کے نام سے نیا ملک بن سکتاہے: امریکہ
واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) امریکی دفاعی کمیٹی کے رکن جم مورین نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان نے سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کئے تو خطے میں”پختونستان“ کے نام سے نیا ملک بن سکتا ہے جو پاکستان کے لئے تباہ کن ہو گا،صدر کرزئی نے معاہدے پر دستخط نہ کئے توسارے امریکی اس سال نکل جائیں گےجس سے طالبان کوکابل پر قبضے کو موقع ملے گا،امریکی انخلاءسے افغانستان اور پاکستان دونوں پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔امریکی نشریاتی ادارے ”وائس آف امریکہ“سے گفتگو کرتے ہوئے کانگریس اور امریکی دفاعی کمیٹی کے رکن جم مورین نے کہا کہ افغانستان کو امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کے دوطرفہ معاہدے پر جلد دستخط کر دینے چاہیں، کیونکہ دستخط نہ ہونے کی صورت میں، امریکہ اس سال کے آخر تک افغانستان سے چلا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ امریکہ کے انخلا سے افغانستان اور ہمسایہ ملک پاکستان پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ امریکی فورسز کے چلے جانے سے طالبان کو کابل پر قبضے کا موقع مل سکتا ہے، یا پھر افغانستان کی پشتو بولنے والی آبادی پختونستان کے نام سے اپنا ایک الگ ملک قائم کرسکتی ہے جو یقینی طور پر پاکستان کے لیے ایک شدید خطرہ بن سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ افغان صدر نے انتخابی مہم میں امریکہ پر نکتہ چینی شروع کی ہے، ادھر امریکہ میں یہ سوال اٹھا کہ ہم انہیں اور ان کی انتظامیہ کو اربوں ڈالر کیوں دے رہے ہیں اور اسے خداحافظ کہہ دینا چاہیئے مگر امریکہ کا خطے سے جانے کے مضمرات بڑے شدید ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ اگر آپ ان کے اخبارات دیکھیں تو وہ امریکی مخالفت سے بھرے پڑے ہیں۔ اگر آپ ان کے قانون سازوں سے بات کریں تو وہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کی تمام خرابیوں کی ذمہ دار سی آئی اے ہے۔ جب کہ وہاں پر ہمیں پڑھے لکھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جن پر لیڈر بننے کی توقع رکھی جاسکے۔ جو ٹیکسوں کے نظام اور عوام کے لیے اسکول کے قیام پر یقین رکھتے ہوں اور جو 21 ویں صدی کی قیادت کے طور پر ابھر سکتے ہوں۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ صورت حال کا ادراک کیا جائے۔ انہیں امریکہ کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر وہ دوسرے ملکوں کی جانب دیکھیں گے تو وہ اس کے بدلے میں وہ ایسے مطالبے کریں گے اور جو ان ملکوں کے طویل مدتی مفاد کے خلاف ہوگا۔افغان جنگ کا ذکر کرتے ہوئے، جم مورین نے کہا کہ جنگ شروع ہونے سے اب تک ہم وہاں تقریبا ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔ لیکن، وہاں ہمارے لیے شکریے کا ایک لفظ تک نہیں ہے۔ امریکہ افغانستان کو اربوں ڈالر دے رہا ہے اور اس کے بدلے میں کچھ مانگ نہیں رہا سوائے اس کے آپ اپنے ہاں سکولوں کا نظام قائم کریں، خواتین کو بااختیار بنائیں، شفاف انتخابات کرائیں، پروفیشنل پولیس سسٹم لائیں، بدعنوانی پر قابو پائیں۔ ہم آپ کو جو اربوں ڈالر دیتے ہیں اس سے ضرورت مند افراد کو فائدہ پہنچائیں۔ بس ہمیں آپ سے یہی چاہیئے۔ دنیا کے بہت کم ملک اس انداز میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن، اگر آپ وہ نہیں کرنا چاہتے جو افغانستان کے مفاد میں ہے تو پھر امریکہ یہاں سے چلا جائے گا اور اس کے بعد وہاں کا خدا ہی حافظ ہے۔عراق جنگ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ریاست ورجینیا سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین کا کہنا تھا کہ عراق جنگ کی ناکامی کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم نے ایک ایسا صدر منتخب کیا جو خارجہ پالیسی کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتاتھا ۔ انہوں نے اپنے گرد ایسے افراد کا ایک گروپ اکھٹا کرلیا جن کا مخصوص ایجنڈا تھا جو امریکی مفاد میں نہیں تھا۔ ان میں سے کوئی کبھی بھی میدان جنگ میں نہیں گیا تھا۔لیکن، انہوں نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس ملک کے مردوں اور عورتوں کو وردی پہنا کر جنگ میں اتار دیا۔ صدر کی معلومات کا یہ عالم تھا کہ جنگ کے چھ مہینوں کے بعد جب انہوں نے عراقی نژاد امریکیوں کے ایک گروپ سے جنگ عراق کے موضوع پر بات کی تو انہوں نے شیعہ سنی کے اختلافات کا مسئلہ اٹھایا۔ جس پر صدر نے حیرت سے پوچھا کہ یہ شیعہ اور سنی کیا چیز ہے اور اس کا جنگ سے کیا تعلق ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ صدام حسین امریکہ کے لیے خطرہ نہیں تھا؛ اور یہ کہ عراق جنگ کا اصل فاتح ایران بن گیا ہے، کیونکہ عراق کی اکثریتی آبادی شیعہ ہے۔ جِم مورین کے بقول، صدام حسین خطے میں شیعہ امارات بننے کی راہ میں ایک رکاوٹ تھا۔ اب ایران، شام اور لبنان کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہی۔انہوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جواز بنا کر عراق پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صدر بش نے امریکی عوام کو غلط معلومات فراہم کیں تھیں۔کانگریس مین جم مورین امریکی ریاست ورجینیا کے آٹھویں کانگریشنل ڈسٹرکٹ سے 1991 سے منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ 1985 سے 1990 تک ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کانگریس میں اپنی موجودہ ٹرم ختم ہونے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین جم مورین ڈیفنس کمیٹی کے ساتھ افغانستان اور پاکستان کا دو ہفتے کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ کمیٹی افغانستان کے لیے فنڈز منظور کرتی ہے اور حالیہ بجٹ میں اس ملک کے لیے 85 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں، جن کا اجرا معاہدے پر دستخط نہ ہونے کی صورت میں کھٹائی میں پڑسکتا ہے۔

فیس بک کے ادب و آداب


فیس بک کے ادب و آداب

فیس بک کے ادب و آداب
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا ہماری زندگی میں عمل دخل بہت زیادہ ہو چکاہے۔ ہم اپنی ہر چھوٹی بڑی بات ان ویب سائٹس کے ذریعے دوسروں سے شیئر کرتے ہیں۔ کوئی بھی تقریب ہو اس کا احوال اور تصاویر جب تک فیس بک وغیرہ کے ذریعے دوسروں تک نہ پہنچائیں ہمیں چین نہیں آتا۔ فیس بک چونکہ اس وقت سب سے مقبول سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ہے اس لیے نہ صرف ہر کوئی اس ویب سائٹ پر موجود ہوتا ہے بلکہ تصاویر و اسٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کرنے میں دن رات مصروف ہے۔
فیس بک ہماری زندگی کا ایک لازمی جُزو بن چکا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف دوستیاں، رشتے داریاں بڑھ رہی ہیں بلکہ دشمنیاں بھی پیدا ہو رہی ہے۔ فیس بک کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے ہمیں اس کے کچھ ادب و آداب معلوم ہونے چاہئیں۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئی ان آداب کو ملحوظِ خاطر رکھے، یا ان سے اتفاق کرے۔ آپ ان سب نقاط سے غیر متفق بھی ہو سکتے ہیں لیکن انھیں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ اگر فیس بک استعمال کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس سے پہلے ہم کمپیوٹنگ میں ایک مضمون ’’بیس باتیں جو ہر فیس بک صارف کو پتا ہونا چاہئیں‘‘ بھی شائع کر چکے ہیں۔ آئیے آپ کو فیس بک کے مزید ادب و آداب سے روشناس کراتے ہیں۔

ذاتی باتیں ذاتی پیغامات تک محدود رکھیں

اپنے کسی دوست کے بارے میں کوئی ذاتی بات اپنی یا اس کی وال پر لکھنے کے بجائے ذاتی پیغام کے ذریعے بھیجیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے لیے تو وہ بات اتنی اہم نہ ہو لیکن آپ کا دوست اسے سب کے سامنے پیش کر دینا پسند نہ کرے۔ اس لیے جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے ہوئے پہلے ذاتی پیغام میں ایک دوسرے سے بات کر لیں۔ کیونکہ فیس بک ایک عوامی پلیٹ فارم ہے، اگر آپ نے کوئی ذاتی بات لکھ دی تو آپ کو اندازہ نہیں وہ کہاں تک پہنچ سکتی ہے۔

پہلے تولو پھر بولو

فیس بک پر آپ کے اتنے دوست اور جاننے والے ہوتے ہیں کہ سب کے مذہبی، سیاسی خیالات یا سوچ، پسند اور ملازمت وغیرہ کے حوالے سے آپ کو پتا نہیں ہوتا۔ اس لیے کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے ایک دفعہ سوچ لیں کہ کہیں آپ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں۔ مثلاً آپ کسی مذہبی تہور، کسی سیاسی جماعت یا کسی بھی حوالے سے کوئی منفی بات کرتے ہیں، جو آپ کی نظر میں شیئر کرنا تو کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن جب کوئی آپ سے متضاد رائے رکھنے والا اس بات کو اپنی فیڈ میں دیکھے گا تو اسے اچھا نہیں لگے گا۔ اس لیے کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے ایک دفعہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ لینا بہتر ہے۔
فیس بک ایک اچھی چیز ہے، اسے مثبت کاموں کے لیے استعمال کریں۔ دوسروں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے متنازع باتیں مت شیئر کریں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل کلاں آپ کی اپنی سوچ بدل جائے، تب آپ کو احساس ہو گا کہ غلط چیز شیئر ہو گئی۔ آپ اس پوسٹ کو جا کر ڈیلیٹ تو کر سکتے ہیں لیکن تب تک دوسرے آپ سے بدگمان ہو چکے ہوں گے۔

ذاتی خبریں فون کے ذریعے دیں

اگر کوئی ذاتی خبر چاہے خوشی یا غم کی ہو بہتر ہے کہ اپنے قریبی دوستوں کو بذریعہ فون یا ایس ایم ایس دیں۔ یہ بات صرف فیس بک کے ادب و آداب کے دائرے میں نہیں آتی بلکہ ہماری عام زندگی میں بھی رائج ہونی چاہیے۔ ذاتی خبریں خاص کر دوسروں کے بارے میں۔ ہو سکتا ہے جس کے بارے میں آپ شیئر کر رہے ہیں وہ اسے پسند نہ کرے۔ اس کے علاوہ سنی سنائی خبریں، جن کے مستند ہونے کا آپ کو پتا بھی نہ ہو فوراً شیئر کرنے سے پہلے فون پر تصدیق ضرور کر لیں۔

تبصروں پر جواب دیں

اگر آپ کچھ اسٹیٹس لگاتے ہیں اور آپ کے دوست اسے لائیک کرتے ہیں یا اس پر تبصرہ کرتے ہیں تو آپ جوابی تبصرہ کر کے، ان کے تبصرے کو لائیک کر کے یا سب لائیک کرنے والوں کا شکریہ ادا کر کے انھیں بتا سکتے ہیں آپ نے ان کی ایکٹیویٹی کو نوٹ کیا ہے۔ اپنے اسٹیٹس پر خاص کر سوالیہ تبصروں کو ضرور جواب دیں۔ اگر آپ ہمیشہ دوسروں کے تبصرے اور لائیک نظرانداز کرتے رہیں گے تو ان میں کمی آتی جائے گی۔ یاد رکھیں کہ کوئی بھی ’’دیواروں سے باتیں کرنا پسند نہیں کرتا۔‘‘

ہر پوسٹ پر تبصرے سے گریز کریں

اگر آپ کا کوئی بہت اچھا دوست ہے تو اپنی دوستی ظاہر کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ اس کی ہر پوسٹ کو لائیک یا اس پر تبصرہ کریں۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ آپ ہر پوسٹ بنا پڑھے ہی لائیک کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ہر پوسٹ لائیک کر سکتے ہیں لیکن کبھی کبھی کسی بات کر نظرانداز کر دینا بھی اچھا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ دوسرے آپ کی اس عادت کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ فلاں بندے کی ہر پوسٹ کو باقاعدگی سے لائیک کر رہے ہیں۔

اپنے لہجے کا خیال رکھیں

لکھی ہوئی بات پڑھنے، اور بولی ہوئی بات کے سننے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جیسے آپ کوئی بات کریں اور کوئی دوسرا سننے والا جب تیسرے کو بتائے تو بات میں زمین آسمان کا فرق آسکتا ہے اور یہ فرق ہوتا ہے لہجے کا۔ یعنی تیسرے نے چونکہ براہِ راست بات آپ سے نہیں سنی اس لیے اسے نہیں پتا کہ آپ کا لہجہ کیسا تھا۔
اسی طرح فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رکھیں کہ آپ کا لہجہ مناسب ہو۔ پڑھنے والا اسے کسی بھی ذمرے میں سمجھ سکتا ہے۔ چونکہ ہر کسی کا ٹائپ کرنے کا اسٹائل الگ ہوتا ہے اس لیے کچھ لکھتے ہوئے خیال رکھیں کہ کوئی اس کا غلط مطلب نہ نکال لے۔
سادہ الفاظ میں ہلکی پھلکی اور خوشگوار باتوں کو اپنا فیس بک اسٹیٹس بنائیں۔ جملے کے آخر میں موجود ایک مسکراہٹ بھی اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔ مشہو ر کہاوت ہے کہ ’’مسکرائیں… دنیا آپ کے ساتھ مسکرائے گی۔‘‘

اجنبی لوگوں کو فرینڈ ریکویسٹ مت بھیجیں

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فیس بک پر زیادہ سے زیادہ دوست ان کی شہرت کو ثابت کرتے ہیں۔ اگر آپ کے لاتعداد دوست ہیں تو یہ بات ٹھیک بھی ہے لیکن اصلی دوست۔ ایسے لوگ نہیں جن کو آپ جانتے بھی نہیں، بس فیس بک پر کہیں نظرآئے اور آپ نے انھیں ایڈ کر لیا۔
دُور کی جان پہچان کے لوگ یا ایسے لوگ جن کے بارے میں آپ جاننا چاہتے ہوں یا ان کو کسی دوسرے کے حوالے سے جانتے ہوں ایڈ کرنے میں کوئی بُرائی نہیں لیکن اجنبی لوگوں اور خاص کر بڑی تعداد میں اجنبی لوگوں کو فیس بک پر ایڈ کرنا کسی بھی طرح آپ کے مشہور ہونے کو ثابت نہیں کرتا، بلکہ یہ آپ کی پروفائل پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

دوسروں کی بُری تصاویر مت شیئر کریں

موبائل کے ذریعے کیمرہ ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اندر کا فوٹو گرافر ہر وقت ہر لمحے کو کیمرے میں قید کرنے کو تیار رہتا ہے۔ ایسے میں دوست احباب کی کئی نازیبا یا بُرے پوز میں تصویریں بن جاتی ہیں۔ ایسی تصاویر ہنسی مذاق کی خاطر اپنی حد تک صحیح ہیں لیکن انھیں فیس بک پر شیئر کر دینا کسی طرح موزوں نہیں۔ ایسی تصویر شیئر کر کے دوست کو ٹیگ کرنا اور زیادہ بُرا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح یہ اس کے دوستوں اور فیملی تک بھی پہنچ جاتی ہے جس نہ صرف وہ مذاق کا نشانہ بن سکتا ہے بلکہ اس کی فیملی بُرا بھی مان سکتی ہے۔

ذاتی تشہیر مت کریں

اپنی نیوز فیڈ دیکھتے ہوئے آپ کو کسی دوست کی کافی پوسٹس نظر آتی ہیں اور بار بار نظر آتی ہیں۔ کیونکہ کچھ لوگ خودنمائی بہت پسند کرتے ہیں اور وہ ہر بات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ مثلاً میں فلاںہوٹل میں ہوں، کھانا بہت اچھا ہے، فلاں میرے ساتھ ہے، اب ہم سنیما جا رہے ہیں فلاں فلاں۔ ہر دس پندرہ منٹ بعد ایک نئی پوسٹ دیکھتے ہوئے آپ عاجز آجاتے ہیں اور آخرکار اس دوست کی تمام پوسٹس کو ہائیڈ کر دیتے ہیں۔ اگر آپ دوسروں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو کوئی آپ کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے لیکن اس صورت میں کہ آپ بھی ایسے تواتر سے پوسٹس کرتے ہوں۔ یہ کوئی غلط بات نہیں لیکن انسانی مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ پڑھنے والے ضروری نہیں کہ آپ کی ہر پوسٹ سے لطف اندوز ہوں اس لیے بہتر ہے کہ چاہے اپنے بارے میں شیئر کریں لیکن ایسا کچھ شیئر کریں کہ سب کی دلچسپی برقرار رہے۔

چین پوسٹس

آپ نے فیس پر یقیناً چین پوسٹس دیکھی ہوں گی، ایسی پوسٹس جو بے شمار لوگ شیئر کر چکے ہوتے ہیں اور آپ کو بھی اسے شیئر کرنے کی تلقین یا درخواست کی جاتی ہے۔ بعض پوسٹس تو ایسی ہوتی ہیں جن میں تنبیہ بھی موجود ہوتی ہے کہ اگر آپ نے اسے شیئر نہ کیا تو نقصان اُٹھائیں گے۔ بعض پوسٹس کے پیچھے کوئی رضاکارانہ مقصد پوشیدہ ہوتا ہے، بعض ثواب کے لیے شیئر کرنے کا کہا جاتا ہے اور زیادہ تر کے پیچھے تو کوئی تشہیری عمل کارفرما ہوتا ہے۔ اگرچہ اس بات میں بھی کوئی برائی نہیں لیکن بعض اوقات زیادہ اچھی بات بھی اچھی ثابت نہیں ہوتی۔ بار بار ایسی پوسٹس شیئر کرنے سے کوئی دوسرا آپ سے بے زار ہو سکتا ہے۔

دوسروں کی رائے کا احترام کریں

انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر کوئی آزاد ہے۔ ہر انسان اپنی الگ رائے رکھتا ہے اس لیے فیس بک پر اپنی رائے کا اظہار کرنے میں سبھی آزاد ہیں۔ دوسروں کی کسی بات سے اگر آپ کو اتفاق نہیں تو اُن کو صحیح راہ پر لانے کے لیے خدائی فوجدار بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آپ کسی سے متفق نہیں تو کوئی بات نہیں، اس بات کو نظر انداز کر کے اگلے چلیں۔ جذبات میں آکر اُلجھنا آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کے لیے بدگمانی مت پالیں۔
ایک چھوٹی سی بات پر اگر آپ کسی دوست سے اُلجھ جاتے ہیں تو کچھ دن وہ کوئی ایسی پوسٹ بھی لگا سکتا ہے جس سے آپ متفق ہوں، پھر آپ اس کی تائید کرنے میں ہچکچائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ہمیشہ دل بڑا رکھیں۔ اگر کسی کی کوئی بات پسند نہ آئے تو فوراً جتلانے کی بجائے درگزر کر دیں۔ غصہ ویسے بھی حرام ہے اس لیے ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ آپ کے اندر کتنی برداشت ہے اسے آزمانے کے لیے آپ فیس بک استعمال کریں اور ناپسندیدہ پوسٹس درگزر کرتے جائیں۔ اور جب یہی لوگ کوئی اچھی چیز پوسٹ کریں تو اسے لائیک کر کے ان کی تعریف کریں۔ دیکھیے گا اس عمل سے نہ صرف آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ آپ کو خود بھی اچھا محسوس ہو گا۔
اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ لوگ اپنے دوست کے دوست سے تبصروں میں جنگ کر رہے ہوتے ہیں اس طرح بیچ والا دوست بلاوجہ پریشانی اُٹھاتا ہے۔
ضروری نہیں ہوتا کہ چھڑنے والی بحث میں آپ ہر تبصرے کا فوراً جواب دیں، کہ اگر کہیں آپ نے جواب نہ دیا تو اگلا یہ نہ سمجھے آپ لاجواب ہو گئے۔ بعض اوقات بحث و مباحثے سے فرار اس بحث کو وہیں ختم کر سکتا ہے۔ ورنہ بہتر تو یہی ہے کہ شائستگی کا دامن تھامے رکھیں۔ اگر کوئی آپ سے متفق نہیں ہو رہا تو معذرت کرتے ہوئے گفتگو سے الگ ہو جائیں۔ کیونکہ یہ تمام بحث دیگر لوگوں تک پہنچ رہی ہوتی ہے اور لوگ آپ کے بارے میں منفی رائے پال سکتے ہیں۔

پرائیویسی سیٹنگز

اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی پرائیویسی سیٹنگز ضرور چیک کریں۔ قریبی دوستوں کے علاوہ رشتے دار، جان پہچان کے لوگ اور دفتر کے ساتھی بھی فیس بک پر ایڈ ہوتے ہیں اس لیے کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے یہ دھیان میں رکھیں کہ آپ کی پوسٹ کن کن لوگوں تک پہنچے گی۔ بہتر ہے کہ دوستوں کے مختلف گروپس بنا لیں۔ اگر کوئی بات صرف فیملی کے لوگوں سے شیئر کرنے والی ہے تو صرف فیملی کے لیے پوسٹ کریں، جو دوستوں سے شیئر کرنے والی بات ہو اسے دوستوں سے کریں اور اگر عام سی کوئی بات ہے جسے آپ سب سے شیئر کرنا چاہتے ہیں تو پوسٹ کرتے وقت پبلک بھی منتخب کر سکتے ہیں۔

اختتامیہ

ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ان تمام ہدایات پر سختی سے کاربند ہو کر فیس بک سے لطف اندوز ہونا ہی چھوڑ دیں۔ دراصل فیس بک ایک دودھاری تلوار ہے، اسے احتیاط سے استعمال کرنا ہی عقل مندی کا تقاضا ہے۔

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *