Monday 30 December 2013

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

مرزا ظفر بیگ  اتوار 15 دسمبر 2013
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔

لٹل فری لائبریری، جہاں کتابوں کا مفت تبادلہ ہوتا ہے

مرزا ظفر بیگ  اتوار 15 دسمبر 2013
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ فوٹو : فائل
لٹل فری لائبریری امریکا، بل کہ پوری دنیا میں چلائی جانے والی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بکسوں میں مفت کتابیں رکھ کر مقامی معزز لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہوتی ہیں۔ان بکسوں میں رکھی ہوئی کتابیں دوسرے لوگ لے کر مطالعہ کرسکتے ہیں اور ان کے بدلے ان میں اپنی پسند کی دوسری کتابیں دوسروں کے مطالعے کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بکسوں کو کتابوں کی فراہمی کی چوکی کہتے ہیں، کچھ چلتی پھرتی لائبریریاں بھی کہتے ہیں۔ غرض لوگ اپنی سہولت کے مطابق انہیں مختلف نام دیتے ہیں۔
٭ لٹل فری لائبریری کی تاریخ: پہلی لٹل فری لائبریری ہڈسن وسکونسن میں ٹوڈ بول نے شروع کی جو ایک دم مقبول ہوگئی۔ یہ خیال سبھی نے پسند کیا۔ ٹوڈ نے لکڑی کا ایک بکس تیار کرایا جس کی بناوٹ کسی اسکول جیسی تھی۔ اس نے یہ بکس اپنے لان میں ایک چھوٹے سے بانس پر لگوادیا۔ ٹوڈ نے یہ لٹل فری لائبریری اپنی ماں کی یاد میں شروع کی تھی، جو کتابوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ اس کے بعد بول نے یہ آئیڈیا اپنے پارٹنر رک بروکس کے ساتھ شیئر کیا جس نے اس کے فروغ کے لیے دل وجان سے کام کرنا شروع کیا۔ رک بروکس کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی لٹل فری لائبریری عام لوگوں اور خاص طور سے بچوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے شروع کرنا بہت آسان تھا۔ لائبریری کے مالکان خود اپنے لائبریری بکس تخلیق کرسکتے تھے۔ یہ بکس عام طور سے گڑیا کے ایک چھوٹے سے گھر کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی لٹل فری لائبریری کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے:
’’ٹیک اے بک، لیو اے بک‘‘ یعنی ’’ایک کتاب دیجیے اور ایک کتاب لیجیے‘‘
فروری 2013تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور دنیا بھر کے چالیس ملکوں نے اس تعلیمی پروگرام کو پسند کرکے اختیار کرلیا ہے اور ان سبھی مقامات پر لٹل فری لائبریریز نہ صرف قائم ہیں بل کہ بڑی تن دہی سے کام کررہی ہیں۔
٭لائبریری پروگرام: اس پروگرام کا بنیادی مقصد اس طرح کی 2150 چھوٹی لائبریریاں قائم کرنا تھا۔ یہ تعداد اینڈریو کارنیج کی قائم کردہ لائبریریوں کی تعداد سے بھی بڑھ گئی۔ دنیا بھر کے ملکوں میں جنوری 2013تک پانچ سے چھے ہزار کے درمیان لٹل فری لائبریریاں کام کررہی تھیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق 2010اور2013کے درمیان 1,650,000 کتابوں کا مفت لین دین کیا گیا۔
ویسے تو لٹل فری لائبریری کا آئیڈیا دیہی مقامات کے لیے دیا گیا تھا جہاں لائبریریاں بہت کم ہوتی ہیں، مگر یہ شہروں اور قصبوں میں بھی بہت مقبول ہوا، لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور سے ان مقامات میں یہ لائبریریاں بہت چلیں جو حال ہی میں کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کی زد میں آئے تھے۔ ایسی جگہوں کے بچے عارضی طور پر تعلیم و تربیت کی سہولتوں سے محروم تھے، لٹل فری لائبریری نے ان کی اس محرومی کو دور کیا اور اس طرح تعلیم سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ 2010 کے آخر میں امریکی ریاست وسکونسن کے گاؤں وائٹ فش بے میں اس لائبریری پر اعتراض کیا گیا اور وہاں لٹل فری لائبریری کے پراجیکٹ کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ وہاں موجود ایک لٹل فری لائبریری کو بھی ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ اس گاؤں کے ٹرسٹیوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے ایک آرڈی نینس کے مطابق گھروں کے بیرونی صحن میں ہر طرح کے ڈھانچے کی تعمیر منع ہے۔ یہ ٹرسٹی ایک اور بات پر بھی پریشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی لٹل فری لائبریری میں اگر کسی شخص نے قابل اعتراض یا غیراخلاقی کتابیں رکھ دیں تو اس سے علاقے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگست 2013میں گاؤں نے خصوصی طور پر ایک نیا آرڈی نینس منظور کیا، جس کے تحت لٹل فری لائبریری کے لکڑی کے بکس پرائیویٹ پراپرٹی پر رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کو اور خاص طور سے بچوں کو لٹل فری لائبریری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔2010کے موسم گرما تک ٹوڈ بول کا مشن اور اس کے مقاصد واضح ہوتے چلے گئے۔ اسی سال اس نے پہلی لائبریری قائم کی۔ اصل اور اوریجنل ماڈلز ری سائیکلڈ مٹیریل سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر ماڈل یکتا اور منفرد تھا۔ لیکن ان کا تھیم یا عنوان ایک اور مشترک تھا، یعنی کتابوں کا تبادلہ یا لین دین کرنا اور لوگوں کو کسی مثبت مقصد کے لیے ایک جگہ جمع کرنا۔
٭لٹل فری لائبریری کا مشن: تعلیم و تدریس کا فروغ اور ان لائبریریوں کے ذریعے لوگوں میں مطالعے کی محبت بیدار کرنا اور دنیا بھر میں کتابوں کے مفت تبادلے کو ممکن بنانا۔
٭مشترکہ سوچ، مہارتوں، تخلیقیت اور عقل و دانش کے ذریعے دنیا بھر کی نسلوں کی فکری آب یاری کرنا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لٹل فری لائبریری قائم کرنے کے لیے نہ تو کوئی سرمایہ تھا، نہ عمارت، نہ کسی طرح کا آفس تھا اور نہ ہی تن خواہ دار اسٹاف موجود تھا۔ سب کچھ ایک سوچ کے ذریعے پروان چڑھ رہا تھا اور لوگ اس منفرد خیال کی طرف کھینچے چلے آرہے تھے۔ ایک فرد سے دوسرے فرد تک، ایک برادری سے دوسری برادری تک، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک یہ تصور پھیلتا چلا گیا اور لوگوں میں فوراً ہی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ہزاروں کتابیں اس لٹل فری لائبریری کے ذریعے مطالعے کے شوقین افراد تک پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح تعلیم کا عمل مسلسل فروغ پارہا ہے۔
پہلی باقاعدہ لٹل فری لائبریری ہڈسن کے باہر سائیکل چلانے والے راستے پر قائم ہوئی۔ یہ راستہ ایک آرٹ گیلری اور کیفے زوما کے عقب میں میڈیسن کی مشرقی سمت میں واقع تھا۔ یہ 2010 کا موسم گرما تھا۔ ستمبر میں ولی اسٹریٹ فیئر لگتا تھا، اس میلے کا وقت آنے تک ہزاروں افراد اس لائبریری پر دیکھے گئے۔ مزید لائبریریوں کے تعمیر و قیام کے لیے فنڈز درکار تھے۔ اس ضمن میں دیہی کیشٹن (وسکونسن) کے ہنری ملر نامی ایک پرجوش کارپینٹر نے ابتدائی طور پر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں۔ اس نے سو سال پرانے ایک اناج گودام کی لکڑی لے کر اپنا کام شروع کیا جو ایک طوفان باد و باراں میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک فرد سے دوسرے فرد تک اس فری لٹل لائبریری کا پیغام عام ہوتا چلا گیا۔ لوگوں نے اس میں کشش محسوس کی اور اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔
کچھ لوگوں کو تو یہ آئیڈیا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے قریب آزادانہ طور پر ایسی فری لٹل لائبریریز قائم کرنی شروع کردیں۔ یہ اس انوکھی لائبریری کا سحر ہی تھا جس نے بے شمار رضاکار اس کام میں معاونت کے لیے فراہم کردیے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس کے لیے چھوٹے موٹے عطیات بھی فراہم کردیے اور کچھ نے تو غیر رسمی شراکت داریاں اور اتحاد بھی قائم کردیے، جس سے فری لٹل لائبریری کی مہم میں تیزی آگئی اور یہ لائبریریاں عصر حاضر کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے لگیں۔ باقی سارا کام خود ہی ہوتا چلا گیا۔ اس کے چرچے دنیا بھر کے اخبارات میں بھی ہوئے اور بلاگز پر بھی اس کی باتیں کی گئیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بھی فری لٹل لائبریری کے پیغام کو عام کیا گیا۔
2011میں مقامی، علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ نے اس طرف توجہ کی جس کے نتیجے میں یہ ایک تحریک بن گئی۔ اس سال کے اختتام تک لگ بھگ 400فری لٹل لائبریریاں امریکا بھر میں قائم ہوگئیں۔ اس کے بانی جانتے تھے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب اس مہم یا تحریک کو ایک رسمی اور آزاد تنظیم کا روپ اختیار کرلینا چاہیے۔ مئی 2012 میں فری لٹل لائبریری باقاعدہ طور پر وسکونسن کی ایک غیر سرکاری تنظیم بن گئی، جس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے۔ ستمبر میں انٹرنل ریونیو سروس نے اس این جی او کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنوری 2014 تک رجسٹرڈ فری لٹل لائبریریوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان لگایا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں مزید تعمیر کی جارہی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا اور فری لٹل لائبریریوں کے ذریعے علم کے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا جائے گا۔
اپنی رائے دیجئے
(نام (ضروری ہے
(ای میل (ضروری ہے
ویب سائٹ














مصباح نے کیلنڈر ایئر میں بغیرسنچری کے سب سے زیادہ ففٹیزکا ریکارڈ بنا دیا

مصباح نے کیلنڈر ایئر میں بغیرسنچری کے سب سے زیادہ ففٹیزکا ریکارڈ بنا دیا

مصباح الحق نے 2013 میں سب سے زیادہ 15 ون ڈے ففٹیز اسکور کیں۔ فوٹو اے ایف پی / فائل
ابوظبی:  مصباح الحق نے 2013 میں سب سے زیادہ 15 ون ڈے ففٹیز اسکور کیں، اس کے ساتھ کیلنڈر ایئر میں بغیر سنچری کے سب سے زیادہ ففٹیز کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کرلیا۔
ان سے قبل یونس 2002، ساروگنگولی 2007 اور گریم اسمتھ 2007 میں بغیر سنچری12 ففٹیز بنا چکے ہیں۔ 2013 میں مصباح نے 1373 اور حفیظ نے 1301 رنز بنائے، 1992 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب سال میں سب سے زیادہ ون ڈے رنز بنانے والوں کی فہرست میں ٹاپ 2 پوزیشنز پر پاکستانی کھلاڑیوں کا قبضہ رہا، 1992 میں جاوید میانداد 942، رمیز راجہ 865 اور انضمام الحق 818 رنز کے ساتھ ٹاپ 3 رنز اسکورر تھے۔ سری لنکا کیخلاف سیریز میں حفیظ نے 448 رنز بنائے، اس طرح وہ پانچ میچز کی سیریز میں سب سے زیادہ رنز کے سلمان بٹ کے ریکارڈ سے تین رنز پیچھے رہ گئے، سابق اوپنر نے 2007-08 میں بنگلہ دیش کے خلاف 451 رنز بنائے تھے۔
سری لنکا سے ون ڈے مقابلوں میں پاکستان کا مجموعی اسکور 1318 رہا جو پانچ میچزکی سیریز میں اس کا تیسرا بڑا ٹوٹل ہے۔ جنید خان نے 13 وکٹیں لے کر کسی باہمی سیریز میں سب سے زیادہ شکار کرنیوالے دوسرے پلیئر کا اعزاز حاصل کیا، ان سے قبل رانا نوید نے 2004-05 میں بھارت کیخلاف 14 وکٹیں لی تھیں تاہم انھوں نے جنید سے ایک میچ زیادہ کھیلا تھا۔ جنید نے ایک باہمی سیریز میں کسی لیفٹ آرم فاسٹ بولر کی جانب سے دوسرے نمبر پر وکٹوں کا بھی ریکارڈ برابر کردیا، نیوزی لینڈ کے جیف ایلوٹ اور آسٹریلوی مچل جونسن اس فہرست میں ٹاپ پر ہیں۔ دونوں نے 7، 7 میچز کی سیریز میں 14، 14 وکٹیں لیں۔
\

پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کے قریب سے آج پھر دھماکا خیز مواد برآمد

دھماکا خیز مواد برآمد ہونے کے بعد پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کی سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔ فوٹو؛فائل
اسلام آباد: سابق صدر پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کے قریب سے آج پھر دھماکا خیز مواد برآمد ہوا ہے جسے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنادیا۔
پولیس ذرائع کےمطابق اسلام آباد کے چک شہزاد میں  پرویزمشرف کے فارم ہاؤس کے قریب پارک روڈ کے گرین بیلٹ سے بارودی مواد کے 5 پیکٹ  برآمد ہوئے ہیں اور ہرپیکٹ میں 400 سے 500 گرام بارودی مواد تھا جب کہ کوئی  ڈیٹونیٹرمنسلک نہیں تھا۔ پولیس نے فوری طورپربم ڈسپوزل سکواڈ کو طلب کرلیا اور بارودی موادکو ناکارہ بنایاگیا۔ دھماکا خیز مواد برآمد ہونے کے بعد پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کی سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کے اطراف سے متعدد بار دھماکا خیز مواد برآمد ہوچکا ہے۔ 25 دسمبر کو بھی خصوصی عدالت میں غداری مقدمے کی سماعت سے قبل فارم ہاؤس کے قریب سڑک کے کنارے سے 5 کلو وزنی دھماکا خیز مواد اور 2 پستول برآمد ہوئے تھے جس کے بعد سابق صدر کی خصوصی عدالت روانگی منسوخ کر دی گئی تھی۔

ملک بھرمیں سردی کی لہر، بالائی علاقوں اور بلوچستان میں ندی نالوں اور جھیلوں کا پانی جم گیا

ملک بھرمیں سردی کی لہر، بالائی علاقوں اور بلوچستان میں ند

ملک بھرمیں سردی کی لہر، بالائی علاقوں اور بلوچستان میں ندی نالوں اور جھیلوں کا پانی جم گیا


زیارت میں درجہ حرارت منفی 11 اور کوئٹہ میں منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈریکارڈ کیا گیا۔ فوٹو: ایکپسریس/ فائل
ملک بھر میں سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بالائی علاقوں اور شمالی بلوچستان میں ندی نالوں اور جھیلوں کا پانی جم گیا ہے جبکہ محکمہ موسمیات نے سردی کی لہر مزید 6سے 7 روز برقرار رہنے کی پیش گوئی کردی ہے۔  
ایکسپریس نیوز کے مطابق  کشمیر، مالاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں پہاڑوں پر دو دن سے برف باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔جس کی وجہ سے سردی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ کوئٹہ سمیت شمال مغربی بلوچستان کے کئی علاقوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی کئی درجے کم ریکارڈ کیا گیا۔ زیارت میں درجہ حرارت منفی 11 اور کوئٹہ میں منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈریکارڈ کیا گیا۔ کوئٹہ کی سرد اور جمادینے والی ہواؤں نے کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان کے ساحل اور میدانی علاقوں میں بھی سردی کی شدت بڑھا دی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کراچی، حیدرآباد، ٹھٹہ اور بدین میں کم سے کم درجہ حرارت 6 جبکہ نوابشاہ میں 2.5 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے بیشترعلاقوں میں موسم سرداور خشک رہنے کا امکان ہے تاہم گلگت بلتستان، مالاکنڈ، ہزارہ ڈویژن اور کشمیر میں بارش اور پہاڑوں پر برفباری ہوسکتی ہے، جبکہ شمال مغربی بلوچستان میں موسم خشک اور سرد رہے گا، سردی کی لہر مزید 6 سے 7 روز تک رہے گی اور کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں میں آئندہ 2 روز درجہ حرارت میں مزید کمی دیکھی جائے گی۔

نزلہ، زکام اور کھانسی کا جڑی بوٹیوں کی ادویات سے بہترین علاج

نزلہ، زکام اور کھانسی کا جڑی بوٹیوں کی ادویات سے بہترین علاج

جڑی بوٹیوں کی ادویات بیماریوں میں نہ صرف آرام دیتی ہیں بلکہ قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتی ہیں، فوٹو؛فائل
نزلہ، زکام اور کھانسی انسانوں کی سب سے عام بیماریاں ہیں اوران کا بہترین علاج جڑی بوٹیوں سے بنی ادویات ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ  سردی کے موسم میں  نزلہ، زکام اورکھانسی جیسی بیماریوں سے چھٹکارا پانے کے لئے جڑی بوٹیوں سےگھر میں تیار کردہ  ادویات سستا اور مؤثر علاج ہے۔ ادرک کی چائے، ہلدی ملا دودھ، شہد لیموں اور دار چینی کا سیرپ، نیم گرم پانی اور گاجر کے تازہ جوس کا استعمال ان بیماریوں میں نہ صرف آرام دیتا ہے بلکہ قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
واضح رہے کہ سرد موسم میں زیادہ تر افراد نزلہ، زکام اور کھانسی جیسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں تاہم جڑی بوٹیوں سے بنی ادویات سے نہ صرف ان بیماریوں سے جھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ دیگر دواؤں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *