Saturday 28 December 2013

بینک ڈاکوؤں کے دن گنے جا چکے

بینک ڈاکوؤں کے دن گنے جا چکے



اس قسم کے ڈاکے اب قصۂ پارینہ بنتے جا رہے ہیں
برٹش بینکرز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق برطانوی بینکوں میں گذشتہ عشرے کے دوران پڑنے والے ڈاکوں کی تعداد میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
بی بی اے کا کہنا ہے 2011 میں صرف 66 ڈاکے پڑے، جب کہ 1992 میں پڑنے والے ڈاکوں کی تعداد 847 تھی۔
اس کمی کی وجہ جدید ٹیکنالوجی ہے جس کے باعث ڈاکے مارنے کے ’روایتی‘ طریقے فرسودہ ہو چکے ہیں اور اب وہ کام نہیں کرتے۔
بی بی اے کے سربراہ اینتھنی براؤن نے کہا: ’بینک اب ڈاکوں کو صرف ٹی وی ڈراموں تک محدود رکھنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔
’بینک ڈاکے کا شکار ہونا عملے اور صارفین دونوں کے لیے انتہائی شدید آزمائش ہے جس سے زندگیاں عشروں تک داغ دار ہو کر رہ جاتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ’یہ بات بہت اچھی ہے کہ حالیہ برسوں میں اس قسم کے جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب جو کوئی بھی بینک لوٹنا چاہتا ہے اسے بہت بہتر سی سی ٹی وی، ایک سیکنڈ کے اندر اندر بلند ہو جانے والی حفاظتی سکرینوں، حتیٰ کہ خصوصی قسم کی دھند کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا مقصد مجرموں کو گڑبڑا دینا ہوتا ہے۔
’بینک دوسرے بینکوں، ڈاک خانوں اور پولیس کے اشتراک سے ڈاکوں کو ماضی کا حصہ بنانے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
اسی قسم کا رجحان امریکہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے جہاں ایف بی آئی نے کہا ہے کہ 2012 میں ملک بھر میں بینک ڈاکوں کی 3870 واداتیں ہوئیں، جو کئی عشروں کی دوران سب سے کم تعداد ہے۔
خصوصی دھند
ممکنہ ڈاکوؤں کے حوصلے پست کرنے کے لیے بینکوں نے سکیورٹی ٹیکنالوجی پر خاصا پیسہ خرچ کیا ہے۔
اس قسم کی ٹیکنالوجی میں سادہ رکاوٹیں شامل ہیں، جو ایک خفیہ بٹن دبانے پر اچانک چھت سے نکل کر راستہ مسدود کر دیتی ہیں۔ ایک ایسی ہی ٹیکنالوجی کے تحت مجرموں کو بدحواس کرنے کے لیے ایک خاص قسم کی ’دھند‘ استعمال کی جاتی ہے۔
’ڈی این اے‘ سپرے ایک اور حربہ ہے، جس میں ڈاکوؤں کے جسم پر ایک خاص قسم کے مواد سپرے کر دیا جاتا ہے جسے جسم پر سے دھونا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ملزم ڈاکے کے وقت بینک میں موجود تھا۔
آن لائن بینکنگ
تاہم ڈاکو بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھے اور انھوں نے بھی اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔ بعض ڈاکوؤں نے اپنی توجہ بینکوں کی بجائے ان گاڑیوں پر مرکوز کر لی ہے جو رقم کی ترسیل کرتی ہیں۔
سائبر مجرم کسی کی آن لائن بینکنگ کی معلومات 30 ڈالر میں خرید کر ان کے اکاؤنٹ سے لاکھوں ڈالر چوری کر سکتے ہیں
تاہم اس سے بھی زیادہ خطرناک آن لائن جرائم ہیں جن کے تحت بینک اکاؤنٹس کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کلِک ٹوئٹر کے ڈھائی لاکھ صارفین کی معلومات چوری
کلِک سونی کے صارفین کی معلومات چوری
حال ہی میں امریکی چین سٹور ٹارگٹ سے چار کروڑ کریڈٹ کارڈوں کی معلومات چرا کر آن لائن فروخت کر دی گئی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق یہ سائبر حملہ یوکرین سے کیا گیا تھا۔
ایک اور حملے میں سائبر ڈاکو نیویارک میں کیش مشینوں کے آن لائن ڈیٹا بیس ہیک کر کے ساڑھے چار کروڑ ڈالر لے اڑے تھے۔
ایک حالیہ مطالعے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ لوگوں کی مالیاتی معلومات انٹرنیٹ کی بلیک مارکیٹ میں 30 ڈالر کے لگ بھگ قیمت پر عام فروخت ہوتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *