Friday 27 December 2013

شعیب اختر اور محمد یوسف اب آپ ”لالا“ کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

: شعیب اختر اور محمد یوسف اب آپ ”لالا“ کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

آفریدی کی شاندار کارکردگی کی بندولت پاکستان نے دبئی میں سری لنکا کو پہلے ٹی 20 میں باآسانی شکست دی۔ فوٹو: اے ایف پی
پچھلے کچھ ہفتوں میں، ہم نے شاہد آفریدی میں کافی دلچسپی دیکھی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پہلے میڈیا سے شرماتے تھے لیکن ان کی شعیب اختر اور محمد یوسف کے ساتھ لفظوں کی جنگ نے ملک بھر میں موجود کرکٹ شائقین کو بد مزہ کردیا ہے۔
سب سے زیادہ تعجب کی بات ہے کہ شاہد آفریدی کی جانب اٹھنے والی انگلیوں کی تعداد شعیب اختر اور محمد یوسف کی جانب اٹھائی جانے والی انگلیوں سے کافی بڑھ گئی ہے، یہ نا صرف پاکستانی سپورٹر کے بدلتے مزاج کو بلکہ ہمارے ملک میں موجود منافقت کی سطح کو بھی واضح کرتا ہے۔
بہت زیادہ پرانی نہیں بلکہ جولائی 2013 کی بات ہے کہ جب شاہد آفریدی نے  ویسٹ انڈیز کے خلاف کے خلاف ایک روزہ سیریز میں 12 رنز کے عوض 7 وکٹیں حاصل کیں اور اس ملک میں ہر کرکٹ پرستار اس بات پر جھوم رہا تھا کہ وہ کتنا اچھا ہے۔  کچھ ماہ گزرنے کے بعد اب یہی پرستار ان کو کوس رہے ہیں۔
کیوں؟
یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے ٹی وی اسکرین پر بیٹھے 3 جعلی تجزیہ کاروں پر جوابی وار کیا؟
پہلے شعیب اختر ہیں جن کے تنازعات کے رحجان نے ان کی قابلیت کو پورے کیریئر کے دوران ماند کردیا۔ دوسرے محمد یوسف ہیں جو کہ اب بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اپنے ساتھ رکھے گئے رویے پر خفا ہیں اور غصے میں عامر سہیل کی سطح تک پہنچ رہے ہیں۔
آخر میں   آپ کے پاس ہیں سکندر بخت جن کی پاکستان کرکٹ کے لیے خدمت مضحکہ خیز ہے۔ خراب کارکردگی پر تنقید مناسب اور منصفانہ ہے لیکن ان لوگوں کی جانب سے تنقید ہونا جن کے اپنے جسم میں عقل کی ہڈی نہیں طیش دلاتا ہے۔
کسی کے لیے بھی اپنے ٹی وی ٹاک شوز کا آرام دہ سیٹ تنقید کے لیے بہت ہی آسان جگہ ہے۔ آفریدی درست تھا جب اس نے کہا ،
”جس طرح کا کچھ ماہرین رویہ اختیار کرتے ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے ان کے دور میں کبھی ٹیم ہاری ہی نہیں۔“
اگرچہ ہارنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا اورآخرکار آپ کو اس کی سزا بھگتا ہوتی پڑتی ہےمگر کسی ایک کھلاڑی کو ٹارگٹ کرنا شرمناک ہے۔ آفریدی جسے تمام تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس نے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ باؤلنگ میں بہتر کاکردگی دکھائی۔ جی ہاں، وہ ایک ماہر بولر ہے نہ کہ بلے باز۔ ایک بلے باز کے طور پر وہ جو بھی کرتا صرف ایک بونس ہے۔ نا زیادہ اور نہ ہی کم۔
متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقا کے خلاف ہماری ٹیم میں کچھ ایسے بھی کھلاڑی شامل تھے جو زیادہ تنقید کے مستحق تھے، مثال کے طور پر محمد حفیظ کی کارکردگی المناک سے کم نہیں رہی۔
جب اس کی بات آتی ہے تو ٹی وی یا ٹاک شوز پر جعلی تجزیہ کار نظر کیوں نہیں آتے؟
ناصر جمشید کے بارے میں کیا خیال ہے؟
وہ کافی عرصے سے فارم میں نہیں ہیں یا باقاعدگی سے لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے والے عمر اکمل ؟
کسی نے بھی انہیں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا یا ان کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا۔
آفریدی شاید ایک بہت ہی آسان ہدف ہیں اور اس پر دی جانے والی رائے ہمیشہ ہی انتہا پر ہوگی۔ لوگ یا تو اسے سراہیں گے یا اس سے نفرت کریں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ آفریدی حال میں بہتر نہیں رہے تاہم شاید ہی وہ اتنے برے بھی تھے جتنا برا اسے بنایا جاتا ہے۔
کسی بھی عام کھلاڑی کو اگر بے جا تنقید کا کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ مشتعل ہوجائے گا۔ یہاں جب ٹیم کی جانب حالیہ تنقید کی بات آئی تو مصباح الحق نے بھی آفریدی کے  نقطہ نظر سے اتفاق کیا۔ جب بھی ٹیم خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اس وقت ریٹائرمنٹ کے مشورے کا منڈلانا نامعقول بات ہے ۔
ہم عشروں سے کرکٹ کو دیکھ، کھیل اور سپورٹ کر رہے ہیں، پھر بھی ابھی تک ہم اپنے جذبات اور دانشمندانہ سوچ کو جاننے کے قابل نہیں ہوئے۔ ہم ان ہی کھلاڑیوں کی بے انتہا تعریف کریں گے جب بھی وہ اچھا کھیلیں گے اور ہمیشہ ان کی تبدیلی کا مطالبہ کریں گے جب وہ ہار وطن واپس آئیں گے۔
محمد یوسف اور شعیب اختر گراؤ پر شاندارکھلاڑی تھے لیکن ٹیم کی جانب ان کا تجزیہ کسی اور چیز سے زیادہ ذاتی انتقام ہوتا ہے۔ طویل عرصے تک کرکٹ کھیلنے کے بعد وہ خود بھی ہارنے والی ٹیم کی جانب سے کھیلنے کا دباؤ کو سمجھتے ہیں جانتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کرکٹ کی دیوانی قوم جو کہ ہر ہار کے پیچھے خون کی بو محسوس کرتے ہے کے دباؤ سے نمٹنا کر قدر مشکل ہوتا ہے۔
جذباتی حامیوں اور بدتہذیب پریس کا سامنا کرنا پہلے ہی ایک مشکل کام ہے، لہذا موجوددہ کھلاڑیوں کو سابق کھلاڑیوں کی جانب سے ریٹائرمنٹ اور برطرفی کا مطالبہ سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہی ٹیم ہے جس نے متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقا کے خلاف سیریز ہاری تھی اور پھر اگلی ہی سیریز جیت کر کایا پلٹ دی تھی۔
آفریدی شاید ایک لیجنڈ  نہیں ہیں لیکن ہماری محدود اووز کی ٹیم کے لیے ان خدمت اہم رہی ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے ایک روز میچوں کے ورلڈکپ میں ہمیں گزشتہ 12 سال میں سب بہتر اختتام دیا اور 2009 میں ہمارے ٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے میں اہم کردارادا کیا۔
انہوں نے اپنے کیریئر میں باؤلنگ کرتے ہوئے کئی مواقعے پر یادگار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور بعض مواقعوں پر انہوں نے اپنی بیٹنگ سے بھی غیرمعمولی کاکردگی دکھائی، وہ ایک روزہ کرکٹ میں واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے تین مرتبہ ایک ہی میچ میں 5 وکٹیں لیں اور 50 سے زائد رنز بھی بنائے۔
اگرچہ ان کی فارم میں اچھے دنوں کی نسبت گری ہے تاہم وہ جلد کرکٹ ہمت ہارنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ تمام تر امکانات کے باوجود وہ 2015 کے ورلڈ کپ یا اس کے قریب تک رہیں گے اور ایک روزہ میچز اور ٹی 20 ٹیموں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اور سری لنکا کے خلاف حال ہی میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کرنا اس حقیقت کی تصدیق ہے ۔
گذشتہ روز دبئی اسٹیڈیم میں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹی 20 انٹرنیشنل میچ میں 3 وکٹوں سے کامیابی میں آل راؤنڈر شاہد آفریدی کی کارکردگی نمایاں رہی،مجموعی طور پرآٓفریدی نے میچ میں 6 چھکے اور 2 چوکے لگائے اور عالمی نمبر ایک ٹیم سری لنکا جو کہ کھیل کو آخری اوور تک لے کر گئی تھی جس میں پاکستان کو 6 رنز درکار تھے کے مشکل ہدف کو ممکن بنایا۔
یہ وہی کھلاڑی ہیں جنہیں دائیں، بائیں اور سامنے سے ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور وہی کھلاڑی ہیں جن کی کرکٹ کا اختتام ہر سیریز ختم ہونے پر لکھا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین کارکردگی پر کرکٹ کا شائقین کا ردعمل روایتی تھا اور ان جعلی تجزیہ کاروں نے بھی آفریدی کو خراچ تحسین پیش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ یہی لوگ اپنی چھریوں کو تیز کرنا شروع کردیں گے اور اگر آئندہ کچھ میچوں میں ان کی کارکردگی اچھی نہ رہی، ایک دن ہیرو اور اگے دن ولن۔
اچھی اور بری کارکردگی کھلاڑیوں کے لیے روزمرہ کا حصہ ہے، ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمارے کھلاڑی ہیں۔ اگر ہم مشکل وقت میں ان کی حمایت نہیں کریں گے تو کوئی اور بھی نہیں کرے گا ۔
تنقید درست ہے لیکن بے جا تنقید بلاجواز ہے۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *