Saturday 28 December 2013

معروف اداکار فاروق شیخ سے آخری ملاقات

معروف اداکار فاروق شیخ سے آخری ملاقات

فارق شيخ امرولی میں سنہ 1948 میں پیدا ہوئے تھے
معروف بھارتی اداکار فاروق شیخ سے میری پہلی ملاقات ہی آخری ثابت ہوئی۔ وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے لیے دہلی آئے ہوئے تھےکہ ہم نے ان سے بالی وڈ کے 100 سال کےسفر پر ایک انٹرویو کی درخواست کی اور وہ فوراً مان گئے۔
صرف دو ہفتے قبل جب ہم ان کی فلم کے سیٹ پر پہنچے تو کھڑے ہوکر انھوں نے ہمارا استقبال کیا۔ کیمرے کے سامنے بیٹھنے سے پہلے بولے’آپ تو بہت چمک رہے ہیں، میں بھی اپنا حلیہ ٹھیک کر لوں۔‘
میں نے جواب دیا کہ فاروق بھائی کبھی کبھی ہمیں بھی چمکنے کا موقع دیجیے تو زور سے قہقہہ لگایا اور بات چیت شروع ہوگئی۔
شاید یہ ان کی زندگی کا آخری انٹریو ہو۔ وہ ایک انتہائی سادہ انسان تھے۔ ان کی بے مثال اداکاری تو کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن ان سے ملنے کے بعد مجھے لگا کہ بڑے پردے کے پیچھے فاروق شیخ کی اصل زندگی بھی ان کے ’سکرین کریکٹر‘ سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ان کی شخصیت کو صرف تین لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے ’شائستگی، کثر نفسی اور مزاح لطیف۔‘
انٹرویو ہندوستانی سینیما کے 100 سال کے سفر پر تھا۔ میں نے پوچھا کہ اس طویل سفر میں وہ ایک ایسی کیا چیز ہے کہ جس پر آپ کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے؟
انھیں سب سے زیادہ شکایت اس غیر معیاری زبان پر تھی جو آج کل ہندی فلموں کا حصہ بن گئی ہے۔ بات چیت کےدوران انھوں نے کہا کہ اگر کوئی ننگا ہوکر سڑک پر نکلے تو دیکھنےو الے جمع ہو ہی جائیں گے لیکن ’ننگا ہونا کوئی اچھی بات تو نہیں۔‘
’بھونڈی‘ زبان کا استعمال کیے بغیر بھی اچھی فلمیں بنائی جاسکتی ہیں جیسے پہلے بنتی تھی اور کامیاب بھی ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فلم ساز ویسی ہی فلمیں بنائیں گے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ایک ’بائر مارکیٹ‘ ہے۔

ناراضگی کا کھل کر اظہار

"آپ اگر چپل بھی لینے جاتے ہیں تو چار مرتبہ اس کا معائنہ کرتے ہیں، تو فلم دیکھتے وقت کیوں ایسا نہیں کرتے۔۔۔آخر آپ پیسے خرچ کرتے ہیں، وقت لگاتےہیں لیکن جب فلم پسند نہیں آتی تو اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہارکیوں نہیں کرتے؟ جب تک آپ یہ نہیں کریں گے کچھ نہیں بدلے گا۔"
فاروق شیخ
ان کا کہنا تھا ’آپ اگر چپل بھی لینے جاتے ہیں تو چار مرتبہ اس کا معائنہ کرتے ہیں، تو فلم دیکھتے وقت کیوں ایسا نہیں کرتے۔آخر آپ پیسے خرچ کرتے ہیں، وقت لگاتے ہیں لیکن جب فلم پسند نہیں آتی تو اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہارکیوں نہیں کرتے؟ جب تک آپ یہ نہیں کریں گے کچھ نہیں بدلے گا۔‘
آرٹ یا متوازی سینیما میں کام کرنے والے بہت سے اداکار کمرشل سینیما کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن فاروق شیخ کا کہنا تھا کہ آرٹ سینیما اسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے جب کمرشل سینیما کی صحت اچھی ہو۔ ’اگر لوگ کمرشل سینیما نہیں دیکھیں گے تو ہماری طرف کون نظر ڈالے گا؟‘
فاروق شیخ کا جب بھی ذکر ہوگا تو ’گرم ہوا‘، ’شطرنج کے کھلاڑی‘، ’چشم بدور‘، ’نوری‘، ’ساتھ ساتھ‘ اور ’امراؤ جان‘ جیسی فلموں میں ان کی بے مثال اداکاری کو یاد کیا جائے گا۔
انھوں نے ٹی وی پر بھی بے مثال کردار ادا کیے۔ انٹرویوز پر مبنی پروگرام ’جینا اسی کا نام ہے‘ ان کا مقبول ترین پروگرام تھا جبکہ انھوں نے ’یس منسٹر‘ کے ہندی ورژن ’جی منتری جی‘ میں بھی اہم کردار اپنے مخصوص انداز میں ادا کیا تھا۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *