Friday 27 December 2013

نواز حکومت کو دو خطرے

نواز حکومت کو دو خطرے


نواز شریف کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید کہتے ہیں کہ اب ’’ہنی مون‘‘ کا دور ختم ہو چکا ہے۔ شریف حکومت دو کام کرے تو اس کے خلاف کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ دو کام کر گزریں تو مدت پوری کر لیں گے۔ اگر وہ یہ نہ کر سکے تو 5سالہ میعاد مکمل ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان میں ایوب اور بھٹو کے خلاف کامیاب تحریکیں چل چکی ہیں۔ پاکستان کے یہ مضبوط ترین حکمران دو چار ماہ کے احتجاج کے نتیجے میں اقتدار سے محرومی کے صدمے سے دوچار ہو گئے۔
نواز شریف کے حامیوں اور مخالفوں کے لیے پاکستان کے ان دو حکمرانوں کی زندگیوں میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ پہلے ہم ایوب اور بھٹو کے خلاف ایجی ٹیشن کے اسباب پر گفتگو کریں گے اور پھر عمران کے میدان عمل میں نکلنے کے حالات کا تجزیہ کریں گے۔ اگلے تین سو سیکنڈز میں ہماری سمجھ میں آ جائے گا کہ شریف حکومت اگلے چار برسوں یعنی 2014ء سے 2017ء کے دسمبر کے ڈھلتے سورج اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر دیکھ سکے گی یا پہلے ہی ڈھل جائے گی؟ ہماری سمجھ میں آ جائے گا کہ وزیر اعظم بننے کی ہیٹ ٹرک کرنے والے جلد رخصت ہونے کی روایت قائم رکھیں گے یا نہیں۔ پانچ منٹ میں فیصلہ ہو رہا ہے کہ نواز شریف پانچ سال پورے کریں گے یا نہیں؟ دو خطرے دو فارمولوں کی طرح ہماری سمجھ میں آئیں گے۔
ایوب خان پاکستان کے مضبوط ترین حکمران تھے۔ ان کے اقتدار سنبھالنے پر جو استقبال ہوا وہ ایک ریکارڈ ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے دشمن پیدا کرتے رہے۔ سیاستدان ان کے حریف تھے اس لیے انھوں نے ایک بڑی تعداد کو سیاست کے میدان سے آؤٹ کر دیا تھا۔ مسلم فیملی لا پر اپوا کی بیگمات اور علمائے کرام میں گھمسان کا رن پڑا۔ ایوب نے ان قوانین کا اجراء کر کے مذہبی طبقے کو ناراض کر دیا تھا۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کا اپنی پرائیویٹ سیکریٹری کو دوسری بیوی بنانا ایک تنازعے کا سبب بنا۔ اس معاملے نے سن 55ء سے ہنگامے کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ کمیشن بنے اور اس کی سفارشات پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ ایوب کے مارشل لا نے کچھ عرصہ جمود پیدا کر دیا۔ کچھ عرصے بعد ایک بار پھر بیگمات اور علما آمنے سامنے آ گئے۔ جنرل نے ایسی قانون سازی کی جس نے طبقہ علما کو ناراض کر دیا۔ طلاق کا نوٹس دینا، دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت اور وراثت کے چند معاملات نے ایوب کو مذہبی طبقے کی حمایت سے محروم کر دیا۔
ایوب کی معاشی اصلاحات نے ملک میں سرمایہ کاری کا تو ماحول پیدا کر دیا لیکن مزدوروں کے حقوق کے لیے بہت کم کام کیا گیا۔ اس کے بعد 65ء کی جنگ اور تاشقند کے معاہدے نے فوجی آمر کے خلاف فضا کو مزید ہموار کیا۔ دس سالہ اقتدار کا جشن ظاہر کرتا ہے کہ فیلڈ مارشل کو عوام کے دکھوں سے آشنائی نہ تھی۔ خوشحالی کے ثمرات اوپر ہی اوپر تھے اور نیچے پہنچنے کا صرف پروپیگنڈہ تھا۔ جب چینی کی قیمت میں چار آنے کا (یعنی ایک روپے کے چوتھے حصے کا) اضافہ ہوا تو عوام کو بہانہ مل گیا۔ سیاست دانوں نے عوام کی تلخی کو احتجاج میں تبدیل کر دیا۔ مضبوط حکمران اب نہ فوجی وردی میں تھا اور نہ اسے عوامی حمایت حاصل رہی تھی۔ بپھرے عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ انھیں یاد آیا کہ صدارتی انتخابات میں ایوب کی فتح دھاندلی کا نتیجہ تھی۔ یوں مہنگائی اور مینڈیٹ چرانے کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے۔ ایک طرف کالجوں و جامعات کے طلبا تھے تو دوسری طرف کارخانوں و ملوں کے مزدور تو تیسری طرف بار کونسلز و ایسوسی ایشنز کے وکلا۔ یوں ان تین طبقوں کی حمایت نے سیاستدانوں کو طاقتور بنا دیا۔ وہ سیاستدان جنھیں ایوب کے ایبڈو اور پروڈا جیسے قوانین نے مفلوج کر دیا تھا، اب وہ اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لیے میدان میں تھے۔ یوں مارچ 69 ء میں الوداعی تقریر نے ایوب دور کا خاتمہ کر دیا۔ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ثابت ہوئے جو عوام کی احتجاجی تحریک کے سبب ایوان سے اپنے خاندان میں چلے گئے لیکن زندان میں جانے سے بچ گئے۔
بھٹو بھی پاکستان کے نہ صرف مضبوط بلکہ مقبول ترین حکمران تھے۔ انھوں نے مزدوروں کا خیال رکھا لیکن اہم اداروں کو قومی تحویل میں لے کر ملکی معیشت کا پہیہ الٹا گھما دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور جنگ کے اخراجات نے ویسے ہی مہنگائی بڑھا دی تھی، رہی سہی کسر غلط معاشی ترجیحات نے پوری کر دی۔ بھٹو حکومت نے کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کو نیشنلائز کر کے تاجر طبقے کو ناراض کر دیا تھا۔ 77 ء کے انتخابات میں دھاندلی پر تحریک نے بھٹو مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ جماعت اسلامی کے میاں طفیل اور صلاح الدین پر زیادتی، ولی خان و بلوچ رہنماؤں کے خلاف ’’حیدر آباد ٹریبونل‘‘ جب کہ اصغر خان کی مسلسل نظر بندی گویا ہر ایک کو ان کے خلاف تلخی نکالنے کا بہانہ مل گیا۔ بھٹو نے کوشش کی کہ ایوب کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی بنا کر اپنے آپ کو مذہبی طبقے سے تنازعے سے بچا گئے تھے۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر اور مینڈیٹ چرا کر وہ ایجی ٹیشن کی زد میں آ گئے۔
قومی اتحاد کا نعرہ کہ قیمتیں 70 ء کی سطح پر لے آئیں گے ظاہر کرتا ہے کہ چھ سات برسوں میں عوام مہنگائی کا بھی شکار رہے ہوں گے۔ تحریک کو ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کا نعرہ دینے کے علاوہ قیمتوں کو سات سال قبل کی سطح پر لانے کے غیر منطقی نعرے نے عوامی حکومت کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔نواز شریف اور ان کی ٹیم کو پاکستان کے ان دو طاقتور حکمرانوں کے علاوہ پرویز مشرف کے خلاف وکلا اور سول سوسائٹی کی تحریک پر بھی غور کرنا چاہیے۔ صدر پاکستان کے عہدے کے لیے نااہل ہونے کے باوجود انھوں نے زبردستی اسی آئینی عہدے پر آنے کی کوشش کی۔ ڈالر کو ایک سطح پر برقرار رکھ کر اور عوام کو بہت زیادہ معاشی مشکلات نہ دینے کے باوجود چیف جسٹس کو برخواست کرنے کے جرم کے علاوہ لال مسجد، بگٹی، بے نظیر کے قتل کے جرائم ان کے کھاتے میں ہیں۔ نواز حکومت نے ابھی اقتدار کا زیادہ وقت نہیں گزارا۔ ان کا مینڈیٹ 5سال کا ہے۔ پچھلی صدی میں پاکستان پر حکومت کرنیوالے سیاستدانوں کو سمجھنا چاہیے کہ صدی بدل چکی ہے۔ ایسا پاکستان میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ تیز رفتار میڈیا اور تیز رفتار نسل شاید زیادہ انتظار نہ کر سکے۔ اپنی غلطیوں پر نظر رکھ کر نواز شریف اسی طرح باؤنس بیک کر سکتے ہیں جس طرح انھوں نے عمران کی مقبولیت کے بعد پنجاب میں توجہ دے کر کیا تھا۔ اہم بات حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ کون سا حکمران کس سبب سے اقتدار سے محروم رہا۔ ہم دیکھیں گے کہ مہنگائی اور مینڈیٹ کا اس میں اہم کردار نظر آئے گا۔
ایوب خان مذہبی معاملات میں مداخلت، طبقہ اشرافیہ کو زیادہ اہمیت دینے، قیمتوں پر قابو نہ پا سکنے اور مینڈیٹ چرانے کے سبب اقتدار سے محروم ہوئے۔ بھٹو تاجر طبقے کو ناراض کرنے، سیاستدانوں سے دشمنیاں مول لینے، مہنگائی پر قابو نہ پا سکنے اور انتخابی دھاندلی کے سبب ہٹا دیے گئے۔ مشرف بھی وکلا کی قوت کا اندازہ نہ کر سکنے اور نااہل ہونے کے باوجود پاکستان کا صدر بنے رہنے کے اصرار پر رخصت ہوئے۔ نواز شریف کو دیکھنا چاہیے کہ ایوب کی طرح ان کی توجہ ایلیٹ کلاس کی طرف زیادہ تو نہیں؟ مہنگائی دینے اور مینڈیٹ لینے کو جس طرح بھٹو پر دھاندلی کا الزام تھا، اسی طرح نواز شریف عوامی حمایت اور ووٹ بینک کے باوجود ایسے ہی الزام کا شکار ہیں۔ اگر انھوں نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں شفافیت کا تاثر قائم نہیں کیا تو وہ عمران کی احتجاجی تحریک کی زد میں آ جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور طبقہ اشرافیہ کی حمایت کا تاثر بوائلنگ پوائنٹ ہے۔ پانچ منٹ پورے ہوئے اب قارئین طے کر سکتے ہیں کہ نواز شریف اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کر سکیں گے یا نہیں؟ اگر وہ مہنگائی پر قابو پا گئے اور مینڈیٹ چرانے کا تاثر دور کر گئے تو 2018ء کا بجٹ ان کا اپنا وزیر خزانہ ہی تیار کرے گا۔ اگر مہنگائی و مینڈیٹ کا کچھ نہ ہوا تو سمجھ لیں کہ برقرار ہیں نواز حکومت کو دو خطرے۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *