Saturday 28 December 2013

’بڑی ٹیم کے خلاف کھیلنے کا فائدہ کام آیا‘

’بڑی ٹیم کے خلاف کھیلنے کا فائدہ کام آیا‘

مصباح الحق نے اس سال ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں 15 نصف سنچریوں کی مدد سے 1373 رنز سکور کر کے دنیا میں سب سے آگے رہے
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اس سال اپنی زیادہ تر کرکٹ جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی۔گو کہ ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی نمبر ایک ٹیم نے اپنے میدانوں پر پاکستانی کرکٹرز کو کسی بھی لمحے سکون کا سانس نہیں لینے دیا اور ان کے اعصاب بری طرح جھنجھوڑ ڈالے لیکن اعتماد بحال ہوتے ہی پاکستانی ٹیم نے نہ صرف جنوبی افریقہ کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ جیتا بلکہ وہ جنوبی افریقی سرزمین پر ون ڈے سیریز جیتنے والی برصغیر کی پہلی ٹیم بھی بن گئی۔
بڑی ٹیم کے خلاف کھیلنے کا یہی وہ فائدہ ہے جو سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز میں پاکستانی کرکٹرز کے کام آیا ہے۔
ڈیل سٹین، ورنن فلینڈر اور مورنی مورکل کی طوفانی گیندیں جھیلنے کے بعد اب مالنگا، لکمل، کولاسیکرا اور میتھیوز کو کھیلنا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ رنگانا ہیرتھ کا نہ ہونا بھی پاکستانی بلے بازوں کے اطمینان میں اضافے کا سبب بنا ہے۔

حفیظ کا مختلف روپ

بلے بازوں کا اعتماد بحال ہونے کی سب سے بڑی مثال محمد حفیظ ہیں جو ڈیل سٹین کے جال میں ایسے پھنسے تھے کہ ٹیسٹ ٹیم کے بعد ون ڈے ٹیم سے بھی باہر ہوتے ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز میں وہ بالکل مختلف روپ میں دکھائی دیے۔
بلے بازوں کا اعتماد بحال ہونے کی سب سے بڑی مثال محمد حفیظ ہیں جو ڈیل سٹین کے جال میں ایسے پھنسے تھے کہ ٹیسٹ ٹیم کے بعد ون ڈے ٹیم سے بھی باہر ہوتے ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز میں وہ بالکل مختلف روپ میں دکھائی دیے۔
احمد شہزاد کی بیٹنگ میں بھی پختگی دکھائی دی ہے البتہ شرجیل خان اور صہیب مقصود کو رہنمائی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ عمراکمل کی صلاحیتیں بیٹنگ آرڈر میں ان کے نمبر اور کچھ ان کے لاابالی پن کی وجہ سے مکمل طور پر سامنے نہیں آسکی ہیں۔
مصباح الحق کی اس سال شاندار کارکردگی نے ان پر بے جا تنقید کرنے والے ناقدین کو بھی اب تھکا دیا ہے۔
عمرگل کی واپسی نے پاکستانی بولنگ کو تقویت پہنچائی ہے ۔سعید اجمل کا کردار پہلے کی طرح موثر رہا ہے ۔
شاہد آفریدی بولنگ میں اگرچہ زیادہ کامیاب نہیں رہے لیکن نچلے نمبر پر ان کی بیٹنگ نے ٹیم کو فائدہ ضرور پہنچایا۔
بلاول بھٹی ٹیم میں نئے آئے ہیں اور انٹرنیشنل کرکٹ کے گُر سیکھنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن سہیل تنویر اپنے ترکش کے سارے تیر آزمانے کے بعد اب حریف بلے بازوں کے لیے کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں رہے ہیں۔
سری لنکن ٹیم نے پہلے دو میچز میں زبردست فائٹنگ سپرٹ دکھائی تھی لیکن اگلے دونوں میچز میں اس نے آسانی سے ہتھیار ڈال دیے۔
مہیلا جے وردھنے جیسے ورلڈ کلاس بلے باز کی غیرموجودگی کا پتہ بیٹنگ لائن کی کارکردگی سے چل رہا ہے۔
سنگاکارا اور تلکارتنے دلشن کا تین ہندسوں تک نہ پہنچنے کا دباؤ اینجیلو میتھیوز نے ہر میچ میں محسوس کیا ہے۔
دنیش چندی مل ٹی ٹوئنٹی کے کپتان ہیں لیکن 13 رنز کی معمولی اوسط اور پھر 65 ون ڈے اننگز میں صرف دو سنچریوں کے سبب ان پر ہونے والی تنقید میں بھی اضافہ ہوگیا تھا جسے وہ آخری میچ میں ناقابل شکست نصف سنچری اور میچ وننگ کارکردگی سے پرے دکھیلنے میں کامیاب ہوئے۔
کوشل پریرا، پریانجن اور پرسنا کا ٹیلنٹ اس سیریز میں ضرور سامنے آیا ہے خاص کر کوشل پریرا کی بیٹنگ میں جے سوریا کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
لستھ مالنگا اب صرف گرج رہے ہیں لگتا ہے برسنے کا وقت گزرگیا۔آخری میچ میں انھوں نے چار وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن مجموعی کارکردگی پر وہ خود بھی مطمئن نہ ہوں گے۔
سری لنکا کی ٹیم ون ڈے سیریز ہارگئی ہے لیکن ٹیسٹ سیریز مہیلا جے وردھنے اور رنگانا ہیرتھ کی موجودگی کے سبب پاکستانی ٹیم کے لیے کسی طور آسان نہیں ہوگی۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *