Friday 27 December 2013

بے نظیر زندگی، بے نظیر شہادت

بے نظیر زندگی، بے نظیر شہادت

سید قائم علی شاہ  جمعرات 26 دسمبر 2013

27 دسمبر کا دن بھی 4 اپریل کی طرح ایک عظیم سانحے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس دن جو کچھ ہوا، اسے بیان کرنے میں آج بھی زبان لڑکھڑاتی ہے۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا دکھ اور ملال رہا کہ میں اپنی پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کی میت کو کندھا نہ دے سکا کیونکہ ہمیں ان کی میت کے قریب ہی جانے نہیں دیا گیا۔ عالم اسلام اور تیسری دنیا کے محبوب ترین قائد کو وارثوں کے بغیر سپرد خاک کردیا گیا۔ اس بات سے زیادہ صدمہ مجھے اس وقت ہوا، جب میں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی میت کو کندھا دیا۔ کاش یہ لمحہ میری زندگی میں کبھی نہ آتا کیونکہ وہ شہید بھٹو کے بعد ہمارا اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کا سہارا تھیں۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا 27 دسمبر 2007 کو برپا ہونے والی قیامت کو ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ حالانکہ ہم سب کو اندازہ تھا کہ اگر شہید بی بی وطن واپس آئیں تو ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ہم تو خدشات کا اظہار کررہے تھے لیکن شہید بی بی کو یقین تھا کہ اگر وہ وطن واپس نہ گئیں تو جمہوریت کا سورج کبھی طلوع نہیں ہوگا اور ملک کے غریب عوام ایک آمر کے ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے، انسانی حقوق کی پامالی اور ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے گی۔ غربت اور بے روزگاری ڈیرے جمالے گی اور اگر وہ واپس ملک آئیں تو پاکستان دشمن اور آمریت نواز قوتیں انھیں راستے سے ہٹانے کے لیے کسی بھی ظلم سے گریز نہیں کریں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی شہادت سے کچھ دن پہلے گڑھی خدا بخش میں شہید بھٹو کے مقبرے کا دروازہ بند کرکے اپنے شہید بابا، شہید بھائیوں اور اپنے خاندان کے دیگر مرحومین کی قبروں کے درمیان اس جگہ پر گھنٹوں بیٹھی رہیں، جہاں انھیں دفن ہونا تھا۔ وہ یقیناً اس لیے وطن لوٹی تھیں کہ ان کے وطن کو ایک عظیم قربانی کی ضرورت تھی۔
بقول فیض ’’ پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو‘‘ کے مصداق وہ اپنے بچوں کا خیال کیے بغیر پاکستان چلی آئیں۔ ہم نے 18 اکتوبر سے پہلے بھی شہید بی بی سے درخواست کی تھی کہ وہ وطن واپس نہ آئیں۔ 18 اکتوبر کو جب کراچی میں عوام کا سمندر امڈ آیا تو آمرانہ قوتوں سے برداشت نہ ہوا اور انھوں نے اسی دن ہی شہید بی بی کی جان لینے کی کوشش کی۔ بم دھماکوں میں محترمہ تو بچ گئیں لیکن 200 سے زائد جمہوریت پسندوں کی لاشیں آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ہمیں اٹھانا پڑیں۔ 18 اکتوبر کے بعد ہم نے شہید بی بی سے ایک بار پھر درخواست کی کہ وہ واپس بیرون ملک چلی جائیں لیکن ان کا ایک ہی جواب تھا کہ ان کا جینا مرنا پاکستان کے عوام کے ساتھ ہے۔ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ہم دلائل پر بات کرنے والے لوگ ہیں، ہمارے بھی نظریات اور جذبات ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ کیسے زندہ رہنا ہے اور کیسے مرنا ہے۔‘‘ یقیناً بہادر اور سچے لوگ ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کیسے جینا ہے اور کیسے مرنا ہے۔ ان کی زندگی بھی بے نظیر تھی اور ان کی شہادت بھی بے نظیر تھی۔
بہادر کون ہوتے ہیں؟ اس بارے میں حال ہی میں ہم سے بچھڑنے والے جنوبی افریقا کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے ہمیں بتایا ہے۔ اپنی سوانح حیات میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’بہادر شخص وہ نہیں ہے جو خوف محسوس نہ کرتا ہو، بلکہ بہادر وہ ہے جو اپنے عظیم آدرشوں سے خوف پر قابو پا لے۔‘‘ شہید بھٹو اور شہید بی بی جیسے بہادر لوگ تاریخ میں بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ دھرتی اور عوام سے عشق اور رومانویت کا جو رشتہ ان کا تھا، وہ تاریخ میں بہت کم لوگوں کا ہوگا۔ یہ رشتہ ان کا اصل آدرش اور طاقت تھا۔ انھوں نے راہ وفا میں اپنا سب کچھ نثار کردیا۔ وہ دونوں جب تک زندہ رہے، استحصالی قوتوں کے خلاف چٹان بن کر کھڑے رہے اور جب ضرورت پڑی تو انھوں نے اپنے آدرشوں کے لیے جان قربان کردی۔
ہمیں اب اس بات کا ادراک ہورہا ہے کہ اگر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اس وقت وطن واپس نہ آتیں یا واپسی کے بعد انتخابی مہم چھوڑ کر دوبارہ جلا وطنی اختیار کرلیتیں تو آج تاریخ کا دھارا کسی دوسری طرف بہہ رہا ہوتا۔ شہید بی بی کی 18 اکتوبر کے بعد کی تقریروں اور انٹرویوز کا اب دوبارہ مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 18 اکتوبر کو ان کی وطن واپسی کا فیصلہ درست تھا۔ انھوں نے اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں دو اہم باتوں کی نشاندہی کی تھی۔ ایک بات تو یہ تھی کہ پاکستان کے کچھ علاقوں پر ریاست کی عملداری ختم ہوچکی تھی اور وہاں پر پاکستان کا پرچم نہیں لہرایا جاسکتا تھا، شدت پسند تیزی سے پیش قدمی کر رہے تھے، اگر پاکستان میں مزید آمریت رہتی تو پاکستان کی بقا کے لیے خطرات اور بڑھ جاتے۔
یہی وجہ تھی کہ محترمہ اپنے ہر جلسے میں یہی کہتی تھیں کہ ’’میں اپنی زندگی کا رسک لے کر آئی ہوں کیونکہ پاکستان خطرے میں ہے۔‘‘ دوسری بات یہ تھی کہ عالمی استحصالی قوتیں ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریے کی بنیاد پر دنیا کو خوف ناک جنگوں میں دھکیل رہی تھیں۔ وہ باور کرانا چاہتی تھیں کہ اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی ٹکراؤ شروع ہوگیا ہے۔ اس نام نہاد تصادم نے پاکستان سمیت اسلامی دنیا کو داخلی عدم استحکام، خلفشار اور خونریزی کی تباہ کن صورت حال سے دوچار کردیا تھا۔ اس لیے شہید بی بی دو مقاصد لے کر وطن واپس آئی تھیں۔ ایک مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت بحال کرکے پاکستان کی سلامتی کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کیا جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ پاکستان، اس خطے اور دنیا کو خوف ناک جنگوں سے بچانے کے لیے عملاً کردار ادا کیا جائے۔ انھوں نے ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنا مفاہمت کا فلسفہ دیا۔
شہید بی بی کے خون نے ہی جمہوریت کی آبیاری کی۔ اس کا کریڈٹ اگر کوئی اور شخص لے کر جمہوریت کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتا رہے اور اپنے آپ کو ہیرو بنانے کی کوشش کرتا رہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تاریخ یہ کریڈٹ صرف شہید بی بی کو دیتی ہے۔ آج اس ملک کے عوام کو جمہوریت کے ثمرات مل رہے ہیں تو وہ محترمہ کی قربانی کا نتیجہ ہے۔ اگر ادارے بحال اور مستحکم ہور رہے ہیں تویہ محترمہ کی قربانی کی وجہ سے ہورہے ہیں، اگر غریب عوام وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے لیے اپنی پسند کے نمایندوں کے انتخاب کا حق استعمال کرر ہے ہیں تو اس کا سبب بھی شہید بی بی کی عظیم قربانی ہے اور اگر ملک کے غریب عوام جمہوریت میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں تو وہ بھی محترمہ کی کاوشوں، قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
ان کی عظیم قربانی کی وجہ سے آج جمہوری قوتیں قومی سلامتی کی پالیسیوں میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوئی ہیں اور پاکستان کی بقا کے خلاف سازشوں کو روکنے کے لیے عوام منظم ہو رہے ہیں۔ ان علاقوں پر دوبارہ پاکستان کا پرچم لہرایا دیا گیا ہے، جہاں پہلے ریاست کی عملداری نہیں تھی۔ محترمہ کی عظیم قربانی اور مدبرانہ سیاست سے صرف جمہوریت بحال نہیں ہوئی بلکہ محترمہ نے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میںجمہوریت اور اداروں کے استحکام کے لیے مفاہمتی پالیسی کا ایک ایسا نظریہ دیا ،جس سے جمہوریت کا تسلسل رہے، اس پر دوبارہ کوئی شب خون نہ مار سکے گا اور پاکستان کے غریب عوام کے حقو ق پر پھر سے کوئی ڈاکہ نہ ڈال سکے۔ محترمہ کی مفاہمتی پالیسی پر عمل کرنے سے نہ صرف جمہوریت کو پنپنے کا موقع ملا ہے بلکہ پیچیدہ اور گمبھیر مسائل کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور دنیاکو بھی ایک نیا راستہ مل گیا ہے۔
شہید بی بی کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ ان کا یہ خواب ضرور پورا ہو گا کہ پاکستان ایک پرامن، روادار اور جمہوری معاشرہ ہو اور دنیا رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ ہو۔ ہم سب پر شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی قربانیوں کا ایک بہت بڑا قرض باقی ہے، جسے چکانے کے لیے ہمیں اس ملک کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا ہوگا، جہاں کوئی غریب نہ ہو، کوئی مجبور نہ ہو۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *