Thursday 26 December 2013

کلاشنکوف کے سائے میں پرورش

کلاشنکوف کے سائے میں پرورش


میخائل کلاشنکوف کی ڈیزائن کردہ خود کار رائفل دنیا میں سب سے زیادہ جانا پہچانا اور وسیع پیمانے پر استعمال کیا جانے والا ہتھیار ہے۔ یہی کلاشنکوف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1989 میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمت کے بعد ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔
کشمیر میں کاشنکوف حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا
بی بی سی مانیٹرنگ کے سہیل اکرم جن کا تعلق کشمیر سے ہے، بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح کلاشنکوف کے سائے میں پلے بڑھے ہیں۔
میخائل کلاشنکوف کی موت کی خبر نے میرے اندر بے چینی پیدا کر دی ہے۔
میں کشمیر میں پلا بڑھا ہوں اور کشمیر میں گزاری پچیس سالہ زندگی میں میں نے کلاشنکوفوں کی بڑی تعداد دیکھی ہے۔
جیسے کشیدگی کا شکار بہت سے علاقوں کے بچے فوج اور گولیوں سے واقف ہوتے ہیں، میں بھی اس رائفل کی کشش کے ساتھ بڑا ہوا اور اتنا ہی اس کا خوف بھی تھا۔
شام ڈھلے کھیل کے دوران آٹھ سے بارہ سال کے میرے ہم عمر لڑکیاں اور لڑکے انہی بندوقوں کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے۔
وہ مزے سے بھری باتیں ہوا کرتی تھیں۔ ہم ان کو طاقتور سمجھتے تھے جن کے پاس بڑی بڑی بندوقیں ہیں۔ ہم سرگوشی میں بات کرتے کہ کہیں والدین ہماری باتیں نہ سن لیں۔اس موضوع پر بات کرنا منع تھا۔
کشمیر کے بہت سے نوجوان لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیرگئے اور فوجی تربیت حاصل کر کے واپس آئے تاکہ بھارتی حکمرانی کے خلاف لڑ سکیں۔
میرے والدین ہمیں بڑا ہوتا دیکھ کر خوفزدہ تھے، بالکل اُسی طرح جیسے ایسے حالات میں والدین کو ہونا چاہیے۔ کشمیر میں کلاشنکوف حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے پاس دوسری اقسام کی بندوقیں بھی ہیں لیکن میرے لیے کلاشنکوف سب سے زیادہ پرکشش ہے۔
یہ سڑکوں پر سب سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ فوج کی ’راشٹریا رائفلز‘ کے اہلکار جو زیادہ تر عسکریت پسندوں کے خلاف خوفناک کارروائیاں کرتے ہیں یہی بندوق استعمال کرتے ہیں۔
ان کی بڑی بڑی مونچھیں ہوتی ہیں اور ان کے سر پر سیاہ رومال بندھا ہوتا ہے اور یہ انھیں مزید ہیبت ناک بناتا ہے۔
ہم کشمیری لہجے میں اسے کلاشنکوف کی جگہ اسے کلاشُنوکوف پکارتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں کشمیر سب سے زیادہ تشدد کا شکار رہا جب تقریباً ہر روز فائرنگ کا تبادلہ ہوتا تھا۔
میں اور میرے دوست شرطیں لگاتے کہ یہ فائر کلاشنکوف کا ہے یا کسی اور ہلکی مشین گن کا۔
کشمیر میں کلاشنکوف عسکریت پسند اور فوجی دونوں ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔

کاشنکوف کے سایےمیں کرکٹ میچ

میں بارہ برس کا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی گلی میں کھیلا جانے والا ایک کرکٹ میچ ختم ہوا تھا۔ بہت سے لڑکے ٹاس پر لڑ رہے تھے کہ اگلے میچ میں کون پہلے بلے بازی کرے گا اور کون بولنگ۔
ہر ٹیم بازی لے جانا چاہتی تھی کہ اچانک ایک نوجوان نے اپنے لمبے کرتے کے نیچے سے کلاشنکوف نکال لی۔
ایک لمحے کے لیے وہاں حیران کن خاموشی چھاگئی اور پھر پورا میچ بنا کسی چیخ و پکار کے کھیلا گیا۔ یہ کسی سوگ کی خاموشی کی طرح تھا۔ حتیٰ کے اگر کوئی چوکا یا چھکا پڑتا تب بھی کوئی تالیاں نہ بجاتا
ان دنوں میں اسلحہ بہت زیادہ تھا، کلاشنکوف ایک روایت بن گئی تھی، یہی محبت تھی اور یہی آئین تھا لیکن انہی دنوں یہ خوفناک رائفل کسی کھلونے کی طرح استعمال کی گئی۔
میں بارہ برس کا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی گلی میں کھیلا جانے والا ایک کرکٹ میچ ختم ہوا تھا۔ بہت سے لڑکے ٹاس پر لڑ رہے تھے کہ اگلے میچ میں کون پہلے بلے بازی کرے گا اور کون بولنگ۔
ہر ٹیم بازی لے جانا چاہتی تھی کہ اچانک ایک نوجوان نے اپنے لمبے کرتے کے نیچے سے کلاشنکوف نکال لی۔
ایک لمحے کے لیے وہاں حیران کن خاموشی چھاگئی اور پھر پورا میچ بنا کسی چیخ و پکار کے کھیلا گیا۔ یہ کسی سوگ کی خاموشی کی طرح تھا۔ حتیٰ کے اگر کوئی چوکا یا چھکا پڑتا تب بھی کوئی تالیاں نہ بجاتا۔
میخائل کلاشنکوف کی تخلیق سے آگہی مجھے بہت جلد ہی مل گئی تھی۔
اس روز مجھے پہلی مرتبہ اس غیر معمولی ہتھیار کی دہشت ناک طاقت کا اداراک ہوا تھا۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *