Saturday 7 December 2013

سائنس مردہ شوہر کے نطفے کے لیے قانونی جنگ

مردہ شوہر کے نطفے کے لیے قانونی جنگ


بتھ کی شادی وارن کی موت سے کچھ مدت قبل ہی ہوئی تھی
برطانیہ میں ایک خاتون نے اپنے آنجہانی شوہر کے نطفے کے تباہ كیے جانے کے خلاف قانونی جنگ شروع کر رکھی ہے۔
28 سالہ بیتھ وارن کو برطانیہ کی ہیومن فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریولوجی اتھارٹی نے کہا ہے کہ ان کے شوہر کے نطفوں یا مادہ تولید کو اپریل 2015 کے بعد محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔
بیتھ کے شوہر کی فروری سنہ 2012 میں دماغ کے سرطان کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی تھی۔
وارن بروئر کے نطفوں کو علاج شروع ہونے سے قبل برف میں محفوظ کر لیا گیا تھا اور انہوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اہلیہ کو ان کے نطفے کے استعمال کی اجازت ہوگی۔
بیتھ اور وارن آٹھ سال سے ساتھ رہ رہے تھے اور انھوں نے وارن کی موت سے چھ ہفتے پہلے ہی شادی کی تھی۔

وقت درکار ہے

"میں جانتی ہوں کہ مستقبل میں اگر میں کسی سے ملوں اور ان کے بچے کی ماں بننا چاہوں تو محفوظ نطفے کا ایسی حالت میں استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہوں"
بتھ وارن
بیتھ کہتی ہیں: ’میں جانتی ہوں کہ ایسے بچے کو جنم دینا جو کبھی اپنے والد سے نہیں مل پائے گا ایک بڑا فیصلہ ہے۔ میں ابھی اس بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتی اور مجھے اس کے لیے مزید وقت چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ میں کبھی اس کے لیے آگے نہ آؤں۔ لیکن میرا دکھ ذرا کم ہو تو میں کوئی فیصلہ کروں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میرے شوہر کی موت سے کچھ ہی ہفتے پہلے ایک کار حادثے میں میرے بھائی کی موت ہوئی تھی اس لیے مجھے ان دو حادثوں سے نمٹنا ہے۔‘
بیتھ کو شروع میں بتایا گیا تھا کہ ان کے شوہر کا آخری رضامندی والا خط اپریل 2013 میں ختم ہو چکا ہے تاہم اس کے بعد منظوری کی مدت میں دو بار اضافہ کیا گيا۔
وارن کے نطفے کو نارتھمپٹن میں ایک فرٹلیٹي مرکز میں رکھا گیا ہے۔
بیتھ وارن کے وکیل جیمز لافرڈ کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 کے قوانین کی وجہ سے ان کی موکل کو انصاف نہیں مل پا رہا ہے۔
بتھ کی اپنے شوہر کے ساتھ ایک تصویر
جیمز لافرڈ کہتے ہیں: ’بیتھ کو ان کے شوہر اور بھائی کی موت کے غم سے نجات پانے کے لیے وقت دیا جانا چاہیے۔ انہیں اس طرح کے اہم فیصلے کے لیے زندگی کے اس موڑ پر مجبور نہ کیا جائے۔‘
وارن کے نطفے کو اپریل 2015 تک استعمال کیا جانا ہے لیکن اگر انہیں پگھلا لیا گیا اور جنین بنانے میں استعمال کیا گیا تو انھیں سات سال اور رکھا جا سکتا ہے۔
اپریل 2015 کی ٹائم لائن کے اطلاق کا مطلب ہے کہ بیتھ ان کے نطفے سے ایک ہی بچے کی ماں بن سکتی ہیں۔
ان نطفوں کو بیرون بھیجنے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں بیتھ وارن کا علاج بیرون ملک میں ہو سکتا ہے لیکن برطانیہ میں نہیں۔
اس معاملے کی سماعت اگلے سال ہائی کورٹ کے محکمۂ خاندان میں ہوگی۔
اپنی درخواست میں بیتھ وارن نے کہا ہے: ’میں جانتی ہوں کہ مستقبل میں اگر میں کسی سے ملوں اور ان کے بچے کی ماں بننا چاہوں تو محفوظ نطفے کا ایسی حالت میں استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہوں۔‘
"ہم بیتھ وارن کے وکلاء سے بات کر رہے ہیں اور ہر بار ہمیں نئی معلومات دی جاتی ہے۔ ہم نے قانونی حیثیت کو جتنا ممکن ہوا ہے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن نطفہ یا بیضے کو محفوظ رکھنے پر قانون صاف ہے اور ان کے شوہر نے جہاں تک منظوری دی ہے اس کے آگے ہم اس مدت کو نہیں بڑھا سکتے"
یچ ایف ایی اے
انہوں نے مزید کہا: ’میں نہیں جانتی کہ مستقبل میں کیا ہو گا اور میں چاہوں گی کہ میں اپنے شوہر کے بچے کی ماں بننے کا اختیار رکھوں۔‘
وہیں اتھارٹی (ایچ ایف ایی اے) کا کہنا ہے کہ انھیں بیتھ وارن سے پوری ہمدردی ہے۔
ایک بیان میں ایچ ایف ایی اے نے کہا ہے: ’ہم بیتھ وارن کے وکلاء سے بات کر رہے ہیں اور ہر بار ہمیں نئی معلومات دی جاتی ہے۔ ہم نے قانونی حیثیت کو جتنا ممکن ہوا ہے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن نطفہ یا بیضے کو محفوظ رکھنے پر قانون صاف ہے اور ان کے شوہر نے جہاں تک منظوری دی ہے اس کے آگے ہم اس مدت کو نہیں بڑھا سکتے۔‘
اس معاملے سے اپنے ساتھی کی موت کے بعد حمل کی اخلاقیات پر ازسر نو بحث شروع ہوگئی ہے۔
سنہ 1997 میں ڈيان بلڈ نے اپنے مردہ شوہر کے نطفہ سے بچہ پیدا کرنے کا حق حاصل کیا تھا۔ تب عدالت نے ایچ ایف ایی اے کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈيان بلڈ کو بیرون ملک علاج کی منظوری ملنی چاہیے۔

No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *