وینا کی شادی لال حویل
وینا کی شادی لال حویلی کے خوابوں کی بربادی
ی کے خوابوں کی بربادی
اسی
اکتوبر کی بات ہے کہ تماشہء ہر دو خاص و عام، ست رنگ وینا ملک نے فرمایا
تھا کہ اسے حلقہء دوشیزگانِ کے بابائے شغل مغل شیخ رشید صاحب کی نفرت سے
نہیں محبت سے ڈر لگتا ہے۔ شیخ صاحب کی ” نفرت ” کا معمہ تو میری فہم سے
ماروا ہے لیکن ہاں شاید ان کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہونے والی معصوم
مٹیاروں نے وینا ملک کو شیخ صاحب کی ” جنونی محبت” سے ضرور ڈرا دیا ہو گا۔
سو بالی وڈ کے نو آموز بچونگڑوں کے اکھاڑے دیکھنے والی بیچاری وینا ملک نے
ایک تجربہ کار پہلوان سے” محبت” کی کشتی لڑنے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال کر راہ
فرار اختیار کرنے میں ہی بھلائی جانی ہو گی۔ ویسے بھی ماں باپ کے شرمیلے
اور چاچو مشرف کے رنگیلے شیخ رشید صاحب اعلانیہ یہ ” جرم محبت ” کر چکے ہیں
کہ جب ہر طرح کی بھینس کا دودھ ویسے ہی پینے کو مل جائے تو پھر گھر میں
بھینس باندھنے کی کیا ضرورت ہے۔ قوم کے کچھ عاقل و بالغ نظر منچلے لوگ شیخ
صاحب کے اس شہرء آفاق بیان کو دلیرانہ اقرار جرم یا کھلے الفاظ میں اقرار
زناکاری بھی قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے ہر دور میں بدلنے والے سیاسی حلیفوں
اور غیر سیاسی احباب کے مطابق ان کے ایسے ذومعنی بیانات سے غلط مطالب
نکالنے والے “شرارتی لوگ” دراصل حاسد، جاہل اور دقیانوسی خیالات رکھنے والے
ہیں۔ اور یہ لوگ خامخواہ شک وک کرتے یا ان کی کردار کشی کی مہم چلا رہے
ہیں۔ سو ان کے دوست ان نقادوں کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ شیخ صاحب، اسلامی
نظریاتی کونسل اور مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہ چکے ہیں۔ سو اگر وہ شارجہ کرکٹ
میلوں کے دوران تھرکتی بجلیوں اور ماڈلنگ ورلڈ کی نامور حسیناؤں کے ساتھ
فرنٹ لائین پر نظر آتے رہے ہیں تو کون سی قیامت آ گئی تھی ؟ چونکہ وہ ہمیشہ
پہلی صف میں ہی کھڑے ہو کرعید کی نماز پڑھتے ہیں، پس ثابت ہوتا ہے کہ وہ
ایک شریف النفس انسان ، پکے مسلمان اور صاحب کردار سیاست دان ہیں۔ اسی کی
دہائی میں شارجہ کرکٹ میلے میں شیخ صاحب کی مقدس شرکتوں کے رنگین نظاروں سے
آنکھیں ٹھار کرنے والے احباب جانتے ہوں گے کہ ان کی حسیں بھینسیں گوالوں
کی دو آنکھوں، دو سینگوں والی کالی، بھوری اور گندی، میلی یا پٹھے کھانے
والی نہیں بلکہ فائیو سٹار کھانے اور ولائیتی بوتلوں کی غذا پر پلنے والی
سپیشل مخلوق خدا ہوتی ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اور نظریاتی پیر بدلنے میں ماہر
شیخ صاحب، جنرل ضیاء الحق سے لیکر جنرل مشرف اور پا جی شجاعت حسین سے لیکر
نواز شریف تک سب ڈکٹیٹروں اور جمہوری حکمرانوں کے بڑے سپیشل بندے رہے ہیں۔
اس لئے ریشم و کمخواب اوڑھے، ولائیتی عینکوں کے پردے میں دو آنکھیں چھپائے،
ان کی چارچشمی اور ہفت ملکی بھینسیں بھی بڑی سپیشل ہوتی ہیں۔ شیخ صاحب بڑے
ملنسار اور یاروں کے پکے یار ہیں، سو بھینسوں کا دودھ بھی نہ پہلے کبھی
اکیلے اکیلے پیتے تھے، نہ اب پیتے ہیں۔ ممبئی و مدراس سے لاہور اوراسلام
آباد تک کی بہترین نسلی بھینسوں کے دودھ کے تبرک ان کے دیسی محلاتی دوستوں
اور بدیسی سفارتکار یاروں تک پہنچتے رہتے ہیں۔ انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے
کہ ہمارے سیاست دان اور اکابرین ریاست اپنے گناہوں پر نادم ہونے کی بجائے
سرعام اقرار جرائم کرتے ہیں۔ بے شک انسان خطا کا پتلا ہے سو غلطی اور گناہ
کا سرزد ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں، لیکن گناہ کرنے کے بعد اس پر
اترانا اور فخریہ انداز میں جتلانا انتہائی قابل مذمت اور باعث ننگ و عار
ہے۔ ایک غلطی ابلیس سے سرزد ہوئی کہ اس نے حکم الہی کی تعمیل سے انکار کیا۔
اور اسی طرح دوسری غلطی حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے بھی ہوئی لیکن
دونوں کی غلطیوں میں نہاں فرق یہ تھا کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے اعتراف
جرم کر لیا اور اپنی غلطی کی معافی کے خواستگار ہوئے تو اللہ نے ان کے لیے
اپنی رحمت اور بخشش کے سب دروازے کھول دئیے جبکہ ابلیس نے انتہائی ہٹ دھرمی
کا ثبوت دیتے ہوئے تکبر و غرور کا مظاہرہ کیا تو اللہ سبحان تعالیٰ نے اسے
دنیا و آخرت میں تاقیامت لعنت کا مستحق بنا دیا۔ بلاشبہ ہمارے مغلظ کردار
اور حالات ایسے ہیں کہ ہم ایک لمحے کیلیے بھی اس دنیا میں رہنے کے مستحق ہی
نہیں، شاید ہم بھی کب کے ہلاک کر دیے گئے ہوتے، لیکن امتِ محمدی ہونے کے
ناطے یہ ہم پر خدا کی خصوصی رحمت ہے کہ ہم آج بھی اس دنیا میں زندہ ہیں اور
اسبابِ عالم سے استفادہ کر رہے ہیں۔
خدا بیڑا غرق کرے اس جھوٹی وینا ملک کا جس
نے بھولے بھالے شیخ صاحب پر یہ الزام لگایا کہ وہ خاندانی عورتوں سے نفرت
کرتے ہیں اور بازارحسن کی عورتوں کے دلدادہ رہے ہیں۔ وینا ملک کو محتاط
رہنا چاہیے تھا کہ مقدس لال حویلی یا قصرِ مشرف کی یارتا کرنے والی لال
پریاں بخشی ہوئی مقدس روحیں ہوتی ہیں۔ لہذا ان پوتر روحوں کا نام بازارِ
حسن سے منسوب کرنا بھی توہینِ اکابرینِ قوم کے ضمرے میں آتا ہے۔ وینا کی
طرح شیخ صاحب کا بھی یہی دعوی ہے کہ وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں سو وینا ملک کے
الزام کے جواب میں انہوں نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عین سچ کہا
تھا کہ وینا ملک اپنی عریانی اور فحش کرداری سے پاکستان کی بدنامی کا باعث
بنی ہے لہذا وہ اس سے بیحد نفرت کرتے ہیں۔ شیخ صاحب نے وینا ملک کی طرف سے
کافی کی آفر کے الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔ دوسری طرف سدا جھوٹ بولنے
والی وینا ملک بھی اپنے سدا سچ بولنے کے دعوے پر قائم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ
” مجھے نہیں لگتا کہ میں جھوٹ بولنے والی لڑکی ہوں، شیخ رشید نے کافی کی
آفر تب کی جب میں ایک مزاحیہ پروگرام میں کام کر رہی تھی، مجھے نہیں معلوم
اب شیخ رشید اپنی آفر سے انکار کیوں کر رہے ہیں “۔ گمان ہے کہ شیخ صاحب کو
اس وقت تک ضرور امید ِ وصل رہی ہو گی جب تک وینا ملک یہی کہتی رہی کہ ” میں
ایسا کچھ نہیں کروں گی جس سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہو، میرا تعلق مسلمان
خاندان سے اور مسلمان ہونے کے ناطے ایک مسلمان لڑکے سے ہی شادی کروں گی “۔
یہ کائناتی فلسفہء عشق ہے کہ محبت میں نا امیدی کفر عشق اورمایوسی گناہ ہے۔
اور وینا ملک کی شادی ہو جانے تک امید تو تھی کہ پمارے خوبرو شیخ صاحب بھی
وہ “مسلمان لڑکے” ہو سکتے تھے۔
نومبر آیا تو وینا کے اس بیان سے شیخ صاحب
کے دل کی دھڑکنیں ضروربڑھ گئی ہوں گی کہ وہ 2015 ہی میں شادی کرلیں گی۔
پھر شیخ صاحب نے شکرانے کے نفل ادا کیے ہوں گے کہ آخرکار، وینا ملک نے گناہ
کی زندگی سے توبہ کر لی اور اپنے سابقہ ہندو بوائے فرینڈ اشمیت پٹیل سے
معاشقے کے سوال پر کہا کہ وہ اس کا ماضی تھا لہذا وہ اب اس حوالے سے کوئی
بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وینا ملک کو کافی کی آفر کی تردید کرتے ہوئے شیخ
صاحب نے کہا کہ وینا ملک پاکستان کی بدنامی کا باعث بنی سو وہ وینا ملک سے
نفرت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں اگر شادی کر
لیتا تو آج بھی نیب کی گرفت میں ہوتا۔ اب اس راز کے بارے شیخ صاحب ہی بہتر
بتا سکتے ہیں کہ ان کی شادی نیب کے مقدمات کے دائرہ اختیار میں کیونکر
آتی۔ ان کا یہ مشکوک بیان ظاہر کرتا ہے کہ شاید وہ شرمیلا فاروقی یا سسی
پلیجو جیسی کسی کرپشن کوئین سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ وہ
آٹھ بار وزارت کا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اتنا سکون
وزارتوں کے دور میں نہیں ملا جتنا آج سکون ہے۔ خوش قسمت انسان ہوں کہ میں
نے خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنے کا شرف حاصل کیا ہے اپنی اوقات کو نہیں
بھولا میں سیاست میں انے سے پہلے کتابیں فروخت کرتا تھا۔ اب میں شیخ صاحب
کو یہ یاد نہیں دلانا چاہتا ہے کہ خانہء خدا کی چھت پر نمازوں کا شرف حاصل
کرنے والے کئی نامور عرب شیوخ یورپی اور بھارتی حسیناؤں کے ازلی عاشق و
دلدادا ہیں۔ میں شیخ صاحب سے یہ پوچھنے کا حق بھی نہیں رکھتا کہ کتابیں
بیچنے والے شیخ صاحب عالیشان حویلی کے مختار کل اور بھینسوں کے ارب پتی
سوداگر کیسے بنے۔ نومبر کے آخر میں وینا ملک نے ایک کینڈین تاجر شیخ عمر
فاروق سے شادی کا اعلان کے ساتھ ہی شیخ صاحب کا دل چکنا چور ہو گیا ہو گا۔
سوشل میڈٰا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تصدیق کرتے ہوئے وینا ملک نے کہا تھا کہ ”
ہاں۔۔۔۔ انشااللہ 2015 میں شادی کرلوں گی“۔ یاد رہے کہ ہر لمحہ گرگٹ کے
رنگ کی طرح چہرہ اور بیان بدلنے والی وینا ملک نے اس سے قبل بھی اپنے ایک
انٹرویو میں کا کہنا تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے میں کسی مسلمان لڑکے سے ہی
شادی کروں گی اوراس کا تعلق دوبئی سے بھی ہوسکتا ہے۔
اور پھر بالآخر محمد آصف اور اشمیت پٹیل
کے ساتھ دھواں دھار معاشقوں اور شیخ عمر فاروق جیسے بیسیوں ارب پتی عاشقوں
سے شادی خانہ آبادی کے وعدوں اور اقرار ہائے محبت پر اربوں روپے کے ” جنسی
معاہدوں” کے بعد اپنے والد کے دوست کے بزنس مین بیٹے اسد بشیر خان خٹک سے
دوبئی کی ایک عدالت میں نکاح کر کے شیخ صاحب کے ارمانوں کا جنازہ نکال کر
لال حویلی کی خلوتوں کے سب خواب چکنا چور کر دیے۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہو
گا کہ اسد بشیر خٹک خوش قسمت ترین شخص ہے یا پھر بدقسمت ٹشو پیپر ثابت
ہوتا ہے۔ لیکن وینا ملک کا کہنا ہے کہ وہ شادی کے بعد خود کو دنیا کی سب سے
خوش قسمت لڑکی تصور کر رہی ہے۔ احباب میرا قیاس ہے کہ پیر آف لندن شریف
الطاف اور فتنہء قادیانیت کے ڈیرے انگلستان کے بعد اب دوبئی بھی کچھ ننگ
ملک و ملت فتنوں کی اگلی پناہ گاہ بننے والا ہے۔ میرے مطابق وینا ملک شیخ
صاحب سے بڑھ کر ذہین و فتین ثابت ہوئی ہے۔ عیار و مکار ملکہء فحاشی نے
بھارتی میڈیا میں اپنے گرتی ہوئی ڈیمانڈ کے بعد بڑی ذہانت سے اپنے مستقبل
کیلئے محفوظ پناہ گاہ بھی ڈھونڈ لی ہے اور اسد بشیر خٹک کے رننگ بزنس پر
ممکنہ قبضے کا نادر موقع بھی حاصل کر لیا ہے۔ نوبیاہتہ جوڑے کا کہنا تھا کہ
وہ بہت جلد عمرے کی ادائیگی کیلئے حجاز مقدس روانہ ہو گا اور دونوں جلد ہی
اپنے دوستوں کو دعوت کیلیے بھی مدعو کریں گے۔ بحرحال میں شیخ صاحب کے اس
دکھ میں برابر کا شریک اور دعا گو ہوں کہ اللہ کریم شیخ صاحب کو یہ ”
ناگہانی صدمہ ” جھیلنے کی ہمت اور وینا ملک کو ہدایت عطا فرمائے۔ گذشتہ
برسوں سے تا حال بھارتی ایجنسیوں کی آلہ کار بن کر پاکستان کی حرمت اور
مذہبی اقدار کا جنازہ نکالنے والی شیطانی گڑیا کے عاشقین و ناقدین انتظار
کریں کہ عمرے کی ادائیگی کے بعد محترمہ کی ممبئی کے مندر کی یاترا کب ہوتی
ہے۔ شیخ صاحب مانیں نہ مانیں لیکن بھارت کے مندر اور پاکستان کی لال حویلی
دونوں وینا ملک صاحبہ کی یاترا کیلئے سدا منتظر رہیں گے۔ مجھ سمیت سب بنیاد
پرست اور جاہل، لال مسجد کے قاتلوں کے مرکزِ عیش و عیاشی لال حویلی سے جڑے
ہر دجالی کردار کی بربادی کے منتظر ہیں کہ لال مسجد کے شہیدوں اور تاریخ
میں زندہ و جاوید جامعہ حفصہ کے در و بام کی آہیں بھی ابھی تک عالم افلاک
سے قہر کے ” احکاماتِ کن ” کی منتظر ہیں
No comments:
Post a Comment