ڈ
ڈھونڈتے مجنوں میں لیلی ہیں جو ہم جنس پرست
ھونڈتے مجنوں میں لیلی ہیں جو ہم جنس پرست
پاکستانی
قبائلی علاقاجات کے غیرت مند لوگوں کی اکثریت کا شمار دین برحق پر مر مٹنے
والےمحب وطن شہریوں اور شریعتِ محمدی کے پابند لوگوں میں ہوتا ہے۔ سو یہ
خبر بڑی غیر معمولی نوعیت کی تھی کہ گزشتہ دنوں خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ
لنگروسہ میں ایک بیالیس سالہ شخص نے امریکی سنت کی پیروی میں سولہ سالہ
لڑکے سے باقاعدہ شادی کر کے پاکستان میں ہم جنس پرستی زندہ باد کا نعرہ لگا
دیا۔ اس افسوس ناک خبر پر لوگ دکھی ہوں نہ ہوں لیکن ایسے مواقع کے انتظار
میں رہنے والی میڈم بی بی سی نے اسلامی تمسخر کی اس خبر کو پورے اعزاز کے
ساتھ شائع کیا۔ بی بی سی کے مطابق ایک افغان پناہ گزین لیاقت علی نے نوجوان
مارکین آفریدی کے والدین کو اس شادی کے لیے چالیس ہزار روپے دے کر یہ شادی
کی۔ دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ اس شادی میں باقاعدہ بینڈ باجے، ہوائی
فائرنگ اوررنگ برنگی محفل موسیقی کا اہتمام بھی کیا گیا اور دولہا نے
باقاعدہ دعوت
ولیمہ بھی دی۔ مقامی لوگوں کے مطابق “رخصتی ” ہونے تک باراتیوں کو شبہ تک
نہ ہوا کہ یہ کوئی رسمی شادی نہیں بلکہ دو مردوں کی غیرفطری شادی ہے۔ اس
شادی کے ایک مہمان ملک ملت خان آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ مہمانوں کو یہ معلوم نہیں تھا
کہ یہ دو مردوں کی شادی ہے۔ اس کے مطابق سب لوگ تو لڑکی کی شادی سمجھ کر
اس میں شریک ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ توایک مرد سے لڑکے کی
شادی تھی۔ بحرحال اس ہم جنس پرست شادی کا راز افشا ہونے پرشادی میں شرکت
کرنے والوں کا کہنا تھا کہ جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا۔ نہ تو یہ اسلامی
طریقہ تھا اور نہ مسلمانی تھا۔ لہذا تمام لوگ انتہائی غصے کے عالم میں ہیں۔
احباب قابل توجہ ہے کہ اس “انوکھے دولہے ” کا تعلق افغانستان سے ہے۔ یاد
رہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی در آمد کے بعد سے امریکی اور مغربی
این جی اوز کے سب ولائتی ابلیس وہاں کے مسلم معاشرے کو واشنگٹن اور لندن کے فری سیکس رنگ میں
رنگنے کیلئے کوشاں ہیں۔ لہذا پراگندا و عریاں مغربی تہذیب کی مادر پدر
آزاد تقلید کا شکار کابل کے ماڈرن علاقوں سے کبھی کبھار ایسی ہم جنس پرست شادیوں
کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ سو ممکن ہے کہ ایک افغانی پناہ گزیں شیطان کے اس
مکروہ فعل کو اوباموی یا حامد کرزئی سرکارکی پشت پناہی حاصل ہو۔ شاید اس
کہانی کا مقصد پاکستان کے قبایلی علاقہ جات میں اک نیا شوشہ چھوڑکر مسلم
رائے عامہ تقسیم کرنا ہو۔ تازہ خبر ہے کہ اس غیرمعمولی شادی کے بعد مقامی
قبائلی عمائدین اور علماء اکرام نے ایک جرگے میں اس مردانہ جوڑے کو یا تو
قتل کرنے یا پھر انہیں علاقہ بدر کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان افراد کے خاندانوں
کو بھی علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ امریکہ اور مغرب کی
کی رکھیل این جی او برادری علما اور جرگے کے اس حکم کو ظالمانہ اور
جابرانہ ودم قرار دیکر ایک نئی بحث کا آغاز کرے مغربی پریس نے واویلا شروع
کر دیا ہے۔ ہم جنس پرست مغربی تہذیب کی علمبردارمیڈم بی سی سی بڑے طنزیہ
انداز میں کہا کہ پاکستانی لوگ اپنے ملک میں ہم جنس پرستی کے وجود سے انکار
کرتے ہیں لیکن مبصرین کے مطابق کسی دوسرے معاشرے کی طرح یہ رحجان یہاں بھی
پایا جاتا ہے. میڈم بی بی سی کے ان کلمات سے اس رپورٹ کے بارے ایسے شکوک و
شبہات جنم لیتے ہیں کہ گویا یہ سامراجی قوتوں کیخلاف برسرپیکار غیرتمند
مسلمان پختونوں کے اسلامی تشخص کو پراگندا کرنے کیلئے مغربی فنکاروں کی طرف
سے گھڑی گئی ملالہ برانڈ فیک سٹوری ہو( واللہ علم بالصواب) ۔
احباب یاد رہے کہ اس مکروہ واقع سے دو
ہفتے قبل پاکستان میں ہم جنس پرستی سے آگاہی اورتشہیرکیلیے بنائی گئی پہلی
باضابطہ ویب سائٹ پر سرکاری طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس “جابرانہ
کاروائی ” پر میڈم بی بی سی سمیت مغربی اور بھارتی میڈیا نے بڑا شور و غل
مچایا تھا۔ بی بی سی کے مطابق صرف چار ماہ قبل شروع کی جانے والی اس ویب
سائٹ کو شروعات میں روزانہ پانچ سو سے ایک ہزار افراد دیکھتے تھے۔ لیکن بعد
ازاں اس ویب سائٹ کے مستقل وزیٹرزکی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔
بی بی سی کے مطابق اس نے اس سلسلے میں پی ٹی اے کے حکام سے بات کرنے کی
کوشش کی لیکن انھوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ سو قیاس کیا جا سکتا ہے
کہ مغربی آقاؤں نے اس حکومتی جبر کیخلاف اپنی دھونس اور طاقت استعمال کرنے
کی پوری کوشش کی لیکن پی ٹی اے انتظامیہ عوامی ردعمل کے خوف کی وجہ سے کچھ
کرنے سے قاصر تھی، سو بی بی سی اینڈ کمپنی کی دال نہیں گلی۔ وگرنہ جو
طاقتیں ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل جاسوس کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر لے جا
سکتی ہیں ان کیلئے ایک ویب سائٹ بحال کروانا کیا ناقابل یقین کارنامہ تھا۔
بحرحال اس قوم لوط برانڈ ویب سائٹ کے روشن خیال خالق نے بی بی سی سے بات
کرتے ہوئے جب این جی او پاورز کے ذریعے آواز اٹھانے کی دھمکی دی تو بات
سمجھ میں آ جانی چاہئے کہ یہ بھی میڈم ملالہ کے آقاؤں اور ملالہ کے نظریاتی
بہن بھائیوں کی طرف سے ایک چھوٹا سا پٹاخہ تھا۔ ویب سائٹ کے خالق کا کہنا
تھا کہ ” وہ معاشرے میں منفی ردعمل کے باعث عدالتوں سے رجوع نہیں کریں گے
لیکن انھوں نے انسانی حقوق اور سماجی نتظیموں کے ذریعے آزادی رائے کے حق کے
لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے” ۔ سو امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں
عریانی و فحاشی کی علمبردار آنٹیاں اور مغرب کی پالی ہوئی بال ٹھاکری این
جی اوز کوئینز اس ظلم و جبر کیخلاف احتجاج کرتی نظر آئیں گی۔ احباب انتہائی
ڈھٹائی اور بے غیرتی کا مقام ہے کہ ویب سائٹ کے خالق کے مطابق ان کی سائٹ
پر کوئی قابل اعتراض مواد نہیں تھا اور ” اسے بند کرنے کا پاکستان ٹیلی
کمیونیکیش اتھارٹی کا فیصلہ غیر آئینی اور آزادی رائے کے حق کے خلاف ہے”۔
یعنی ہم جنس پرستی
کے بارے شائع کردہ فحش مواد اس بدبخت کے مطابق ” قابل اعتراض ” ہی نہیں ہے
بلکہ اس کی تشہیر روک کر آزادیء اظہار کا گلہ گھونٹا گیا ہے۔ بی بی سی کے
نمائیندے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ” زیادہ تر ہم جنس پرست ہی اس
ویب سائٹ کو استعمال کرتے تھے جس میں صحت سے متعلق امور کے بارے میں مفید
مشورے دیے جاتے تھے۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے میں اس طرح کے معاملات کو نفرت
کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے” ۔ سو ان کے مطابق اس ویب سائیٹ میں یہ بتایا جا
رہا تھا کہ ہم جنس پرستوں کو اپنی جنسی صحت کا خیال رکھنے کیلئے کیا کیا
طریق اختیار کرنے چاہئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے میڈیا پر برتھ کنٹرول کیلئے
استعمال ہونے والے مفید ترین ہتھیار کنڈم کیلئے خوبصورت اور بولڈ ماڈلوں کے
ہوش ربا ایڈرٹائزمنٹ انسانیت کی عین خدمت اور ان کیخلاف آواز اٹھانے والے
لوگ عین جاہل، دقیانوس اور تاریک خیال ہیں۔ بی بی سی نے بڑے معنی خیز انداز
میں کہا کہ اس ویب سائٹ کو ” ہمیں سمجھنے کی کوشش کریں ” کے نعرے سے شروع
کیا گیا تھا۔ یعنی میڈم باوری اور مسٹر ٹرپل ایکس مغرب چاہتا ہے کہ ہم
احکامات الہی اور قوم لوط کے انجام ک بھول کر ہم جنس پرستوں کی شہوانی
خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن شاید ایسا ہونا ہمارے اس معاشرے میں
ممکن نہیں جہاں مغرب کے برعکس عورت جوں جوں بوڑھی ہوتی ہے معاشرے میں محترم
اور معزز ہوتی ہے جبکہ وہاں عورت کو جنسی عمل کے ناقابل ہونے پر مدر ہاؤسں
اور کیئر ٹیک ہومز میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گورے ابلیسوں کو معلوم ہونا
چاہیے کہ ہماری ساری قوم برگر برانڈ یا ممی ڈیڈی گروپ نہیں ۔ ہم لوگ جانتے
ہیں کہ مغرب اور امریکی سامراج اپنی غلاظت آلودہ تہذیب کا جو زہر ہماری
نوجوان نسل کی رگوں میں انجیکٹ کرنا چاہتا ہے اس کا انجام صرف اور صرف
تباہی اور بربادی ہے۔ میڈم بی بی سی نے اس خبر کے ساتھ یہ بھی یاد دلایا کہ
کہ حکومت نے گزشتہ ایک سال سے یوٹیوب اور کچھ بلوچ تنظیموں کی ویب سائٹس
پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ سو میڈم باوری اور اس کے سرپرستوں کی نیتِ
ابلیسی از خود عریاں ہو گئی ۔ مغرب کا خواب یہی ہے کہ جنسی بے راہ روی پر
گامزن یہ قوم دینی اور قومی غیرت سے اس قدر دور ہو جائے کہ کوئی پاکستانی
توہین قرآن و رسالت کو جرم نہ گردانے۔ میڈم بی بی سی کو گستاخین قران و
رسالت اور بھارتی اسلحہ بردار بلوچ علیحدگی پسندوں کی ویب سائیٹس بند ہونے
کی بیحد تکلیف ہے۔ امریکہ و مغرب نہیں چاہتا کہ مغربی شاتمین یا اس کے
لاڈلے بھارت کے زیر سایہ پلنے والے بلوچ علیحدگی پسندوں کی آواز کو دبایا
جائے۔ یہ بات تمام محب وطن بلوچ ہی نہیں پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ
مغرب و امریکی سامراج اسلام اور پاکستان کا بدترین دشمن، عریانی و فحاشی کے
فروغ کیلئے کوشاں عناصر اور پاکستان کی سلامتی کے تمام کھلے دشمنوں کا
کھلا سرپرست ہے۔ سو عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں روشن خیال میڈیا اور سب
سیاست دانوں کی ہر دلعزیز بال ٹھاکری محبوبہ عاصمہ جہانگیر، ہندوآتہ کی
لاڈلی مٹیار ماروی سرمد سمیت انسانی حقوق کی سب علمبردار آنٹیاں ہم جنس
پرستی کو بھی انسانیت کی عظیم خدمت قرار دیکردیسی مرغیوں اور ولائیتی انڈوں
کے ہمراہ سڑکوں پر مفت کنڈم تقسیم کرتی نظر آئیں۔ ہو سکتا ہے کہ امریکی
کار خاص میڈم سونامی فوزیہ قصوری
جیسی ہم جنس پرستی کی نظریاتی خادمائیں، اپنے آقاؤں کے اشارے پر، ایک
بار پھر سے فعال ہو جائیں۔ شاید آپ اسے بھی ایک انتہا پسندانہ موقف قرار
دیں لیکن سامراجی و مغربی ناخداؤں کی قید سے دائمی آزادی کیلئے مغرب کے
پروردا صلیبی بغل بچوں کی سیکولر فتنہ گری سے پرامن علمی و نظریاتی ابطال
اب ہر پاکستانی مسلم پرعین فرض ٹھہرا ہے۔ مغربی بادشاہ گر، سیکولر این جی
او مسخرے اور مغربی آلہ کار فتنہء قادیانیت کے گستاخین قرآن و رسالت
یاد رکھیں کہ اگر مغرب گستاخئ قرآن اور توہین رسالت پر خاموش رہنے کو ہی
امن پسندی گردانتا ہے تو ہم میں ایسے امن پسند بننے کے جراثیم موجود ہی
نہیں۔ ہم ایسے روشن خیال ہرگز نہیں بن سکتے جو قوم لوط اور پومپیائی معاشرے
کی پیروی اور مغربی تہذیب کی تقلید میں ہم جنس پرستی اپنا کر قوانین قدرت
پامال کر سکیں۔ اگر اسی بے غیرتی اور بے حیائی کا نام روشن خیالی ہے تو ہاں
ہمیں سو بار تاریک خیال، دقیانوس اور جاہل کہلوانا منظور ہے۔ اسلامی شعائر
و نظریات ہر مغربی گماسشتوں کے گستاخانہ و کافرانہ حملے جاری رہے تو کہیں
ایسا نہ ہو کہ سب امن پسند لوگ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ پائیدار
امن، صاف و شفاف معاشرے کے قیام اور حقیقی قومی انقلاب کیلئے اب اس قوم کو
سلمان تاثیر جیسے بہت سارے “شہیدوں ” کی اشد ضرورت ہے۔ شاید اب نہیں تو
کبھی نہیں۔
No comments:
Post a Comment