لارنس آف عریبیہ ہو کہ ملالہ ہر شکل ہے صد چہرہ
امن کی آشا برانڈ زرخرید میڈیا،
غلام ابن غلام سیاسی بازیگروں اوربال ٹھاکری این جی او مسخرے کرداروں کی
بھرپور فنکاری کے باوجود مغرب و سامراج کا سٹیج کیا گیا ملالائی ڈرامہ
حقارت عالم کا نشانہ بن رہا ہے۔ لیکن ڈھیٹائی کی انتہا ہے کہ امریکی
اندھیروں میں غرق روشن خیال فاشسٹ، فتنہء قادیانیت کے
بچونگڑے وحواری اورتمام اسلام دشمن سیاسی و سماجی عناصرابھی بھی اس ٹھس
غبارے میں ہوا بھرنے میں مصروف ہیں۔ گو کہ اس کھیل کے فلاپ ہونے سے ملالائی
آقاؤں کو وہ مطلوبہ نتائج تو حاصل نہیں ہو سکے
جن کیلئے یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا۔ لیکن ہاں اس فتنہء ملالہ سے مغرب و
سامراج کو اتنی کامیابی ضرور ملی ہے کہ اس نے پہلے سے منقسم قوم کو مزید
تقسیم کر دیا ہے۔ اس “معصوم ملالہ ڈرامے” کے پیچھے مذموم صیہونی عزائم کی
اس پراگندا گیم کو سمجھنے کیلئے ہمیں تاریخ کے اس پراسرار شہرہء آفاق
کردارکے بارے جاننا ہو گا جسے دنیا لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم اسلام دشمن سازش سے جڑے اس تاریخی کردار پر ہالی
وڈ کی متعدد اکیڈمی یافتہ فلم بھی ریلیز ہو چکی ہے۔ احباب تاریخ کے طالب
علم جانتے ہوں گے کہ 1915ء کے آخری عشرے میں جب ترک مجاہدین نے انگریزی
فوجوں کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد مارچ 1916ء کو دریائے دجلہ کے کنارے ترک
کرنل خلیل پاشا نے تاجدار برطانیہ کے دس ہزار فوجیوں کو عبرتناک شکست دی،
تو انگریزوں کو بڑی شدت سے یہ احساس ہوا تھا کہ وہ مسلمانوں کا مقابلہ
میدان جنگ میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لہذا لارڈ کرزن نے ہوگرتھھ کو مخصوص
انگریز چال یعنی ” تقسیم کرو اور حکومت کرو” پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ اس
خاص مشن کیلئے برطانوی فوج کے ایک ایسے مکار جاسوس میجر لارنس کو خصوصی طور
پر خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط عرب علاقوں میں بغاوت پھیلانے کا فریضہ
سونپا گیا جو عربی زبان پر اچھا خاصا عبور رکھتا تھا۔ یہ شخص گذشتہ چند برس
سے عرب علاقوں میں جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ سو اس نے 1911کے
اوائل میں ہی بصرہ کے ایک ہوٹل میں جاسوسی کا مرکز قائم کر کے کچھ دین فروش
اور حسن پرست عرب نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا ۔ صیہونی
پلان کے مطابق ایک امریکن جاسوس یہودی لڑکی بھی اس کی مدد کیلئے اس کے پاس
پہنچا دی گئی تھی۔ اس انتہائی خوبصورت جنسی بلی نے حکمران طبقے سے تعلق
رکھنے والے عرب نوجوانوں کو اپنے حسن کے جال میں پھنسا کر ترکوں کی بیخ کنی
شروع کردی تھی ۔ عرب نوجوانوں کو شراب اور سیکس کے نشے میں مدہوش رکھنے
کیلئے مغرب سے انتہائی خوبصورت فحش سیکس ماڈل اس کے جنسی گینگ میں شامل کی
گئیں۔ کرنل لارنس کو خصوصی ہدایت دی گئی کہ وہ ایسے غدارمسلمان افراد کا
انتخاب کرے جو ضمیر فروش اور مذہب فروش ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی
طور پر بااثر بھی ہوں۔ مکار لارنس آف عریبیہ نے سب سے پہلے بصرہ کی ایک
مسجد میں ہزاروں مسلمانوں کے روبرو صرف دکھاوے کیلئےاسلام قبول کرکے یہ
تاثر دیا کہ وہ عیسائیت سے تائب ہو کرسچے دل سے اسلام قبول کر رہا ہے۔
احباب یہاں یہ تازہ ترین رپورٹ قابل غور ہے کہ ماڈرن مغربی ایجنٹ ملالہ کے
بارے میں ایک آزاد خبر رساں ادارے ڈیلی ڈان نے دعوی کیا ہے کہ مسلمانی کا
لبادہ اوڑھے ملالہ دراصل پولینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک عیسائی لڑکی ہے جسے
ایک سازشی کھیل کیلئے دس برس قبل ہی سوات بھیجا گیا تھا ۔ احباب یاد رہے
کہ ماضی کے مغربی ایجنٹ لارنس عریبیہ کا بھی مکارانہ دعوی تھا کہ وہ ملت
اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ لیکر انہیں ظالم ترکوں کی غلامی سے آزاد کروانے
کیلئے میدان عمل میں نکلا ہے جبکہ آج کی مغربی ایجنٹ ملالہ کا نام نہاد
دعوی بھی اس کرنل لارنس کے دعوے سے ہی ملتا جلتا یہ ہے کہ وہ مسلمان بچیوں
کی تعلیم کے فروغ اور انہیں ظالم طالبان کے ظلم و جبر سے نجات دلانے کیلئے
میدان عمل میں نکلی ہے۔ صد افسوس کہ ملت اسلامیہ کے کچھ لوگ لارنس آف
عریبیہ کو صرف ایک سچا مسلمان ہی نہیں بلکہ اپنا حقیقی نجات دہندہ سمجھتے
رہے لیکن ان کے اقتدار اعلی کے خاتمے کے بعد راز یہ کھلا کہ وہ نام نہاد
مسلمان شخص درحقیقت برطانوی فوج کا ایک عیسائی میجراوریہودیوں کا تربیت
یافتہ جاسوس تھا۔ اس عیار جاسوس کوپہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ کے
زیر نگیں عرب علاقوں میں بغاوت کو منظم کرنے اور ملت اسلامیہ کی وحدت کا
شیرازہ بکھیرنے کی سازش میں کامیانی کے باعث عالمی شہرت بھی ملی اور تمام
بڑے بڑے عالمی اعزاوں سے بھی نوازا گیا۔ اسی بد بخت صیہونی کردار کی مکاری
سے مسلمانوں میں ڈالی گئی پھوٹ اور بغاوت کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد
تمام عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔ اور یوں اسلامی دنیا کی
آٹھہ سو سالہ خلافت کا بھی خاتمہ ہو گیا کہ یہی یہودی آقاؤں کی طرف سے دیا
گیا کرنل لارنس آف عربیہ کا حقیقی مشن تھا۔ سو اس وقت اسلامی دنیا کی
خلافت کے خاتمے کیلئےعربوں میں قوم پرستی کے جذبات کی آگ بھڑکا کر انہیں
اپنے ترک مسلمان بھائیوں سے لڑوانے کے کارنامے سے عالمی شہرت پانے والا
لارنس آف عربیہ اپنی “ماڈرن بہن” ملالہ کی طرح صلیبی طاقتوں کا
ہیرواورعالمی اعزازات کا حقدار ٹھہرا تھا۔ اور آج امریکی سامراج اور ان کے
اتحادی صلیبی ممالک کے ظلم و جبر کیخلاف سرگرم عمل مجاہدین کو بدنام اور
امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کے مذموم مشن میں صلیبی ایجنٹ کا کردار ادا کرنے
والی مغربی ہیروئین “معصوم ملالہ” گوری گود میں بیٹھی عالمی شہرت اور
امریکی و مغربی آقاؤں سے عالمی اعزازات و مراعات حاصل کر رہی ہے۔ اس وقت
بھی مسلمان نوجوان نسل کو جنسی عیاشیوں اورشراب و شباب کی مستی میں ڈبونے
کیلئے عیسائی اوریہودی حسینائیں لارنس آف عریبیہ کی جاسوسی ٹیم کی فعال
کارکن تھیں۔ اور آج بھی این جی اوز کی بال ٹھاکری داسیاں
اور قحبہ خانے چلانے والی دیسی میمیں مغربی بغل بچی ملالہ جی کیلئے موم
بتیاں جلاتیں اور ماڈرن منڈے کڑیاں اکٹھی کر کے فحاشی و عریانی کو فروغ دے
رہی ہیں۔ اس وقت بھی مغرب کی گلوکاراؤں اورعریاں ڈانسروں نے لارنس آف
عریبیہ کی پذیرائی میں رقص و سنگیت کے شو پیش کئے تھے اور آج بھی ملکہء فحاشی میڈونا جیسی
سیکس ماڈلزاپنے نیم عریاں بدن پر معصوم ملالہ جی کے نام کے ڈیزائن بنا کر
ناچتی اور گاتی پھرتی ہے۔ اس وقت لارنس آف عریبیہ کا دجالی پلان کامیاب
کرانے کیلئے تمام دین فروش عرب اور سیکولر ترک مغرب کے بغل بچے بن کر
تماشہء فتن کر رہے تھے تو آج سب قادیانی، گستاخین قرآن و رسالت دہریے،
اسلام دشمن لبرل اور روشن خیال امریکی غلام مسلمان امت مسلمہ کو دین سے دور
کرنے کیلئے دین محمدی اور اسلام دوست عناصر کیخلاف ایک منظم نفرت انگیزمہم
چلائے ہوئے ملالہ کو حقوق نسواں کی علمبردار اورنوعمر بچیوں کی مسیحا بنا
کر پیش کر رہے ہیں۔
احباب انتہائی قابل توجہ ہے کہ سوات میں طالبان کے ہاتھوں پراسرار گولی کھا کر مغرب کی معصوم رکھیل اور چاکلیٹی ہیرو ئن بننے والی ڈرامہ باز ملالہ کے بارے پاکستان کے سب سے بڑے اور معروف اخبار ڈان نے ایک ہوش ربا انکشاف کیا ہے۔ گو کہ انکشافی آرٹیکل طنزیہ ہے لیکن طنز کے اس پردے میں گویا حقائق کی نشاندہی ہے۔ اخبار کے مطابق یہ معصوم ملالہ نہ تو پاکستانی ہے اور نہ ہی مسلمان ہے بلکہ وہ پولینڈ کے ایک عیسائی مشنری خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اسے 2000 میں اس وقت سوات بھیجا گیا تھا جب امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے جا رہا تھا۔ اخبار کی مصدقہ تحقیق کے مطابق ملالہ کا اصلی نام جین ہے اور اس کے عیسائی والدین اس کو سوات کی مقامی فیملی کے حوالے کر کے واپس چلے گئے تھے۔ سوات کی اس مقامی فیملی نے بھی عیسائیت قبول کر لی تھی مگر اس امر کو افشا نہیں کیا گیا تھا ۔ ڈان نے دعوی کیا ہے کہ اس نے پورے پانچ مہینے تک اس بات کی تحقیق کی اور اس کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ ملالہ ایک عیسائی اور پولینڈ سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس کے پاکستانی یعنی جعلی اور سابق یعنی اصلی والدین دونوں ہی سی آئی اے کیلئے کام کرتے ہیں۔
احباب اس ڈرامے کے بارے لکھی گئی ایسی سب
تحقیقات اور روز بروزعیاں ہونے والے حقائق اپنی جگہ بہت سارے سوالات چھوڑ
رہے ہیں کہ گولی دائیں لگی یا بائیں، دماغ کے اندرتک گھس جانے والی گولی کا
آپریشن کیسے ہوا اور پھرایک میجرآپریشن کے بعد ملالہ جی جھٹ پٹ اپنے ٹیڈی
بیئر کے ساتھ آکسفورڈ کی کتاب پکڑے انٹرویو دینے کیسے آ ٹپکیں ۔ اس بارے
بہت سے اہل نظرلکھاری کافی کچھ لکھ چکے ہیں۔ سو عاقل و بالغ لوگ آج پوچھتے
ہیں کہ سارا اسلام دشمن مغرب اور مسلمانوں کا سفاک قاتل امریکہ اپنی لاڈلی
ملالہ کو کبھی گود اور کبھی کندھوں پہ بٹھا کر در بہ در کیوں پھر رہا ہے۔
دین محمدی کا کھلا دشمن یہودی پریس، اسلام اور پاکستان کا بدترین دشمن
قادیانی کلٹ، بال ٹھاکری داسیوں عاصمہ جہانگیر اور ماروی سرمد برانڈ
گستاخین قرآن و رسالت سیکولرز کا طوائف المندری گروہ اپنی اور اپنے یہودی
آقاؤن کی پیاری ملالہ جی کے گیت کیوں گا رہا ہے۔ ان تمام باتوں سے ماورا اب
میں تاریخ کے اسی پراسرار کردار لارنس آف عریبیہ کےسبق آموز اور عبرتناک
باب کی طرف واپس آتا ہوں کہ آپ کو اس نام نہاد مسلمان عیسائی کرنل لارنس آف
عریبیہ کے عبرت ناک انجام سے بھی آگاہ کروں جسے امت مسلمہ کے دین سے
بیزاراور روشن خیال لوگ تاوقتِ شکست آخرمغرب کی اس چاکلیٹی ہیروئین ملالہ
کی طرح کا ہی “اصلی مسلمان” اورعالم انسانیت کا حقیقی نجات دہندہ سمجھتے
رہے۔ لیکن فلک گواہ ہے کہ ایک پراسرار موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی
ہو کر سات دن کومہ کی حالت میں رہنے اورپھر ہوش میں آنے پر سسک سسک کر مرنے
والے اس اسلام دشمن کردار کرنل لارنس کی قبر پر آج بھی ایک کتبہ عالم
اسلام کے معصوم اور حقائق سے لاعلم مسلمانوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ
میں مسلمان نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا بدترین دشمن اور مسلمانوں کا سفاک
قاتل ایک برطانوی عیسائی کرنل ٹی ایس لارنس تھا ۔ اس مکار برطانوی عیسائی
کی قبر کے کتبے پرکندہ کردہ یہ الفاظ امت اسلامیہ کیلیے ایک زوردار طمانچہ
اور ایک سبق آموز تحریر ہیں۔
کرنل ٹی ایس لارنس
فیلو آف سولز کالج آکسفورڈ
پیدائِش ۱۶اگست۱۸۸۸
وفات ۱۹مئی ۱۹۳۵
وہ ساعت آرہی ہے جب مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گےاور جو سنیں گے وہ چیخیں گے
اس کے ساتھ ہی کرنل لارنس کی موت کی
تحقیقات کے بارے برطانوی مصنف ایڈروڈ رابنسن کی کتاب میں لکھے یہ جملے
ملالہ جیسے تمام اسلام دشمن ایجنٹوں کیلئے لمحہء فکریہ اور مقام عبرت
ہیں۔۔۔۔۔ ” تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی۔ ایک عینی شاہد نے بتایا
کہ دو سائیکل سواروں لڑکوں کی ٹکر سے عین قبل ایک سیاہ موٹر کارانتہائی
تیز رفتاری سے کرنل لارنس کی موٹر سائیکل کے قریب سے یا چھو کرگزری جس کے
باعث یہ جان لیوا حادثہ رونما ہوا” ۔۔۔۔۔۔ در حقیقت مغربی بادشاہ گراور
سامراجی ناخدا اپنے ایجنٹوں اور سازشوں کے راز افشا پونے کے بعد خود ہی
انہیں راستے سے ہٹا کر جانب جہنم روانہ کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ملالہ جی اب آپ
خود ہی سوچ لیں کہ مستقبل میں آپ کے ساتھ بھی کیا ہونے والا ہے۔ ہمیں اس
بات سے کوئی سروکار ہی نہیں کہ آپ پاکستانی مسلمان ہیں یا پولینڈ کے کسی
عیسائی خاندان کی بیٹی ، ہم مسلمانوں کیلئے ایک کھلے اسلام دشمن مرتد باراک
حسین اوبامہ جیسے قاتلَ مسلم اور تحریک پاکستان کے مخالف سرحدی گاندھی
باچا خان کو اپنا ہیرو ماننے والی معصوم ملالہ بھی ان اسلام دشمنوں جیسی ہی
ہے۔ خدا جانے کہ ظالم طالبان کی بندوق کی گولی اصلی تھی یا نقلی لیکن یہ
اس فقیر کی اصلی پیشین گوئی ہے کہ آپ کے آئیڈیل اور محبوب اوبامہ جی کی طرف
سے روانہ کیا گیا پراسرار موت کا پروانہ ضرور اصلی ہو گا ۔۔۔۔۔ اب آپ ہی
بتائیں کہ بکرے کی ماں اوہ سوری بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ فیلو آف سولز کالج آکسفورڈ
پیدائِش ۱۶اگست۱۸۸۸
وفات ۱۹مئی ۱۹۳۵
وہ ساعت آرہی ہے جب مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گےاور جو سنیں گے وہ چیخیں گے
No comments:
Post a Comment