ممبئی کا بازارِ حسن اور بھارتی میڈیا کے جنسی جرائم
یہ
ایک الگ موضوع ہے کہ ہندوآتہ کی عینک چڑھائے بھارتی غلام این جی او کٹھ
پتلیوں کو بھارت کے قحبہ خانے، طلبہ و طالبات سے لیکر پیشہ ور دفتری خواتین
تک کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیاں اوراستحصال نظر نہیں آتا۔ ہاں مگر
اپنے ہندوآتہ برانڈ پراپیگنڈے کیلئے صرف مختاراں مائی جیسی خودساختہ مظلوم
خواتین اورعورت پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے والے ” تاریک خیال پاکستانی معاشرہ ”
کے تمام عیوب صاف ہی نہیں ایک کے چار چار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اب
متحرک عالمی میڈیا کی بدولت بھارت کی پوتر کنواری تہذیب کے پراگندہ چہرے
سےبتدریج پردے اٹھتے رہنا معمول بن چکا ہے۔ بھارت کی بے باک صحافت اور
صاحب کردار صحافیوں کی پاکبازی کا پردہ اس وقت چاک ہوا جب گذشتہ دنوں
تحقیقاتی صحافت میں بلند نام رکھنے والے معروف جریدے تہلکہ کے بانی و چیف
ایڈیٹر ترون تیج پال کو جنسی زیادتی کے معاملے درخواستِ ضمانت مسترد ہونے
کے بعد گرفتارکیا گیا۔ بھارت شہر گوا کی پولیس نے ان کے خلاف اپنے ہی ادارے
کی ایک خاتون ساتھی کے ساتھ جنسی زیادتی کی ایف آئی آر درج کی ہے۔ صحافت
کی بیباکی کے بعد حوا کی بیٹی پرتازہ ترین وحشیانہ حملے نے بھارتی اعلی
عدلیہ کے انصاف کا پول بھی کھول دیا ہے۔ اب بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج
اور مغربی بنگال کے اقلیتی کمیشن کے سربراہ جسٹس اے کے گنگولی کا نام
خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدفعلیوں کے الزامات کے حوالے سے
شہہ سرخیوں میں ہے۔ قانون کے کسی منصف اور وہ بھی سپریم کورٹ جیسی اعلی
ترین عدالت کے ایک جج کے خلاف اس گھٹیا نوعیت کا الزام گو کہ پہلی بار
میڈیا پر سامنے آیا ہے۔ لیکن بھارتی پریس اور این جی اوزکے مطابق ایسے
واقعات پہلے بھی ہوتے رہتے ہیں مگر ان قصوں کو طاقتور عدلیہ کے بااثر لوگ
دبوا دیتے ہیں ۔ بت باک صحافی تیج پال پر اپنے جریدے کی ایک نوجوان صحافی
دوشیزہ پر ریپ کی کوشش کا الزام ہے جبکہ قانون کے رکھوالے جسٹس کنگولی پر
قانون کی ایک طالبہ نے دوران انٹرن شپ کورس جنسی طور پر ہراساں کرنے کا
الزام عائد کیا گیا ہے۔ قابل توجہ ہے کہ پاکستان میں کسی خاتون یا بچی
کیخلاف مذموم جنسی زیادتی پر پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کے خلاف
زہرآلودہ شور و واویلا مچانے والی گستاخ رسالت عاصمہ جہانگیر جیسی انسانی حقوق کی علمبردار کو مونہہ پر تالے لگے ہیں۔ صدقے جائیں اس بھارتی امن کی آشا کے مرید خاص پاکستان میڈیا
کے جو ان بال ٹھاکری این جی او ملکانیوں کو ہر ٹاک شو میں بٹھا کر نظریہء
پاکستان اور اسلامی تہذیب و تمدن کا مذاق اور تمسخر اڑاواتا ہے۔ قابل صد
لعنت ہے کہ یہ این جی او کوئینز بم دھماکوں کے مجرم بھارتی دہشت گرد
سربھجیت سنگھ کو معصوم اور شہید قرار دیتے ہوئے ذرا نہیں شرماتیں مگر
بھارتی جیل میں شہید کر دیے جانے والے پاکستانی قیدیوں کے قتل پر انہیں
سانپ سونگ جاتا ہے۔ افسوس کہ ہمارا میڈیا ایشوریا رائے کے سسرال سے الگ
ہونے اور سلمان خان و کترینہ کیف کے معاشقے کی ” اہم ترین خبروں ” کو ہر دس
منٹ بعد نشر کرنا سچی اور بیباک حافت سمجھتا ہے ۔ پاکستان میڈیا کے نزدیک
سال کے تین سو پینسٹھ دن ملالہ ڈرامے کی گولی سے لیکر عالمی و مغربی
ایوارڈز و انعامات کی مسلسل کوریج انسانیت کی بھلائی اور ڈرون حملوں میں
مرنے والے معصوم بچوں کی بے گور و کفن لاشوں کے ” پرتشدد مناظر ” اور خبروں
کا بائیکاٹ ، امن کے قیام اور ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ہے ۔ مگر
اپنے محبوب بھارت میں خواتین کی تذلیل اور انسانیت سوز مظالم کے حوالے سے
تمام خبروں پر لب سلے ہوئے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کے نواحی شہر
نوئیڈا کی ایک عدالت نے ساڑھے پانچ سال پرانے مقدمہء قتل میں ڈاکٹر راجیش
اور ڈاکٹر نوپور تلوارکو اپنی چودہ سالہ اکلوتی بیٹی آروشی اور گھریلو خادم
ہیمراج کے قتل کا مجرم قرار دیا ہے۔ عین قیاس ہے کہ ماں باپ نے اپنی چودہ
سالہ بیٹی کو پنتالیس سالہ گھریلو ملازم کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھ
کر قتل کر دیا تھا۔ لیکن تعجب ہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے
خلاف مکروہ آواز اٹھانے والی بھارتی غلام این جی اوز اس پر بھی خاموشی
اختیار کیے ہوئے ہیں۔ غیرت کے نام پر اس قتل پر خاموش سیکولر ہستیاں شاید
پاکستانی معاشرے سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ یہاں کے ماں باپ اور بھائی بھی
مادر پدر آزاد مغرب کی تقلید میں روشن خیال ہو کر اتنے بے غیرت ہو جائیں کہ
وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے بوائے فرینڈ رکھنے یا غیر قانونی جنسی تعلقات
کو مغرب معاشرے کی طرح حقوق نسواں اور ناقابل اعتراض معمول زندگی سمجھیں۔۔
لیکن روشن خیالوں کی آئیڈیل مغربی تہذیب کی مثل ایسے مادر پدر آزاد و
پراگندا معاشرے کا قیام کم از کم پاکستان میں ممکن نہیں۔
احباب تاریخ اور حقائق بتاتے ہیں کہ
انسانی حقوق اور اعلی و روش تہذیب کے دعویدار عیاش گورے جہاں بھی گئے اپنی
پاکیزہ فحاشی و عریانی کی غلاظت آلودہ تہذیب کے زہر آلودہ جراثیم بھی
پھیلاتے رہے ۔ ایک طویل عرصے تک گوروں کی نو آبادی رہنے والے برصغیر پاک و
ہند میں روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کی طرف مائل نوجوان نسل بھارتی ہو،
بنگلہ دیشی ہو یا پاکستانی، نئی نسل جنسی بے واہ روی اور مغربی تہذیب کی
دلدادہ بن رہی ہے۔ مشرق کا معاشرہ مغرب کی تقلید کے نشے میں دھت انسان سے
شیطان بننے کی طرف گامزن ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ برطانوی گورے ہوں
یا غلاظت آلودہ سامراجی فتنہ گر، یہ ابلیسان دہرجہاں بھی قابض رہے وہاں
اپنی پراگندہ تہذیب اور زرخرید غداروں کے بیج بوتے رہے۔ بعد ازاں جہاں سے
بھی نکلے وہاں ابھی تک ان بیجوں سے نمود پانے والے بدکار و غداراشجارکی
آبیاری بھی پوری ذمہ داری اور عیاری سے کر رہے ہیں۔ انیسویں صدی میں برصغیر
پر قابض گوروں نے پورے بھارت میں اپنے فوجیوں کے “سکھ چین” کیلیے جگہ جگہ
قحبہ خانے قائم کیے تھے۔ جہاں گاؤں کے مجبورغریب گھرانوں کی کمسن لڑکیوں کو
جسم فروشی کے لیے لایا جاتا تھا۔ ان لڑکیوں کو براہ راست ان کی قیمت طے
کرنے والی برطانوی فوج سے اچھا خاصہ معاوضہ ملتا تھا۔ جنگ ازادی کے بعد
1864 تک ممبئی کے ارد گرد کم از کم ایسی آٹھ بستیاں قائم ہو چکی تھیں جہاں
پانچ سو سے زیادہ سیکس ورکرزگوروں کو جنسی خدمات فراہم کرنے کیلئے موجود
تھیں۔ تقسیم ہند کے وقت ان میں سے جو دو بستیاں باقی رہ گئيں، ان میں ان
ہیروں سے آراستہ بارونق بستی كماٹھی پورہ آج بھی جسم فروشی کا سب سے بڑا
اڈا ہے۔ قارئین میں نے یہ مضمون اپنے ذاتی گمان یا قیاس پر نہیں بلکہ بی بی
سی پر شائع ہونے والی برطانوی فوٹو جرنلسٹ ہیزل تھامسن کی مصدقہ رپورٹ کی
مدد سے لکھا ہے۔ ہیزل تھامسن گذشتہ ایک دہائی سے بھارت میں جسم فروشی کے
بازار میں لائی جانے والی لڑکیوں کی زندگی پر تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ لکھتی
ہیں کہ ممبئی میں واقع قحبہ خانہ کی ایک لڑکی گڈّي کی عمر اس وقت صرف گیارہ
سال تھی جب اس کے ایک پڑوسی نے اس کے گھر والوں کو اسے ممبئی بھیجنے کیلیے
آمادہ کر لیا تھا۔ گڈی کا گھر ممبئی سے سینکڑوں میل دور مغربی بنگال کے
ایک افلاس زدہ گاؤں میں تھا۔ اسے اچھی تنخواہ والی گھریلو ملازمت دلانے کا
وعدہ کیا گیا تھا لیکن مجرمانہ طور پر اسے ایشیا کے سب سے بڑے جسم فروشی کے
بازار میں فروخت کر کے ایک سیکس ورکر بنا دیا گیا۔ افسوس کہ جنسی تعلق سے
انکار پراسے ایک امیر گاہک کی طرف سے زبردستی ریپ کے بعد تین ماہ تک ہسپتال
میں رہنا پڑا تھا ۔ دل دہلا دینے والی یہ داستان اکیلی گڈّي کی نہیں ہے
بلکہ كماٹھی پورہ کی بیس ہزار سے زیادہ سیکس ورکروں میں سے بہت سی خواتین
کی کہانی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ گڈی کے بارے تھامسن کہتی ہیں کہ اس کمسن
لڑکی کا حوصلہ توڑنے اور جنسی نشہ لگانے کیلیے اس کا ریپ کیا گیا تھا۔
تھامسن کا كماٹھی پورہ کا سفر سنہ 2002 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ قحبہ
خانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کی تصاویر لینے گئی تھیں۔ اپنے تجربے پر
مبنی ای بک ” ٹیکن ” میں ان کا کہنا ہے کہ ممبئی کے علاقے كماٹھی پورہ میں
پچھلے ایک سو بیس سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا، یوں محسوس ہوتا ہے گویا وقت
ٹھہر گیا ہے۔ ایشیا کی نیے معاشی طاقت ہونے کا دعویدار بھارت، مسلم کش
ہندوآتہ بال ٹھاکرے مافیہ کے گڑھ اور فری سیکس کلچر کی علامت کو جدید ترین
شہر کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جس ممبئی میں اربوں ڈالرز کا بزنس کرنے والی
فلمی دنیا بالی وڈ کی ست رنگی تہذیب کا چرچا پوری دنیا میں کیا جا رہا ہے۔
اسی ممبئی کی چودہ تنگ و تاریک گلیوں میں یہ سب سے بڑا اور قدیم ترین جسم
فروشی کا بازار، شہر کی اقتصادی ترقی کی چکاچوند رنگین روشنیوں اور فلک بوس
عمارتوں میں آج بھی قائم و آباد ہے۔ ہیزل تھامسن کا کہنا ہے کہ وہاں آج تک
جسم فروشی کی وہی روایت جاری ہے جو گوروں کے دور میں تھی ۔ آج کل یہاں
عورتیں سیکس کیلیے پانچ روپے لیتی ہیں اور بارہ سے سولہ سال کے درمیان کی
لڑکیاں دو ہزار روپے تک کما لیتی ہیں۔ کنواری لڑکیوں کے لیے اونچی بولی
لگتی ہے۔ برطانوی دورمیں میں ان سیکس ورکرز کو پر تشدد گاہکوں سے بچانے
کیلیے پولیس نے ان عورتوں کیلیے کھڑکیاں بنوا کر دروازوں پر سلاخیں لگوائی
تھیں۔ آج بھی سیکس ورکر خواتین برطانوی افسروں کے بنائے گئے ان حفاظتی ”
پنجروں” میں پیشہ رانہ دھندہ کرتی ہیں۔ ہیزل تھامس کو كماٹھي پورہ کی اس
پراسرار دنیا میں جانے کا موقع تب ملا ، جب وہ ’بامبے ٹین چیلنج‘ نامی
چیریٹی ادارے میں پہنچیں۔ ان کے مطابق اس ادارے کو كماٹھی پورہ کے سابق
سیکس ورکرز اور دلال چلاتے ہیں اور وہ گذشتہ بیس برسوں سے كماٹھی پورہ سے
سیکس ورکروں کو نکالنے اور ان کی آبادکاری کی خدمات میں لگے ہوئے ہیں۔ ہیزل
اس علاقے میں ایک امدادی کارکن کے بھیس میں گئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ
پہلے پہل چھپ کر تصویر لیتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں وہاں جاتی اور
اپنا کام جلدی سے ختم کرکے نکل جاتی۔ میں ایسا ان کی توجہ سے بچنے کیلیے
کرتی تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ گیارہ سال تک میرا وہاں آنا جانا رہا۔ اس دوران
مجھے ایسی ایک بھی عورت نہیں ملی جس نے اپنی مرضی سے یہ کام کیا ہو۔ یہ
عورتیں یا تو یہیں پیدا ہونے والی تھیں یا اسمگلنگ کے ذریعہ لائی گئی تھیں۔
انہوں نے اکشاف کیا کہ وہ جب بھی وہاں جاتیں انھیں ایک خطرہ محسوس ہوتا
اور جس بات کا خوف تھا وہ واقعہ 2010 میں ایک سیکس ورکر سے بات کرتے ہوئے
پیش آیا جب غنڈوں کے ایک گروہ نے انہیں بری طرح زدوکوب کیا ۔ انہوں نے مزید
بتایا کہ كماٹھی پورہ میں سچ جاننے کے اپنے اس سفر کے دوران میں نے کئی
بار پیچھے لوٹ جانے کی کوشش کی۔ مس تھامسن کی ای بک ’ٹیکن‘ میں متن، تصاویر
اور ویڈیو کے ذریعہ كماٹھی پورہ کی زندگی کی ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش
کی گئی ہے ۔ اس میں ان عورتوں کی داستان بھی درج ہے جو اس ’جدید غلامی‘ سے
نجات حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ مثال کے طور کرناٹک کے جنوبی علاقے سے آنے
والی سولہ سالہ لڑکی لتا کی داستان لکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔ لتا کو اس کے
دوست نے ہی نشہ آور دوا دے کر اس دلدل میں پھینک دیا تھا۔ برسوں بعد ”
ممبئی ٹین چیلنج ” تنظیم نے انہیں وہاں سے نکالا اور ان کے اہل خانہ سے
انھیں ملایا۔ اب وہ تنظیم کی طرف سے چلائے جانے والے ایک مرکز میں رہتی
ہیں۔ تھامسن کہتی ہیں کہ گیارہ سال تک میرا وہاں آنا جانا رہا۔ اس دوران
مجھے ایسی ایک عورت نہیں ملی جس نے اپنی مرضی سے یہ کام کیا ہو۔ یہ عورتیں
یا تو یہیں پیدا ہونے والی تھیں یا اسمگلنگ کے ذریعہ لائی گئی تھیں۔ قابل
حیرت ہے کہ ممبئی میں قحبہ خانوں کی اس بستی کی تفصیلی رپورٹ لکھنے والی
گوری صحافی ہیزل تھامسن نے اس رپورٹ میں پاکستانی غدار و فاحشہ وینا ملک کا
کہیں ذکر نہیں کیا۔ یاد رہے کہ ملک و ملت کیلئے شرمندگی اور بدنامی کا
باعث بننے والی وینا ملک آج کل کماٹھی پورہ کے بازاروں میں کنڈم کی تشہیر
کر کے نوجوان نسل کو محفوظ سیکس کی ترغیب دیتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے
قابل صد افسوس حقیقیت ہے کہ پاکستانی حکومت اتنی بے بس ہے کہ وہ اپنی اس
شہری خاتون کا پاسپورٹ منسوخ کرکے اسے بھارت سے واپس بلانے سے بھی قاصر ہے
جو قوم و ملت کے ساتھ ساتھ پاکستانی دفاعی و حساس اداروں کی تذلیل و تطہیر
میں براہ راست ملوث ہے۔
قابل غور ہے کہ بی بی سی ہو یا وائس آف
امریکہ، یہ فتنہ گر اپنے زیرسایہ بھارت اور بنگلہ دیش میں قائم قحبہ خانوں،
مساج گھروں اور شراب خانوں کے بارے تحقیقاتی رپورٹس شائع کرتے ہیں۔ میڈم
ملالہ اور مختاراں مائی کے خود ساختہ ڈراموں کی پروڈکشن اور تشہیر پر
اربوں ڈالرز خرچ کیے جاتے ہیں۔ لیکن معصوم سنبل پر ہوئے وحشیانہ ظلم اور
اس سانحہ کے وحشی کرداروں یا انہیں تحفظ دینے والے مافیوں کے بارے نہ تو
غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوتی ہیں اور نہ ہی تفصیلی رپورٹس شائع ہوتی ہیں۔
ہیزل تھامسن جیسی گوریاں ممبئی کے کماٹھی پورہ کے قحبہ خانوں کی تحقیقات
کیلئے دس برس گذار دیتی ہیں لیکن اسلام آباد میں پرویز مشرف اینڈ کمپنی کے
زیر سایہ قائم ان مساج سینٹروں اور مغربی آلہ کار این جی او مٹیاروں کے
زیرانتظام چلنے والے ان ماڈرن قحبہ خانوں کے حقائق پر ایک لفظ تک لکھنے کو
تیار نہیں جن کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے لوگ فاسفورس بموں سے
زندہ بلا دیے گیے۔ کسی مغربی یا مشرقی صحافی نے پاکستان کے دارالحکومت میں
قائم ان قحبہ خانوں اور دیسی ولائتی سیکس ورکروں پر تحقیق کرنا گوارا نہیں
کی جو سانحہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کی اصل وجہ بنے اور آج تک فعال ہیں۔
ہیزل تھامسن جیسے مغربی ہی نہیں پاکستانی صحافی بھی جانتے ہیں کہ کراچی
سے اسلام آباد تک کتنے ” کماٹھی پورہ” آباد ہیں اور ان میں خدمات انجام
دینے والی سیکس ورکرز کو کون لوگ ، کہاں سے اور کیسے لاتے ہیں۔ دیسی اور
بدیسی صحافتی حلقے خوب واقف ہیں کہ پاکستان میں بھی ممبئی کی مظلوم گڈی
جیسی کئی معصوم و کمسن بچیاں ہوں گی جو غربت و افلاس یا دیگر معاشرتی و
معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ کر گناہوں کی دلدل میں ڈوب چکی ہیں یا ڈوب رہی
ہیں۔ وقت کا پہیہ چلتا رہے گا، کمسن و معصوم گڈیاں اور سنبلیں سسکتی رہیں
گی، انسانیت دم توڑتی رہے گی ۔ مگرمیڈم میڈونا کے عریاں بدن پر میڈم ملالہ
کا ٹٹو، بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز میں گھومتی این جی او کوئینز کے اشنان
کردہ پوترجسموں پر زرق برق لباس اور اصلی ہیروں کے ہار نقلی دیش بھگتوں کے
حقائق اور منافقین کی سچائی بیان کرتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment