Wednesday, 8 January 2014

عظیم آتش فشاں کے پھٹنے کا راز افشا

عظیم آتش فشاں کے پھٹنے کا راز افشا


اگر ییلوسٹون آتش فشاں پھٹتا ہے تو اس کے زمین پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے
آتش فشاں کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ییلو سٹون جیسے عظیم آتش فشاں کو پھٹنے کے لیے کسی زلزلے یا خارجی تحرک کی ضرورت نہیں۔
جنوب مشرقی فرانس کے شہر گرینوبل میں یوروپیئن سنکروٹرون ریڈی ایشن فیسیلیٹی (ای ایس آر ایف) میں کیے گئے تجربے کے مطابق زیر زمین موجود لاوا مقدار اور اس کا حجم ہی قیامت خیز آتش فشاں کے پھٹنے کے لیے کافی ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں ای ٹی ایچ زوریچ کے سائنس دانوں کی ٹیم کی یہ تحقیق نیچر جیوسائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
اس کے رہنما مصنف وم مالفائٹ نے کہا: ’ہمیں معلوم ہے کہ گھڑی کی سوئی چل رہی ہے، لیکن اس کی رفتار سے ہم لا علم ہیں کہ عظیم آتش فشاں کے پھٹنے میں کتنا وقت ہے۔‘
’اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ اس کے لیے کسی خارجی عنصر کی ضرورت نہیں۔ عظیم آتش فشاں اپنے عظیم سائز کی وجہ سے بھی پھٹ سکتا ہے۔
’ایک بار وہاں لاوا اور گرم سیال مادہ زیادہ مقدار میں جمع ہو گیا تو وہ پھٹ سکتا ہے۔‘
ابھی تک کی معلومات کے مطابق دنیا میں زیر زمین 20 عظیم آتش فشاں ہیں جن میں انڈونیشیا کی لیک توبا، نیوزی لینڈ کی لیک ٹوپو اور اٹلی میں نیپلز کے پاس بعض چھوٹے علاقے شامل ہیں۔


"اگر ییلوسٹون کا آتش فشاں پھٹنے کے قریب ہوگا تو اچھی خبر یہ ہے کہ ہمیں اس کا پہلے پتہ چل جائے گا۔ کیونکہ وہاں کی زمین تقریبا سو میٹر اونچی ہو جائے گی۔"
ڈاکٹر مالفائٹ
عظیم آتش فشاں کے پھٹنے کا عمل شاذونادر کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ عام طور پر ایک لاکھ سال میں یہ ایک بار پھٹتا ہے لیکن جب یہ پھٹ جائے تو اس کے زمین کے موسم اور ماحولیات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
چھ لاکھ سال قبل وایومنگ کا عظیم آتش فشاں پھٹا تھا جہاں آج امریکہ کا ییلوسٹون نیشنل پارک ہے۔ اس سے ایک ہزار مکعب کلو میٹر راکھ اور لاوا فضا میں پھیل گیا تھا۔ یہ مادہ اتنی مقدار میں نکلا تھا جو ایک شہر کو کئی کلو میٹر زیر زمین دفن کرنے کے لیے کافی تھا۔
وایومنگ کا آتش فشاں سنہ 1992 میں فلپائن میں ماؤنٹ پناٹوبو میں پھٹنے والے عظیم آتش فشاں سے سو گنا زیادہ بڑا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے سامنے سنہ 1883 کاکراکاٹوا کا تاریخی آتش فشاں بھی ماند تھا۔
ڈاکٹر مالفائٹ نے کہا کہ ’یہ اسی قسم کا کچھ ہے جس سے ہمیں بالآخر نبرد آزما ہونا ہے کیونکہ یہ مستقبل میں پھٹنے والا ہے۔
’آپ اس کا موازنہ ایسٹروئڈ یا شہابیے کے زمین سے ٹکرانے کے اثرات سے کر سکتے ہیں لیکن اس کے اثرات نسبتاً کم ہوں گے جب کہ اگر عظیم آتش فشاں پھٹتا ہے تو اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔‘
مالفائٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسا ہی جیسے آپ کسی فٹ بال کو پانی میں پکڑ کر رکھیں اور جب وہ چھوٹے گا تو کس رفتار سے باہر آئے گا۔‘
اس کی جانچ کے لیے گرینوبل میں سائنس دانوں نے ایک تجربہ کیا جسے انھوں نے ’ہائی بیم لائن پریشر‘ کا نام دیا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آتش فشاں پھٹنے سے قبل وہاں کی زمین میں خاطر خواہ ابھار نظر آئے گا
انھوں نے ہیرے کے ایک کیپسول میں مصنوعی لاوا بھر دیا اور پھر ایکس رے کے ذریعے اس میں زبردست توانائی پہنچائی تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ اس میں دباؤ نازک ترین حد تک پیدا ہو گيا ہے یا نہیں۔
ای ایس آر ایف کے سائنس داں محمد میزور نے بی بی سی کو بتایا: ’جب ہم ٹھوس سے سیال میں تبدیل ہوتے لاوے کے حجم کو ناپتے ہیں تو اس کے ساتھ ہم از خود پھٹ پڑنے کے عمل کے لیے ضروری دباؤ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔
’زمین کے اندر اس طرح کی صورت حال پیدا کرنا کوئی معمولی بات نہیں لیکن ہم اچھے پیمانے کے ساتھ لاوا کی سطح کو 1700 سنٹی گریڈ سے 36000 سینٹی گریڈ کے درمیان رکھ سکتے ہیں۔‘
تاہم ای ٹی ایچ زورچ کے کارمن سانچیز ویلے کا کہنا ہے کہ ’اگر آتش فشاں کا لاوا یا گرم سیال زمین کی دراڑ سے زمین کی سطح پر آ جائے تو وہ شدید طور پر پھیل پڑے گا اور اس سے عظیم دھماکہ ہوگا۔‘
اس کے باوجود ڈاکٹر مالفائٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ییلوسٹون کا آتش فشاں پھٹنے کے قریب ہوگا تو اچھی خبر یہ ہے کہ ہمیں اس کا پہلے پتہ چل جائے گا، کیونکہ وہاں کی زمین تقریبا سو میٹر اونچی ہو جائے گی اور پہلے کی بہ نسبت زیادہ اوپر ابھر آئے گی۔‘


No comments:

Post a Comment

LEAVE YOUR REPPLY

Name

Email *

Message *