امریکی اورگورے بدیسیوں کی کالی کرتوتیں ۔۔ ناقابل اشاعت
احباب
یہ جاننے کیلئے کہ عادت خصلت اور جبلت میں فرق کیا ہے، بلی، کبوتر، چوہے
اور کتے کا ایک ایک دن کا نومولود بچہ الگ الگ پنجروں میں ایک ایسے بند
کمرے میں رکھ کر پالیں جہاں کھانے پپیے کی ہر نعمت اور سہولت موجود ہو۔
انہیں ان کے پنجروں میں ہی کھانے پینے کی سب اشیا اور مکمل نگہداشت فراہم
کریں۔ جب یہ جانور اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں ان سب کو ایک ساتھ
پنجروں سے آزاد کر دیں۔ قابل دید تماشہ یہ ہو گا کہ بلی کمرے میں موجود
کھانے پینے کی تمام نعمتوں کو چھوڑ کر صرف چوہے کی طرف دوڑے گی، کبوتر بلی
کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لے گا اور کتا دیکھ کر بھونکنے لگے گا۔ یاد
رہے کہ اس بلی، چوہے، کبوتر یا کتے نے نہ تو اپنے ماں باپ کو ایسا کرتے
دیکھ کر ان سے تربیت لی اور نہ ہی کسی اور نے انہیں ایسا کرنا سکھایا۔ تو
سوال اٹھتا ہے کہ شیر کی خالہ نے کھانے پینے کیلئےدستیاب تمام اشیا چھوڑ کر
شکار کیلئے صرف چوہے کا ہی انتخاب کیوں کیا اور چوہے نے بلی کو دیکھ کر
دوڑ کیوں لگائی؟ کبوتر نے بلی سے بچنے کیلئے اڑ کر کمرے میں موجود الماری
پر جا بیٹھنے کی کوشش کی بجائے اپنی آنکھیں بند کر کے یہ کیوں سمجھ لیا کہ
گویا اب بلی اسے نہیں دیکھ رہی اور وہ محفوظ ہے اور کتا ان سب کو دیکھ کر
کیوں بھونکا؟ تو اس سوالات کا انتہائی مختصر ایک ہی جواب یہ ہے کہ ہر ذی
روح کے ساتھ ایک ناقابل تبدیل حقیقت جڑی ہے۔ فطرت کی عطا کردہ اس چیز کا
نام ہے “جبلت” اور یہی جبلت بلی کو سب کچھ چھوڑ کر چوہا کھانے، کبوتر کو
آنکھیں بند کرنے اور کتے کو بھونکنے پر مجبور کرتی ہے۔ دنیا کی کوئی سائینس
کوئی مادی و روحانی علاج کسی ذی نفس کی اس جبلت کو ہرگز تبدیل نہیں کر
سکتا جو اس کی پیدائش کے ساتھ پیدا ہو کر تا ابد اس کے فطری کردار سے جڑی
رہتی ہے ۔
ہمارے پاکستانی دانشور اور ادیب امریکی یا مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم اور تعفن آمیز اخلاقی گراوٹ کے حوالے سے بہت
کچھ لکھتے ہیں۔ لیکن شاید گوروں کے یہ تمام کالے کرتوت اور “مہذب انداز ”
کسی ماحول کی اثراندازی یا خنزیرخوری کا نتیجہ ہونے سے زیادہ ان کی جبلت
میں شامل ہو چکے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ان نام نہاد “مہذب” امریکیوں اور
جدید مغربی لوگوں کیلئے سیکس بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم پاکستانیوں کیلئے
بھوک میں کھانے پینے کی خواہش۔ ہم پاکستانیوں کو چلتے پھرتے بھوک لگے تو
سڑک پر کسی ریڑھی سے نان چنے کھا لیتے ہیں۔ طلب ہو تو فٹ پاتھی ہوٹل پر
چائے پی لیتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھے بھوک ستائے تو چائے کے ساتھ بسکٹ بھی ایک
نعمت ہوتا ہے اور اگر رات گھر والی نے کچھ پکایا نہ ہو تو بچوں کو لیکر کے
ایف سی یا بار بی کیو پلیس چلے جاتے ہیں۔ رات انٹر نیٹ پر بیٹھے بھوک
ستائے تو بیوی بہن یا بیٹی جو بھی جاگ رہی ہو اس سے فریج میں رکھا ہوا
کھانا گرم کرنے یا کافی بنانے کی فرمائیش کر دی جاتی ہے۔ بالکل ایس طرح
امریکی اور مہذب مغربی لوگوں کو چلتے پھرتے سیکس کا جنون چڑھ جائے تو فٹ
پاتھ سے گوری مٹیار کو جز وقتی سہیلی بنا لیتے ہیں۔ دفتر میں طبیعت پھڑک
اٹھے تو خوبصورت سیکریٹری ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ رات اپنی بیوی کے ساتھ
موڈ نہ ہو تو شہر میں بیسیوں قحبہ خانوں کی سہولت موجود ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ
اگر رات بیوی سو چکی ہو تو گھر میں موجود جو بھی محرم یا نا محرم ہاتھ لگے
اسی سے مطلوبہ جسمانی تسکین حاصل کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہمارے لئے فریج میں
پڑے ہوئے ٹھنڈے گاجر کے حلوے کو اوون میں گرم کر کے کھا جانا۔ یوں کہنا
چاہیے کہ ہم پاکستانیوں کو جب بھوک لگی جہاں بھوک لگی وہیں اسی وقت جو چاہا
جیسا چاہا سرعام یا چھپ کرکھا پی لیا اور دو دن بعد یاد بھی نہیں کہ کس فٹ
پاتھ کی کس ریڑھی یا بازاری ہوٹل پر بھوک مٹائی تھی ۔امریکہ اور مغرب میں
بالکل ایسی ہی تعریف سیکس کی ہے۔ جہاں چاہا، جب چاہا، جیسے چاہا، سرِ عام
یا چھپ کر، جس کے ساتھ چاہا (جنس یا رشتوں کی بھی کوئی قید نہیں) ٹھنڈے
ٹھار اور سیر و سراب ہو گئے اور پھر دو دن بعد یاد ہی نہیں کہ کس رنگ
رنگیلی مٹیار یا خوبرو نوجوان سے محبتوں کی پینگیں بڑھائی تھیں۔ کچھ لوگوں
کو محرم اور نا محرم کے ہاتھ لگنے کے جملوں پر شاید حیرت ہوئی ہو گی سو اس
حوالے سے وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ احباب اس میں دورائے نہیں کہ ہمارے تاریک
خیال مسلم معاشرے میں ماں بہن اور بیٹی سمیت تمام محرم رشتےغیرت اور تقدس
کی علامت مانے جاتے ہیں لیکن مغرب کے “مہذب جانوروں ” کیلئےعورت ذات صرف
سیکس کا ایک ٹول ہے۔ ہمارے مشرقی معاشرے کا حسن یہ ہے یہاں عورت جوں جوں
بوڑھی ہوتی ہے معاشرے میں اس کی عزت و احترام اور درجہ معتبر تر ہوتا چلا
جاتا ہے عورت ماں بن کر معزز بنتی ہے، نانی اور دادی بنتی ہے تو خاندان اور
معاشرے میں محترم تر ہو جاتی ہے۔ مگر اس کے برعکس مغربی معاشرے میں عورت
جوں جوں بوڑھی یا دوسرے لفظوں میں ” آؤٹ آف سیکس ” ہوتی ہے خاندانی نظام
اورمعاشرے میں اس کی اہمیت اور ضرورت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ کیئر ٹیکر
ہومز میں پہنچا دی جاتی ہے جہاں اس کی آل اولاد اسے کبھی کبھار یا سال بعد
صرف مدر ڈے پر ملنے جاتی ہے۔غیر قانونی جنسی جرائم کی غلیظ ترین حالت یعنی
فیملی سیکس میں بھی امریکی اور مہذب مغربی ممالک غلالت کی اس آخری حد کو
چھو چکے ہیں جس کا انجام بالآخرعذاب الہی ہی ٹھہرتا ہے۔ اس کریہہ فعل صد
فتن کے عادی معاشرے کی بدترین مثال مہذب اور تعلیم یافتہ مغرب کا ایک ترقی
یافتہ ملک ہالینڈ ہے جہاں ہرطرح کےغیر قانونی جنسی تعلقات کو مکمل قانونی
تحفظ حاصل ہے۔ مغربی تہذیب کے نمائیدہ ہالینڈ کے معاشرےکی اخلاقی گراوٹ اور
بے غیرتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ” سیکس فری” قانون کے
مزے لوٹنے والے اس گورے ملک میں بغیرشادی کےحاملہ ہونے والی لڑکیوں کی تیس
فیصد سے زائد تعداد اپنے ہی سگے باپ یا بھائی کے گناہ کا بوجھ اٹھائے پھرتی
ہیں۔ یہ بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان
کے میڈیا اورمعزز این جی اوز شہزادیوں کے محبوب، مہذب اور تعلیم یافتہ مغرب
میں بے زبان اور معصوم جانوروں کی عین جنسی تقلید اور ہر حد سے تجاوز شدہ
بے حیائی ہی مہذب ہونے کی اولین شرط اور خاص نشانی تصور کی جاتی ہے۔ تو پھر
ہم کیوں نہ کہیں کہ اگرامریکہ اور مغرب کی اعلی ترین تعلیم اورعالیشان
یونیورسٹیوں کی پیداواریہی کراہت آمیز اورکریہہ الصفت بگڑی نسل ہے تو صد
شکر کہ ہمیں ہمارے ٹوٹے پھوٹے ٹاٹوں والے سکول اورجہالت قبول ہے۔ صد شکر کہ
ہم دقیانوسی تاریک خیال اورجاہل بنیاد پرست انسان ہیں لیکن انسانیت کے نام
پر جنسی بے راہ روی سےانسانیت کی تذلیل نہیں کرتے۔ صد شکر کہ ہم امریکیوں
اور مغربی گوروں کی طرح مہذب، تعلیم یافتہ اور روشن خیال جانور نہیں ۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment