چور کا بزنس!
ائر پورٹ کے ایک خاکروب سے متعلق رپورٹ ملی کہ’’اوّل درجہ کا چور ہے‘‘۔ سکیورٹی کے اہلکاروں کو الرٹ کردیا گیا۔ جب بھی وہ کچرے کی ٹرالی لے کر باہر نکلتا ۔ اُس کی ٹرالی کی خوب اچھی طرح چھان بین کی جاتی۔ پھر اُس کی بھی تفصیلی جامہ تلاشی لی جاتی۔ مگرکچرے کی ٹرالی میں ردّی کے ڈھیر، استعمال شدہ کاغذی گلاسوں اوردیگر خاشاک کے سوا کچھ بھی نظر نہ آتا۔ اُس کی جیبوں سے بھی کوئی قابلِ گرفت چیز نہ نکلتی۔ ہوتے ہوتے ایک روز چیف سکیورٹی آفیسر نے بھی چھاپا مارا۔ مگر وہ بھی ناکام ہی رہا۔ شرمندگی کے سوا چیف صاحب کو اُس کی ٹرالی ہی سے کچھ ہاتھ آیا، نہ اُس کی جیبوں سے۔ مگرہرشخص کو یقین تھا کہ چوں کہ یہ عادی چور ہے چناں چہ کچھ نہ کچھ چراتاضرورہے۔مگر کیا چُراتا ہے؟ کبھی بھی اور کوئی بھی اُسے پکڑنہ سکا۔ آخرایک روز سکیورٹی مینیجر نے تنگ آکر اُس کو اپنے دفترمیں بلایا۔ اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا۔ اُس کے لیے چائے منگائی اوربڑے عجز سے کہا:
’’میاں تُم جیتے ‘ہم ہارے۔میراوعدہ ہے کہ تمہارے خلاف کوئی رپورٹ تیار نہیں کروں گا۔کوئی کیس نہیں بناؤں گا۔مجھے صرف اتنا بتادو کہ تُم کیا چُراتے ہو اور کیسے چراتے ہو؟‘‘
خاکروب ہنسااورکہنے لگا:’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کے بعد سے میرا یہ ’’بجنس‘‘ ختم۔ خیر ہے، کچھ اور کرلوں گا۔ صاب جی! روزانہ صرف میری ہی جامہ تلاشی کی جاتی ہے اور صرف میری ہی ٹرالی کو خوب خوب کھنگالا جاتاہے۔مگر آپ کے چست و چالاک سکیورٹی اہل کاروں کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ میں اُن کی آنکھوں کے سامنے سے ہرروز ایک نئی ٹرالی چراکرنکال لے جاتاہوں اور بازار جاکر بیچ آتا ہوں‘‘۔
ائر پورٹ کے ایک خاکروب سے متعلق رپورٹ ملی کہ’’اوّل درجہ کا چور ہے‘‘۔ سکیورٹی کے اہلکاروں کو الرٹ کردیا گیا۔ جب بھی وہ کچرے کی ٹرالی لے کر باہر نکلتا ۔ اُس کی ٹرالی کی خوب اچھی طرح چھان بین کی جاتی۔ پھر اُس کی بھی تفصیلی جامہ تلاشی لی جاتی۔ مگرکچرے کی ٹرالی میں ردّی کے ڈھیر، استعمال شدہ کاغذی گلاسوں اوردیگر خاشاک کے سوا کچھ بھی نظر نہ آتا۔ اُس کی جیبوں سے بھی کوئی قابلِ گرفت چیز نہ نکلتی۔ ہوتے ہوتے ایک روز چیف سکیورٹی آفیسر نے بھی چھاپا مارا۔ مگر وہ بھی ناکام ہی رہا۔ شرمندگی کے سوا چیف صاحب کو اُس کی ٹرالی ہی سے کچھ ہاتھ آیا، نہ اُس کی جیبوں سے۔ مگرہرشخص کو یقین تھا کہ چوں کہ یہ عادی چور ہے چناں چہ کچھ نہ کچھ چراتاضرورہے۔مگر کیا چُراتا ہے؟ کبھی بھی اور کوئی بھی اُسے پکڑنہ سکا۔ آخرایک روز سکیورٹی مینیجر نے تنگ آکر اُس کو اپنے دفترمیں بلایا۔ اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا۔ اُس کے لیے چائے منگائی اوربڑے عجز سے کہا:
’’میاں تُم جیتے ‘ہم ہارے۔میراوعدہ ہے کہ تمہارے خلاف کوئی رپورٹ تیار نہیں کروں گا۔کوئی کیس نہیں بناؤں گا۔مجھے صرف اتنا بتادو کہ تُم کیا چُراتے ہو اور کیسے چراتے ہو؟‘‘
خاکروب ہنسااورکہنے لگا:’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کے بعد سے میرا یہ ’’بجنس‘‘ ختم۔ خیر ہے، کچھ اور کرلوں گا۔ صاب جی! روزانہ صرف میری ہی جامہ تلاشی کی جاتی ہے اور صرف میری ہی ٹرالی کو خوب خوب کھنگالا جاتاہے۔مگر آپ کے چست و چالاک سکیورٹی اہل کاروں کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ میں اُن کی آنکھوں کے سامنے سے ہرروز ایک نئی ٹرالی چراکرنکال لے جاتاہوں اور بازار جاکر بیچ آتا ہوں‘‘۔
No comments:
Post a Comment